• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ولیم شیکسپیئر کے علاوہ شاید ہی کسی دوسرے شاعر یا مصنف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے سب سے زیادہ پڑھا گیا ہویا اس کے ڈرامے اسٹیج کیے گئے ہوں یا پھر اس کی تحریروں کے ترجمے ہوئے ہوئے ہوں یا جن کے ڈراموں پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہوں یا بہت تنقیدی کام ہوا ہو۔ ولیم شیکسپیئر کے ڈراموں پر لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد ان کے ڈراموں سے یقیناً ہزار گنا زیادہ ہوں گی، لیکن ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ مواد دستیاب نہیں ہے۔

16ویں صدی میںانگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اوّل (Queen Elizabeth I)کا راج تھا۔ یہی دور ولیم شیکسپیئر کے عروج کا بھی تھا، جنہیں نہ صرف انگریزی زبان بلکہ دنیا کا عظیم ترین اور بے مثال لکھنے والا کہا جاتا ہے۔ انہوںنے معجزانہ اور تخیل والے ڈراموں کو رد کر کے زیادہ تر رجائیت پسند اور انسانی افادیت پر مبنی ہمہ گیر ڈرامے لکھے جو تاریخی، ثقافتی، تہذیبی اور قلبی اظہار پر مبنی تھے۔ شیکسپیئر کا زمانہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا دور تھا، جو کہ علم و فنون کے احیاء کا زمانہ تھا۔ شیکسپیئر نے ہوشمندانہ اور معاملہ فہمی کا سبق پڑھایا۔ شگفتہ مزاجی اور محبت آمیز جذبات بیان کئے اور اپنے تخلیقی پاروں کو بین الاقوامی تھیٹر کے مطابق لکھا، جس کا مقصد نوع انسانی کے نرم و نازک احساسات، انسان دوستی اور بہبود بشر کو اجاگر کرنا اور حسیاتی اور نفسیاتی کیفیات کو بیان کرنا تھا۔ ان کے 37ڈرامے انگلستان کی تاریخ، یونان اور روم کے قصوں اور داستانوں پر مبنی ہیں۔

شیکسپیئر، ملکہ ایلز بتھ اوّل کے چہیتے لیکن بیباک، دانشور مصاحب تھے۔ ملکہ نے ایک بہت اونچا مینار بنوایا اور اسے دیکھنے کے لئے دوسرے مصاحبین کے علاوہ شیکسپیئرکو بھی ہمراہ لے گئیں۔ مینار کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ملکہ تھک گئیں۔ انہوں نے ’’Visitors Book‘‘ میں لکھا کہ ’’میں اتنی بلندی پر آ گئی ہوں کہ چکرا گئی ہوں‘‘ ملکہ کے بعد اسی ’’Visitors Book‘‘ پر شیکسپیئر نے لکھا کہ ’’ملکہ معظمہ! جب آپ میں اتنی سکت نہیں تھی تو اتنی بلندی پر آنے کی کیا ضرورت تھی؟

ابتدائی حالات

ولیم شیکسپیئر 23اپریل 1654ء کو جان شیکسپیئر کے گھر اسٹریٹفورڈ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ماں کا نام میری آرڈن تھا جبکہ چار بہنیں اور تین بھائی بھی تھے۔ شیکسپیئر کو ڈرامے دیکھنے اور لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ ان کے گائوں میں جب ڈرامہ دکھانے نوٹنکی آتے تھے ،تو وہ بہت شوق سے اسے دیکھنے جاتے تھے۔ اداکاروں کے بولے ہوئے مکالمے وہ تنہائی میں دہراتے تھے۔ یہ شوق اتنا بڑھا کہ کئی بار انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر نوٹنکی والوں کے ساتھ بھاگ جائیں۔ ان کے والد پیشے کے لحاظ سے قصاب تھے۔ ایک بار ولیم شیکسپیئر نے ایک جانور کو ذبح کرنے کی کوشش کی مگر چھری چلانے سے پہلے ایک لمبی چوڑی تقریر جھا ڑ دی۔ یہ و ہ مکالمے تھے، جوا نہوں نے تھیٹر کے اداکاروں سے سنے تھے۔ جانوروں پر چھری چلانے کا شاید یہ ان کا آخری موقع تھا۔

