• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس کا مکمل متن

بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘ آپ سب کو آئی ایس پی آر میں خوش آمدید …! میں One forth time بات چیت کرتا ہوں اور And remaining three fore time questions possibility today I my take little more time and then take your question آج کی پریس بریفنگ کےلیے کافی موضوعات تھے جن پر بات چیت میں کچھ عرصے سے کرنا چاہ رہا تھا لیکن پلوامہ کے واقعات کے بعد جو حالات پیدا ہورہے تھے اس کی وجہ سے میری زیادہ تر بات چیت اسی موضوع پر ہوگی ‘ کچھ ایک آدھ موضوعات جو ہیں وہ اس پر میں آخر میں بات چیت کروں گا Then in take your question ‘14 فروری کو پلوامہ میں جو قابض بھارتی فوج ہے اس پہ کشمیری نوجوان نے وہاں پر جو سیکورٹی فورسز ہیں ان کو نشانہ بنایا اور جیسا کہ ہوتا ہے واقعہ کے فوری بعد فوری طور پر پاکستان کے اوپر انڈیا کی طرف سے الزامات کی بارش ہوگئی بغیر سوچے ‘ بغیر سمجھے ‘ بغیر کسی ثبوت کے پاکستان نے اس دفعہ جواب دینے کے لئے تھوڑا سا وقت لیا وقت اس لئے لیا کہ جو الزامات لگائے گئے تھے اس کے اپنے تہی تھوڑی تحقیق کی اس کے بعد جب آپ کی تحقیق یقینی ہوگئی تو اس کے بعد وزیراعظم پاکستان نے اس کا جواب دیا اس واقعات پر اس بات چیت سے پہلے میں چند باتیں کرنا چاہتا ہوں چند باتیں اس لئے کہ Where in to fifth generation war fear او راس کے جو ہدف ہے وہ ہماری نوجوان نسل ہے ‘ پاکستان کی 64فیصدآبادی جو ہے وہ نوجوانوں پر مشتمل ہے تو اس ففتھ جنریشن وار کے ذریعے پلوامہ کا جو حملہ ہے اس کو لے کر بھی بہت ساری بات چیت ہوئی تو میں چاہتا ہوں کہ تھوڑا سا Contest یہ دوں تاکہ جو ہماری نوجوان نسل ہے وہ اسContest کو سمجھ سکے کہ کیسے جو بات چیت ہے وہ چل رہی ہے ان کا یہ جاننا ضروری ہے ۔ ہماری 72سال کی تاریخ ہے 47ء میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور پاکستان آزاد ہوا اس حقیقت کو انڈیا آج تک قبول نہیں کرسکا ‘ 1947 اکتوبر میں انڈیا نے کشمیر پر حملہ بھی کیا اور 72سال سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ان کے ظلم و ستم جاری ہیں ۔ 1965ء میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ہوئی لیکن ہم ایک نوزائیدہ ملک تھے ہمارے ریسورسز اور فوج بھی ویسی تھی تو 65ء میں ہمارا ملک جو ترقی کی راہ پر گامزن تھا اس جنگ کے اس پر اثرات ہوئے 1971ء میں مشرقی پاکستان سے جو ہمارا زمینی فاصلہ تھا اور پھر جو وہاں پر حالات تھے اس کو Exploit کیا مکتی باہنی کا کردار آپ کے سامنے ہیں اور جو موجودہ وزیراعظم ہیں انڈیا کے ان کا ایک اعترافی بیان بھی ہے کہ وہاں پر کیا بات چیت کی اور کس طرح سازش سے ہمیں دولخت کیا۔ اصل دہشت گردی تو انڈیا نے اس وقت کی جب مکتی باہنی کے ذریعے وہاں پر حالات خراب کرائے گئے لیکن الحمدللہ پاکستان ایک بہادر(رزیلنٹ) قوم تھی اس سانحے سے بھی ہم سنبھلے پھر 1971ء سے 1984ء تک کا ایک ایسا ٹائم پریڈ تھا جس پر ہماری مشرقی سرحد پہ کسی قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ‘Relatively situation رہی Cross LOC Violation نہیں ہوئی اور ہم نے ایک طریقے سے دوبارہ استحکام اور ترقی کی طرف جانا شروع کیا But then such in happened اور ایسا علاقہ جہاں پر