• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الطاف حسین کے لانگ مارچ میں شریک ہونے کے اعلان کے بعد تو لانگ مارچ کی کامیابی پرکسی کو کوئی شک نہیں رہا مگر سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری پندرہ بیس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گئے تو کیا ہوگا یقینا حکومت کے ساتھ مذاکرات ہونگے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے وہی مطالبات ہوں گے جو وہ پہلے پیش کر چکے ہیں جن میں سے پہلا نگران حکومت کا قیام ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ پیپلزپارٹی نگران حکومت بنانے کا اعلان کردے گی لیکن مذاکرات تو اس وقت کامیاب قرار پائیں گے جب نگران حکومت میں شامل لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کے معیار کے مطابق ہوں گے یعنی پہلا مرحلہ یہ ہوا کہ لانگ مارچ کے نتیجے میں ایسی نگران حکومت لائی جائے جو پیپلزپارٹی،نون لیگ یا کسی اور سیاسی پارٹی کی ہمدرد نہ ہو، اس میں کرپٹ لوگ نہ شامل ہوں، وہ غیر جانبدار لوگوں کی حکومت ہو۔ ایسے لوگ ہوں جو کاروبارِ حکومت کو احسن انداز میں چلا سکیں ۔میرا خیال ہے پیپلزپارٹی والے اس بات کو بھی مان لیں گے کیونکہ جب تک آصف زرداری کرسیٴ صدارت پر متمکن ہیں انہیں کوئی مسئلہ نہیں ۔ مسئلہ پیدا ہوگا نون لیگ کیلئے،خاص طور پر اس وقت جب نگران حکومت نے ان امیدواروں کے خلاف کورٹ میں جانا شروع کردیا جنہوں نے ٹیکس نہیں دیا یا بل نہیں جمع کرائے یا جن امیدواروں کے مختلف مقدمہ زیر التوا ہیں کہ جب تک ان مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ یقینا ایسے امیدوار پیپلزپارٹی میں بھی کم نہیں ہوں گے مگر مسئلہ نون لیگ کیلئے ہوگاکہ وہ تمام پرندے جو موسم آنے کااخباری غلغلہ سن کر پیڑ پر آبیٹھے ہیں، وہ اڑ جائیں گے بلکہ کئی پرانے پرندوں کو بھی ساتھ اڑا لے جائیں گے۔
پانیوں کو منجمد ہونا تھا آخر ہوگئے
رُت بدلنے پر پرندے پھر مسافر ہوگئے
ڈاکٹر طاہر القادری اس سلسلے میں آئین کی کتاب بھی اٹھائے پھرتے ہیں وہ یقینا عدالت عالیہ کے دروازے پر بھی دستک دیں گے اور وہ دستک بڑی اہم ہے کیونکہ سپریم کورٹ طے کئے بیٹھی ہے کہ اس نے کام آئین کے مطابق کرنا ہے ۔ دہری شہریت کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اب سپریم کورٹ کہے کہ وہ آئین کی شق نمبر62/اور63 پر عملدرآمد نہیں کراسکتی ۔اسے آئین کے مطابق فیصلہ دینا پڑے گاماہرینِ قانون و آئین کا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے ان شقوں پر عملدرآمد کرا دیا تو ملک واقعی تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ یہ بات یقینا سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے دھڑکتے دل بھی جانتے ہوں گے،سو فیصلے آئیں گے جیسے پہلے آرہے ہیں۔
اور اگر زیادہ امیدوار نااہل قرار دے دیئے گئے تومجبوراً سپریم کورٹ کو انتخابات تین ماہ کیلئے ملتوی کرنے پڑیں گے۔ یہ باتیں اس وقت پیپلزپارٹی اور نون لیگ دونوں کی عاقل و بالغ لیڈرشپ بھی سوچ رہی ہے اور ایک ہی کشتی میں بیٹھ کر سوچ رہی ہے۔ اس کا ایک فوری حل تو یہ سوچا گیا ہے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی مل کر ایک آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاس کردے جس کا سپریم کورٹ کچھ نہ بگاڑ سکے اور اس آئینی ترمیم میں ان شقوں کو بدل دیا جائے مگر اس میں دو رکاوٹیں ہیں ایک تو یہ کہ وقت کم ہے دوسرا پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے درمیان وہ مراسم جو بھی تک عوام کی نظر وں سے اوجھل ہیں وہ کھل کر سامنے آجائیں گے یعنی سیاست کا اصل میدان سپریم کورٹ میں سجنا ہے۔ سپریم کورٹ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا یقینا نگران حکومت کو اس فیصلے پر بھی عملدرآمد کرانے پڑے گا۔اس وقت ہمارے دانشوروں کو اس بات کی سمجھ آئے گی کہ عمران خان نے دو بہت بڑے جلسے کئے۔سیاست کے دریا میں ایسا طوفان برپا کیاکہ لوگ اپنی نشستیں چھوڑ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے اور پھر وہ یک لخت خاموش ہوگئے، لہریں پُرسکوت ہوگئیں ۔میرے خیال کے مطابق عمران خان نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنی جماعت میں اس حد تک مایوسی پھیلا دی کہ شامل ہونے والے واپس جانے لگے۔ نون لیگ کے دروازے پر لوٹوں کی قطاریں سجنے لگیں۔ دراصل عمران خان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اب ریس کے میدان سے پرانے گھوڑے جانے والے ہیں۔ وہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں ۔اگرچہ اس وقت وہ بھی اپنے نئے ساتھیوں کی خواہش پر یہی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں مگر انہیں معلوم ہے کہ وقت بدل رہا ہے۔ان بدلتے ہوئے حالات میں جہاں تک فوج کے کردار کا تعلق ہے توجنرل ایوب کے بیٹے ، جنرل ضیاء الحق کے فرزند اور جزل پرویز مشرف کے کچھ ہم مشرب کی نون لیگ میں شمولیت کا مفہوم کہیں یہ دیا جارہا ہے کہ شاید آئندہ حکومت نوازشریف بنانے جا رہے ہیں۔ میرے نزدیک یہ تاثر غلط ہے اور صرف ایک انتخابی شعبدے بازی ہے جو بہت پرانی ہوچکی ہے۔جنرل کیانی نے نہ کوئی پہلے غیر آئینی کام کیا ہے اور نہ وہ کوئی غیر آئینی کام کرنے کا خیال رکھتے ہیں۔ سو جوفیصلہ عدلیہ کا ہوگا وہی افواجِ پاکستان کا ہوگا۔ایک اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے جلوس کو دہشت گردی سے بچانے کی ذمہ داری کیا پنجاب پولیس لے گی یا یہ کام بھی افواجِ پاکستان کو کرنا پڑے گا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر طاہر االقادری کو اس سلسلے میں باقاعدہ فوج سے درخواست کرنا چاہئے۔ پنجاب حکومت اس ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا نہیں کرے گی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نون لیگ کو اقتدار سے روکنے کیلئے سامنے لائے گئے ہیں ۔مگر میرا خیال اس کے برعکس ہے میرے نزدیک اس جلوس میں دہشت گردی کی واردات کا سب سے زیادہ نقصان نون لیگ ہوگا،انتخابات دور ہوتے چلے جائینگے۔بہرحال نیا سال سب کو مبارک ہو، دعاہے کہ وہ پاکستان کیلئے روشنیاں اور خوشبوئیں لیکر آئے۔ ابھی تک تو معاملہ صرف آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہے اور حضرت ِ غالب نے شاید انہی کے حوالے سے کہا تھا
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک نجومی نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
تازہ ترین