• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے کے لئے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پرائمری سطح تک اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے اور انگریزی کو بطور مضمون پڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک اچھی پیشرفت ہے۔ قبل ازیں 2011میں حکومت وقت نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ جس سے اردو اور انگریزی دوہرے متوازی اور طبقاتی نظام کو تقویت ملی۔ یہ صورت حال آج ملک بھر میں دیکھنے کو ملتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف پرائمری کے بعد سیکنڈری، ثانوی اور اعلیٰ سطحوں پر مرتب ہو رہے ہیں بلکہ آگے چل کر دفتری زبان کے تعین میں پیدا شدہ ابہام کی بڑی وجہ بھی تعلیم کے دو الگ الگ سسٹمز کا ہونا ہے۔ یہ تفریق ختم ہونا چاہئے۔ نئی تعلیمی پالیسی کو دی نیو ڈیل 2018-23کا نام دیا گیا ہے جس کی رو سے سائنس و ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، آرٹس اور ریاضی کے مضامین مڈل سطح پر متعارف کرائے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے امید ظاہر کی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے بعد طبقاتی تعلیم کا خاتمہ ہو گا۔ یہ ایک نہایت حوصلہ افزا اقدام ہے تاہم یہ محض پنجاب تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ اردو ملک کی قومی زبان ہے جس کے نفاذ کا اعلان بانی پاکستان نے کیا تھا لیکن 71برس کی تاریخ پر مشتمل عدم سیاسی استحکام زبان اردو کے ٹھوس اور عملی نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا اب ملک میں جمہوری عمل گزشتہ تین حکومتوں سے ایک تسلسل کے ساتھ فروغ پذیر ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان کی ابتدائی دو دہائیوں میں پرائمری سطح پر اردو کو بنیادی حیثیت حاصل رہی اور آگے چل کر اس کے ہر شعبہ زندگی میں حوصلہ افزا اثرات مرتب ہوئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خیبر سے کراچی تک ایک ہی ذریعہ اور نظام تعلیم رائج ہونا چاہئے۔ ملک کے 4کروڑ سے زیادہ بچوں کا مستقبل حکومتی حکمت عملی سے وابستہ ہے۔ آنے والی نسلیں اس کے بعد مزید تجربات کی متحمل نہیں ہو سکیں گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین