• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

القائم ہاؤسنگ کے الاٹیز ہمارے فیملی ممبرز کی طرح ہیں، علی بلڈرز کے چیئرمین علی حسین

جنگ: سب سے پہلے آپ کے وقت دینے کا شکریہ۔ علی حسین صاحب، یہ بتائیں کہ آپ کب سے بلڈنگ اینڈ کنسٹرکشن کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور اب تک کا سفر کیسا رہا ہے؟

علی حسین: آپ کی تشریف آوری کا شکریہ۔ دراصل، ریئل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن ہمارا فیملی بزنس ہے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ ریئل اسٹیٹ میں کام کرکے میں کنسٹرکشن کے شعبہ میں آگیا۔

جنگ: آپ نے اپنی تعلیم کا ذکر کیا ہے تو کچھ اپنے تعلیمی پس منظر کے بارے میں بتائیں؟

علی حسین: 1980ء میں میٹرک کرنے کے بعد مزید تعلیم کیلئے میں اسلامیہ کالج پشاورچلا گیا۔ اس کے بعد پنجاب نیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں MBAکی ڈگری حاصل کی۔ غالباً، میں پاکستان کے اس پہلے بیچ میں شامل تھا، جو MBA-ITمیں گریجویٹ ہوکر نکلا۔ آئی ٹی کے شعبہ میں، میں نے مختصر عرصہ کام کیا، اس دوران میں نے کچھ سوفٹ ویئرز لکھے اور سسٹم انالائز کیے۔

وہ کوبول(COBOL)بیسک لینگویج، ڈی بیس اور فوکس بیس کا دور تھا۔ ایک پروگرام لکھنے کے لیے ہزاروں سطور لکھنا پڑتی تھیں۔ بہرحال، کچھ عرصہ بعد میں ریئل اسٹیٹ اور پھر کنسٹرکشن کے شعبے میں آگیا۔میرا خیال ہے کہ آپ عملی زندگی میں چاہے جو بھی کام کریں، تعلیم کسی نہ کسی شکل میں آپ کے کام ضرور آتی ہے۔

جنگ: ریئل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن کے شعبہ میں اپنے ابتدائی دور پر کچھ روشنی ڈالیں؟

علی حسین: آئی ٹی کوخیرباد کہنے کے بعد میں نے لاہور کے ریئل اسٹیٹ میں کچھ کام کیا، اس کے بعد اسلام آباد میں کام کیا اور جب گوادر میں ایک Boom آیا تو ہم بھی اس طرف متوجہ ہوگئے۔ ہمارا آبائی تعلق چونکہ گوادر اور تربت سے ہے تو وہاں کام کرنا میرے لیے زیادہ آسان اور فطری تھا۔ اس کے بعد کراچی میں جوائنٹ وینچر کیے۔ اس وقت القائم ہاؤسنگ ہماری توجہ کامرکز ہے۔

جنگ: بہت اچھی بات ہے کہ آپ ایک طویل سفر طے کرنے اور تجربات حاصل کرنے کے بعد یہاں پہنچے ہیں۔ ہمارے قارئین کو اپنے موجودہ پراجیکٹ القائم ہاؤسنگ کی کچھ بنیادی خصوصیات بتائیں؟

علی حسین: جب ہم ہاؤسنگ سوسائٹی کی بات کرتے ہیں تو اس میں بنیادی انسانی ضروریات کو مدِنظر رکھا جانا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ اس پراجیکٹ میں ہم تعلیم اور صحت کی سہولیات پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔القائم ہاؤسنگ M-9پر ایک اہم لوکیشن پر واقع ہے، یہ ایک مصروف Routeہے، اس کے ارد گرد آبادیاں اور گوٹھ ہیں۔ القائم ہاؤسنگ میں ہم نے ہسپتال، ٹراما سینٹر، ایمرجنسی ریسپانس سینٹر (فائر بریگیڈ) کے علاوہ ہر بلاک میں ایک اسکول رکھا ہے، یہ تمام سہولتیں نہ صرف سوسائٹی بلکہ ارد گرد کی آبادی کی ضروریات بھی پوری کریں گی۔ اس وقت وہاں صورتحال یہ ہے کہ کسی ایکسیڈنٹ، حادثے یا سانحے کی صورت میں لوگوں کو یا تو حیدرآباد یا پھر بقائی میڈیکل آنا پڑتا ہے۔ ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ ہم القائم ہاؤسنگ کے ذریعے اس علاقے اور قرب و جوار میں قائم آبادیوں اور گوٹھوں کی تعلیم و صحت کی ضروریات کو پورا کریں۔ القائم ہاؤسنگ میں تعلیمی سہولتیں خدمت خلق کے جذبہ کے تحت فراہم کی جائیں گی، جہاں طلباء کو کم فیس میں معیاری تعلیم حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ لوگوں کی تفریح کے لیے وہاں پارکس بھی بڑے رقبے پر بنائے جائیں گے۔

