• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بزنس ایجوکیشن موجودہ عالمی مارکیٹ کا لازمی جزو ہے، جس میں طلبہ و طالبات کو کاروبار کے بنیادی اصولوں اور اس پر عملدرآمد کے طریقوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ آج کل طالب علم اس تعلیم کو عملی طور پر اپناتے ہوئے آن لائن کاروبارسے اپنے تعلیمی اخراجات خود پورے کر رہے ہیں۔

بزنس ایجوکیشن کی اہمیت

بزنس ایجوکیشن پروگرام ان لوگوں کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے، جو اپنا کاروبار کرنے اور اسے توسیع دینے کے متمنی ہیں۔ یہ پریکٹیکل اسکلز بھی مہیا کرتا ہے، جس کی بدولت آپ براہ راست کاروباری پیچیدگیوں اور نفسیات کو سمجھتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ان پروگرامز میں انٹرن شپ کے ذریعے کسی بھی کمپنی اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں جا کر عملی تجربہ ملاحظہ کرتے ہیں کہ مصنوعات کیسے بنتی ہیں اور خدمات کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے۔ بزنس ایجوکیشن کاروبار کی مختلف اقسام کا تفصیلی تعارف پیش کرتی ہے، جس سے آپ کو اس بات کا تعین کرنے میں آسانی رہتی ہے کہ کون سا کاروبار آپ کے مزاج سے مماثلت رکھتا ہے۔ جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جائیں گے ویسے ویسے کاروبار میں انتظامی پیچیدگی آتی جائے گی، جس سے نمٹنے کے لیے آپ کو شخصیتی خوبیاں اور ہنر درکار ہوتے ہیں۔ بزنس ایجوکیشن کے لیے کمپیوٹر چلانے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کی خدمات درکار ہوتی ہیں، جو پائی پائی کا حساب رکھ کر انکم ٹیکس گوشواروں اور ادائیگی میں سہولت مہیا کرے۔

بزنس ایجوکیشن کے مضامین

بزنس ایجوکیشن پروگرام کی ابتدا جن مضامین سے شروع ہوتی ہے ان میں اکائونٹنگ، بزنس لاء، کیریئر ڈویلپمنٹ، کمیونی کیشن، کمپیوٹیشن، اکنامکس، انٹر پرینیور شپ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انٹرنیشنل بزنس مینجمنٹ، مارکیٹنگ اور پرسنل فنانس جیسے موضوعات شامل ہیں۔ ان کی تدریس کے بعد آپ کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کا کاروباری ذہن کون سی حسابی، قانونی، مشاورتی، تعلقاتی، تکنیکی، معاشی، ہنر و فنی، معلوماتی، بین الاقوامی، انتظامی اور مالیاتی ذہانتوں کا مالک ہے۔ اس ذہانت کے تحت آپ کاروبار کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ان12مضامین میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ کالج لائف میںآپ کے لیے کیریئر کا انتخاب لازم ہوجاتا ہے، جب آپ کسی بھی میدان میں اختصاص حاصل کرکے اپنی زندگی کو محفوظ راستے پر ڈال سکتے ہیں۔

پاکستان میں بزنس ایجوکیشن

پاکستان میں بزنس ایجوکیشن کی سہولت اسکول، کالج اور یونیورسٹی تینوں سطحوں پر موجود ہے اور تدریس کا انداز وہی ہے، جو مغرب کا ہے۔ مقامی کاروباری ضروریات اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو نظرانداز کرتے ہوئے مغربی کاروباری اصولوں پر ایک صارف معاشرہ تشکیل دیا جا رہا ہے، جو مصنوعات بنانے میں خودکفیل نہیں۔ خدمات بھی اس بزنس ایجوکیشن کی پروردہ ہیں، جو ترقی یافتہ اقوام نے اپنی ضروریات کے تحت تشکیل دی ہیں۔ پاکستان کے بزنس اسکولز میں وہی نصاب پڑھایا جا رہا ہے، جو شکاگو اور مونٹریال کے بزنس اسکولز میں رائج ہے، جن کے اصول نارتھ امریکا سے لئے گئے ہیں۔ اگر دیگر شعبوں کی بات کریں تو زرعی تحقیقاتی اداروں سے کئی نئی فصلوں کی خوشخبریاں ملتی ہیں لیکن اوپن مارکیٹ میں وہ نہیں آتیں۔ مینوفیکچرنگ کوالٹی کا شعبہ ہماری بزنس ایجوکیشن سے اوجھل ہے۔ ہمیں اپنی مصنوعات و پیداوار کا معیار عالمی مارکیٹ کے مطابق کرنے کے لیے مغربی تجربات اور مقامی ماحول کا سہارا لیتے ہوئے اجناس و مصنوعات کے لیے مقامی تعلیم کو فروغ دے کر عقل سے کام لینا ہوگا۔ ہمارے تعلیمی ادارے بہت اچھے موجد تو بناتے ہیں لیکن ان کی صلاحیتیں ہماری حکومتوں سے اوجھل رہتی ہے۔ پتہ تب چلتا ہے جب کسی گوگل انٹیل سائنس فیئر میں کوئی موجد، ٹیکنالوجی ماہر طالب علم ملک کا نام روشن کرتا ہے اور پھر ان کا نام میڈیا پر آجاتا ہے مگر پھر وہی گمنامی اور وہی گوشہ تنہائی۔ ہماری یوتھ اسمبلی ہو یا ینگ آرٹسٹ، سب کا اسٹائل مغربی ہےمگر جوہر مشرقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارےطالب علم فارغ التحصیل ہوکر عملی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ مارکیٹ میں میری کھپت کہاں ہے۔

تازہ ترین