18سال کی عمر میں شیکسپیئر نے جین ہیتھ وے سے شادی کر لی۔ یہ شادی اگرچہ ان کی مرضی کے خلاف تھی، لیکن انہیں یہ شادی اس لیے کرنا پڑی کہ سسرال والوں نے ان کے مالی حالات بہتر کرنے کی ہامی بھر لی تھی۔ شادی کے بعدجیسے تیسے گزارا کیا۔ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کے باپ بن کر انھوں نے لندن کی راہ لی اور وہاںتھیٹر کمپنیوں میں چھوٹے موٹے کئی کام کیے۔ انھیں اداکاری کا شوق تھا تو چھوٹے موٹے کردار کر کے اداکاروں کی صف میں شامل ہو گئے۔ آہستہ آہستہ وہ اداکاروں کے گروپ کے ناظم بن گئے، پھر قلم ہاتھ میں تھاما اور ڈرامے لکھنے شروع کر دئیے۔ اس کام میں انہوں نے بہت مشکلات جھیلیں، مگر ہمت نہ ہاری اور بالآخر اپنا نام اداکاروں کی اس فہرست میں درج کر واہی لیا، جو بادشاہ وقت جیمز اول کے منظورِ نظر تھے۔ شیکسپیئر نے ڈراما نویسی جاری رکھی اور پھر وہ مشہور ڈرامہ نگار بن گئے۔

وجہ شہرت

شیکسپیئر کے مشہور ڈراموں میں ہنری ہشتم ( تین حصے)، مرچنٹ آف وینس، کنگ جان، دی ٹیمنگ آف دی شریو، ایزیولائک اِٹ، ہیملٹ، کنگ لیئر، جولیس سیزر، دی میری وائیوز آف ونڈسٹر، اوتھیلو، رومیو اینڈ جیولٹ، میکبتھ، ٹویلفتھ نائٹ، دی ٹیمپسٹ، دی ونٹرزٹیل، انتھونی اینڈ قلوپطرہ، دی کامیڈی آف ایررز، مچ اڈو آ بائوٹ نتھنگ، لوز لیبر لاسٹ اور اے مڈسمر نائٹس ڈریم قابل ذکر ہیں۔

20سال انہوںنے ڈرامے لکھے اور پھر اپنے گائوںا سٹریٹفورڈ واپس چلے گئے۔ لندن میں رہ کر بھی وہ اپنے گائوں کو نہ بھولے تھے۔52سال کی عمر میں انتقال کرنے والے شیکسپیئر لندن میں قیام کے دوران طربیہ ڈرامے لکھتےرہے۔ وہ وراثت، جانشینی اور دوسرے ہلکے پھلکے موضوعات کو ڈرامے کی صنف میں سموتے رہے ۔ آخری دنوں میں شیکسپیئر نے ان ڈراموں کی طرف توجہ دی، جو اس کے عظیم المیے بن کر دنیا کے سامنے آئے ،جن میں زندگی ہرپل مصیبت سے نبر دآز ما نظر آتی ہے، جن میں ایک وقار بھی ہے اور شان و شوکت بھی، بلند خیالی بھی ہے اور فکر کی عظمت اور گہرائی بھی، جوزمانے کی ساری ریشہ دوانیاں اپنے اندر سموئے ہوئےہے۔

شیکسپیئر تھیٹر کمپنی کا قیام

ولیم شیکسپیئر کےآبائی قصبے اسٹریٹفورڈ اَپون ایوون میں حال ہی میں ایک تاریخی تھیٹر کو نیا روپ دیا گیا ہے۔ رائل شیکسپیئر نامی یہ تھیٹر ماضی اور حال کی کہانی بیان کرتا ہے۔ 19ویں صدی کی وکٹورین طرز پر اور 1932ء کے زمانے کے آرٹ سے سجی اس عمارت کو آج کے زمانے کی تھیٹر پرفارمنس کے لیے تیار کیا گیا ہے۔اس کا پراناا سٹیج جہاں کبھی پرفارمنس ہوا کرتی تھی، اب تھیٹر کی لابی میں واقع ہے۔ مائیکل بوئیڈ اس کے آرٹ ڈائریکٹر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ اس تھیٹر میں آنے والے تمام لوگ اس سٹیج پر چل کر آتے ہیں، جہاں کبھی لورین اولیور یا ووین لی جیسے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔

تازہ ترین