جنگ: القائم ہاؤسنگ میں ترقیاتی کاموں کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟

علی حسین: القائم ہاؤسنگ کی چھتری تلے پانچ فیز پر کام جاری ہے، جن میں سے فیز ایک اور فیز دو کا ترقیاتی کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ میں نے ابھی جن سہولتوں کا ذکر کیا ہے، رواں سال کے آخر یعنی دسمبر2019ء تک وہ تمام کی تمام عوام کی خدمت کے لیے باقاعدہ دستیاب ہوجائیں گی، کیونکہ ہم افتتاح نہیں بلکہ خدمات کی باقاعدہ ڈیلیوری پر یقین رکھتے ہیں۔

جنگ: القائم ہاؤسنگ سے پہلے آپ کون سے پراجیکٹس کرچکے ہیں؟

علی حسین: میرین سٹی گوادر میں ہم نے مثالی ترقیاتی کام کیا ہے۔ گوادر میں ابھی تک چند ایک ہی ایسے پراجیکٹس ہیں، جہاں ترقیاتی کام مکمل ہوچکے ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ایسے مکمل پراجیکٹس میں ہمارا منصوبہ بھی شامل ہے۔

جنگ: نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت 50لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ لائی ہے۔ کیا آپ کو یہ ممکن نظر آتا ہے؟

علی حسین: وزیراعظم عمران خان کا یہ ایک قابلِ تعریف ویژن ہے۔ اس ویژن کو قابلِ عمل بنانے کے لیے اس شعبہ کے ماہرین کو آگے لانا ہوگا اور متعلقہ فورمز کو آن بورڈ لینا ہوگا۔ اگر آباد (ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز) اور گوادر بلڈرز ایسوسی ایشن کو آن بورڈ نہ لیا گیا تو 50لاکھ گھروں کا منصوبہ محض ایک ویژن ہی رہے گا۔

جنگ: پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے کیلئے حکومت بلڈنگ اینڈ کنسٹرکشن کے شعبہ سے وابستہ کمیونٹی سے کس حد تک رابطے میں ہے؟

علی حسین: میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے اور اس کی کامیابی کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے مابین جس حد تک ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، مجھے اس میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔ عوام تبدیلی چاہتے تھے، اسی لیے انھوں نے خان صاحب کو ووٹ دیا۔ جب خان صاحب حکومت سے باہر تھے، اس وقت انھوں نے جو دعوے کیے اور جو منشور اور نعرے لے کروہ الیکشن لڑے، اب ان کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ ٹھیک ہے، پانچ مہینے میں یہ نہیں ہوسکتا لیکن کم از کم آپ راہ تو متعین کرسکتے تھے، کوئی بات نہیں آپ کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ یہ کرلیں۔

اسی طرح، سی پیک میں گوادر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، تاہم گوادر کے گوناگوں مسائل جوں کے توں ہیں۔ وہاں زمینوں کے مسائل شدید ہیں۔ پٹواری اس وقت گوادر کے شہنشاہ بنے ہوئے ہیں، جب تک حکومت ریونیو ڈپارٹمنٹ کو ٹھیک نہیں کرلیتی، گوادر میں پائیدار ترقی نہیں آسکتی۔

جنگ: آپ القائم ہاؤسنگ کے الاٹیز اور عام لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیںگے؟

علی حسین: القائم ہاؤسنگ کے جو الاٹیز گھر بنانا چاہتے ہیں، ہم اپنے وسائل سے انھیں 10سال کی آسان اقساط پر گھر بناکر دینے کو تیار ہیں۔ ہم مڈل کلاس اور کم آمدنی والے گھرانوں کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم اس سہولت کو 20سال کی آسان اقساط پر لے جائیں لیکن بطور ایک پرائیویٹ بلڈر اور ڈویلپر ہماری کچھ حدود ہیں۔ اگر حکومت اس سلسلے میں کوئی پالیسی لے آئے اور عملاً غیرمتحرک ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کو متحرک کرے تو ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ کنسٹرکشن ہمارا کاروبار ضرور ہے، تاہم ’فلاح‘ ، ’خدمتِ خلق‘ اور ’پاکستان سے محبت‘ ہمارا ویژن ہے اور ہم اسی ویژن کے تحت کام کررہے ہیں۔ علی بلڈرز ایک ادارہ نہیں، یہ ایک فیملی ہے۔ القائم ہاؤسنگ کا ہر الاٹی اس فیملی کا حصہ ہے۔ ہم اپنے فیملی ممبرز کے لیے اسے مثالی ہاؤسنگ سوسائٹی بنائیںگے۔

تازہ ترین