افواج پاکستان کی موجودگی نہیں تھی وہاں پر آپ آئے ‘ آپ نے ہمارے علاقے پر قبضہ کیا اور اس وقت سے لے کر ابھی تک دنیا کے بلند ترین محاذ پر افواج پاکستان ڈٹی ہوئی ہیں اور مقابلہ کررہی ہیں اسی دوران آپ کو پتہ ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین نے حملہ کیا اس پر بھی پاکستان کے بہت سارے اثرات ہیں 1998ء میں ہم نے جوہری طاقت حاصل کی وہ بھی Side defense میں کیونکہ اس Deterrence کی موجودگی میں انڈیا کا ہمارے اوپر کی Conventional war impose کرنے Possibility ختم ہوجاتی ۔ اور جب یہ Possibility ختم ہوئی تو انڈیا نے غیر روایتی Indirect strategy کو ہمارے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینا شروع کردیا ۔ 2001ء میں جب انٹرنیشنل فورسز نے افغانستان میں طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا تو آپ کو پتہ ہے کہ مشرقی سرحد پر انڈیا نے شرارت کردی اور ہماری توجہ مشرقی سرحد پر ہوگئی اگر اس وقت بھی ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم بہتر پوزیشن میں ہوتے کہ مغربی سرحد سے جو دہشت گردی پاکستان میں داخل ہورہی تھی اس کو داخل نہ ہونے دیتے اور بعد میں اتنی ناں پاکستان میں پھیلتی جتنی کہ اس کے نتیجے میں پھیل گئی ۔ 2008ء میں جب ہم دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑرہے تھے ہمیں کامیابیاں مل رہی تھیں تو ایک دفعہ پھر انڈیا اپنی ا فواج کو سرحد پر لے آیا ۔مقصد یہ تھا کہ ہماری جو دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں ہورہی ہیں ان کو کسی طریقے سے Slow کرسکے او راس کا زندہ ثبوت کلبھوشن کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے ‘ اس تمام عرصہ میں پاکستان نے کیا کیا 1988-89ء میں دو طرفہ سی ڈی ایمز کے اوپر بات چیت کا آغاز کیا پاکستان نے ہمیشہ امن کی آفر کی 2003ء میں DGMOs کے درمیان ہاٹ لائن قائم کی اورلائن آف کنٹرول پر فائر بندی کےلئے ایک انڈراسٹینڈنگ کی جس کو حالیہ پچھلے دو سال میں تاریخ میں سب سے زیادہ Violate انڈیا نے کیا ۔ اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر ہم نے پانچ کراسنگ پوائنٹ بھی قائم کئے ‘ 2004ء سے 2008 تک پانچ دفعہ ہمارا Composite Dialogue کی سیٹنگ بھی ہوئی لیکن اس پراسیس کو بھی ممبئی اٹیک کے تناظر میں انہوں نے Discontinue کردیا اب میں آپ کو تھوڑی سی ٹائم لائن بتانا چاہتا ہوں کہ جب بھی پاکستان میں کوئی بہتImportant eventہونا ہو یا پاکستان کی استحکام کی صورتحال بہتر ہورہی ہو تو انڈیا میں یا مقبوضہ کشمیر میں کوئی ناں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے اگر آپ دیکھیں تو جو دسمبر 2001ء کا انڈین پارلیمنٹ کا حملہ تھا اس وقت وہاں 2002ء میں عام انتخابات ہونے تھے ‘ صدارتی انتخابات ہونے تھے اور اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا سیشن اور یہی وہ وقت تھا جب میں نے آپ کو بتایا کہ 9/11 کے بعد پاکستان نے مغربی سرحد پر دہشت گردی کا Impulse شروع ہوا ۔ ممبئی اٹیک پر آئیں جو کہ 26سے 29 نومبر 2008ء میں ہوا توجیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہماری کارکردگی بہت اچھی جارہی تھی اوراس وقت بھی انڈیا میں عام انتخابات ہونے تھے فروری سے دسمبر تک ۔ 2جنوری 2016 پٹھان کوٹ ہوتا ہے ۔ اقوام متحدہ کے صدر کا اسٹیٹ آف دی یونین خطاب جو ہے وہ ہونا تھا انڈیا میں ریاستی انتخابات ہونے تھے اور انڈیا میں پاک بھارت فارن سیکریٹری لیول کی بات چیت شیڈول تھی ۔اڑی کا ہوا 18 ستمبر2018ء کو ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں تقریر کے لئے جانا تھا ۔ تو یہ پیٹرن آپ کو بتاتا ہے جب بھی پاکستان میں کوئی اہم ایونٹ ہونا ہو تو اس طرح کااسٹیٹ ایکشن ہوتا ہے ۔ اب پلوامہ کی طرف آئیں 14 فروری اب فروری مارچ میں پاکستان میں یا پاکستان سے متعلق 8بہت ضروریevent reviewہورہے تھے ۔ سعودی کانفرنس کا پاکستان کا دورہ تھا اور اچھے ایونٹ کی کانفرنس تھی ‘ یونائٹیڈ نیشن سیکورٹی کونسل میں دہشت گردی کے اوپر بات چیت ہونا تھی ‘ افغان سیاسی ری کنسیلیشن پراسیس چل رہا تھا اس کے اوپر بھی ڈیولپمنٹ ہورہی تھی ‘ یورپی یونین کی یونائٹیڈ نیشن میں مقبوضہ کشمیر میں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں اس کے اوپر بیٹھک ہونا تھی ‘عالمی عدالتی انصاف میں کلبھوشن یادیو کی مقدمے کی بہت اہم سماعت ہونا تھی ‘ ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ کے اوپر ڈسکشن ہونا تھی اور پاکستان کے لئے فیصلہ ہونا تھا ‘ کرتار پور بارڈر کی جو ڈیولپمنٹ ہے اس کے اوپر دونوں ممالک کے درمیان میٹنگ تھی اور پاکستان سپر لیگ کے میچز جو کہ اس وقت چل رہے ہیں وہ بھی پاکستان میں آنے تھے تو یہ وہ 8ایونٹ تھے جو پاکستان میں ہورہے تھے یا پاکستان سے متعلق تھے ۔ مت بھولئے ان 8ایونٹس کے علاوہ انڈیا میں آج کل ایک الیکشن کا ماحول چل رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں جو ان کی جدوجہد ہے وہ اس وقت عروج پر ہے بھارت کے قابو سے باہر ہے اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان انوائرمنٹ میں جیسا کہ وزیراعظم نے بھی کہا How cane Pakistan as a state of Pakistan in war in any such kind of activity پلوامہ میں حملے کا ان 8ایونٹ کے تناظر میں پاکستان کو کیا فائدہ ہے ‘ پاکستان کو تو اس کا نقصان ہے ‘ آپ اب یہ ججمینٹ کرسکتے ہیں کہ اس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے ۔ پلوامہ واقعہ کی طرف جانے سے پہلے ایک اور بات کہ جی پاکستان ڈپلومیٹک تنہائی کا شکار ہے ۔ ایفرٹ تو ان کی ہے لیکن کیا پاکستان ڈپلومیٹک تنہائی کاشکار ہے ؟ اگر ہے تو یہ بھی آپ نے دیکھا ہے کہ کس طریقے سے جو فارن ہیڈ آف اسٹیٹ ہیں جو وفود ہیں وہ کس طریقے سے پاکستان کا وزٹ کررہے ہیں ‘غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان میں کیسے آرہی ہے ‘ سی پیک کے اوپر ہماری ماشاء اللہ کیسے ڈیولپمنٹ چل رہی ہے ۔ ڈپلومیٹک ڈومین کے علاوہ جو ملٹری ڈپلومیسی ہے اور ملٹری کارپوریشن ہے اس میں بھی آپ دیکھیں کہ کن کن ممالک کے ساتھ ہماری مشترکہ مشقیں ملائیشیا کے ساتھ ہوئی ہیں ‘ چائنا ساتھ ہوئی ہے ‘ پاکستان ایئرفورس نے یو ایس ایئر فورس کے ساتھ ‘ پاکستان نیوی کی آپ نے امن 6 مشقیں دیکھیں جن میں تمام ممالک کے جو ٹروپس ہیں انہوں نے حصہ لیا ابھی آپ پلوامہ کے واقعہ کو غور سے دیکھیں ‘ لائن آف کنٹرول آن ورڈ پر جو بھارتی فوج ‘ سیکورٹی فورسز ہیں ان کا ایک Layer defense ہے One of the another, another یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے کوئی بھی شخص ایل او سی کو کراس کرے او رایسا علاقہ جس میں سیکورٹی فورسز کی تعداد وہاں کی آبادی سے بھی زیادہ ہے وہ 70 سال سے وہاں بیٹھے ہیں اور وہاں سے در اندازی ہوجائے تو پھر تو آپ کو اپنی سیکورٹی فورسز سے پوچھنا چاہئے کہ اتنے سالوں سے بیٹھے ہیں اتنا آپ کا ڈیفنس کا خرچہ ہورہا ہے کیسے یہ واقعات ہوسکتے ہیں ۔ میلوں دور یہ واقع ہوا ہے لائن آف کنٹرول سے ‘ جو بارود اس میں استعمال ہوا ہے وہ وہاں کی سیکورٹی فورسز اور اتنظامیہ کے زیر استعمال تھا وہ پاکستان سے نہیں گیا جس گاڑی کو استعمال کیا گیا وہ مقامی گاڑی تھی وہ گاڑی پاکستان سے نہیں گئی اور حملہ جس کشمیری نوجوان نے کیا ہے وہ مقبوضہ کشمیر کا مقامی نوجوان لڑکا ہے اس کی تاریخ بھی دیکھ لیں کہ 2017ء میں کیسے وہ زیر حراست رہا ‘سیکورٹی فورسز نے کیسے اس کے ساتھ سلوک کیا اس کے والدین کا وڈیو پیغام ہے وہ بھی دیکھئے کہ کس طریقے سے اس کو اس نہج پر لایا گیا کہ وہ یہ سب کرنے پر مجبور ہوا ۔ آپ بھی سوشل میڈیا دیکھتے ہیں بہت سارے ہندوستان میں موجود لوگوں نے اس قسم کے حملے کو آج سے بہت مہینوں پہلےPredict کیاکہ الیکشن کا موسم ہے جو کمپین چل رہی ہے یہ ممکنات ان کے سوشل میڈیا میں آئیں کہ کہاں کہاں واقعات ہوسکتے ہیں ۔ آپ یہ بھی دیکھیں اس حملے میں جو سیکورٹی فورسز جن کی ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کی کلاس کمپوزیشن کیا ہے جو وڈیو ریلیز کی گئی ہے عادل کی اگر آپ اس کا ٹیکنیکل جائزہ لیں ایکسپرٹس سے کہ کس کوالٹی کی ہے کتنے فاصلے سے لی گئی ہے ‘کیسے ڈبنگ کی گئی ہے اس میں جو اسلحہ دکھائے گئے ہیں وہ کونسے ہیں تو اس کا جائزہ بھی آپ کو بہت سارے انڈی کیٹر دے گا ۔ مقبوضہ کشمیر میں کیا حالات ہیں ‘ پلوامہ میں جہاں اس کا جنازہ ہوا تو ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی ۔ یہ بھی ایک انڈیکشن ہے کہ وہاں پر حالات کیا ہیں ۔
اب آیئے پاکستان کی جانب سے رد عمل ‘ پاکستان بدل رہا ہے ایک نئے مائنڈ سیٹ آرہے ہیں ‘ ہم بہت مشکلوں سے گزر کر آج یہاں پہنچے ہیں ‘ ہماری افواج نے ‘ ہماری عوام نے خون کے سمندر سے گزر کر اس ملک کو جلا بخشی ‘اب ہم میں صبر ہے ‘ اب ہم میں تحمل ہے اور ہم دنیا کا واحدملک ہے اور واحد افواج پاکستان ہے جنہوں نے خطرات کا مقابلہ کیا اس دہشت گردی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا ۔ ہم نے افغانستان میں موجود جو بین الاقوامی فورسز تھیں ان کو القاعدہ کے خلاف کامیابی حاصل کرنے میں جو مدد تھی اپنے ملک میں رہتے ہوئے وہ دی ۔ خطے میں امن کی کوشش کررہے ہیں ‘ امن و استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں ‘ معاشی ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل دینے کی سوچ پاکستان میں آئی ہے ‘غلطیاں کی ہیں لیکن سیکھا بھی ہے اور اب نہ غلطی کی گنجائش ہے اور نہ انشاء اللہ کوئی ارادہ ہے ۔ پاکستان نے اس واقعہ کے بعد پہلے سوچا ‘تحقیق کی اور پھر جواب دیا اور جواب بھی ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر دیا ہمارے وزیراعظم نے انڈیا کو وہ آفرز دی ہیں جو شاید پہلے کبھی نہیں دی گئیں انہوں نے کہا جس قسم کی چاہے تحقیقات کروالیں لیکن ثبوت دیں اگر ثبوت ملا تو آپ کے پریشر میں نہیں ہم اپنے مفاد کے لئے اس فرد کے خلاف ایکشن لیں گے جو کہ پاکستان سے دشمنی کررہا ہے اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا پھر جب بھی ہم ڈائیلاگ کی بات کرتےتھے تو بھارت ہمیشہ کہتا تھا پہلے دہشت گردی پر بات ہوگی تو ہماری حکومت نے وزیراعظم نے یہ بھی کہہ دیا کہ ٹھیک ہے آجائیں دہشت گردی پر بھی بات کریں لیکن دہشت گردی خطے کا مسئلہ ہے اور سب سے زیادہ پاکستان نے اس کا سامنا کیا ہے ہم کیسے چاہیں گے کہ خطے میں دہشت گردی ہو تو وزیراعظم نے یہ آفر بھی ان کو دی کہ آئیں دہشت گردی پر بات کرتے ہیں کل نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی کانفرنس ہوئی جس میں نیشنل ایکشن پلان کے اوپر مزید تیزی سے عمل کرنے کا فیصلہ ہوا ۔ اب آپ کو پتہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات تھے کچھ اس میں سے Exclusive Military تناظر میں تھے اور کچھ باقی اداروں کے تھے اب پاکستان کی 20 نکات پر کارکردگی Capacity کی وجہ سے اس رفتار سے نہیں ہوسکی تھی یا ہوئی جیسے ہونی چاہئے تھی اس لئے نیشنل ایکشن پلان کے جو نکات تھے ان کو Sequence بھی کیا گیا اب جب کہ ہم نے دہشت گردی کو براہ راست ٹیکل کرلیا ہے تو کل آپ نے دیکھا ہوگا کہ وزارت داخلہ نے جو اس کا ایک پوائنٹ تھا اس کے اوپر عمل کرنے کے لئے جو وزیراعظم کی ہدایات تھیں اس پر عمل تیز کیا ہے ۔ میں ابھی سن رہا تھا آنے سے پہلے کہ بھارت میں یہ بات چیت ہورہی ہے کہ پاکستان جنگ کی تیاریاں کررہا ہے ۔ ہم جنگ کی تیاریاں نہیں کررہے ‘جنگ کی دھمکیاں آپ کی طرف سے آرہی ہیں ‘ بدلے کی دھمکیاں آپ کی طرف سے آرہی ہیں ‘ ہم ایک خود مختار ریاست ہیں آپ کی دھمکیوں یا آپ کی بدلہ لینے کی جو تیاریاں ہیں اس کے رسپانس دینے کا ہمیں حق ہے جیسا کہ پرائم منسٹر نے ہمیں کہا ہے ہم Initiate کرنے کی تیاریاں نہیں کررہے لیکن اپنا دفاع اور اپنا رسپانس ہمارا حق ہے اس حق کو ہم استعمال کررہے ہیں ‘ جس طریقے سے پلوامہ واقعہ کے اوپر پاکستان کی طرف سے ریاست پاکستان کی طرف سے ایک Deferent Response گیا اسی طریقے سے میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ملٹری Responseبھی Deferentہوگا ۔ ہم گزرے ہوئے کل کی افواج نہیں ہیں ہمارے تینوں سپہ سالاروں سے لے کر اور سپاہی تک ہم سب نے اپنے قدموں پر کھڑے ہوکر اپنے ہاتھوں سے جنگ لڑی ہے ہم نے اپنے ملک کا دہشت گردی کے خلاف دفاع کیا ہے ہم بین الحربین ہیں ‘ان دیکھے دشمن کے خلاف جنگ بہت مشکل تھی لیکن انڈیا ایک نان تھریڈ ہے ہم نے 70 سال آپ کو ہی پڑھا ‘ آپ کو ہی دیکھا ہے آپ ہی کے لئے Capability تیار کی ہے اور Responseبھی آپ کے لئے ہے ۔
We don't wish to go in to war but please let me assure should you initiate any aggression first you shell never be able to surprise us. Pakistan armed forces shell never be surprised by you, but let me assure you, we shell surprise you. We shell also, because you initiate we shell also dominate the escalation ladder that is us. We shell have superior forces ratio at the decisive point never think that due to our commitment elsewhere will have any capacity to left. We have single ness of conception from the prime minster down to citizen from 3 Gees `down to a soldier, all political parties, all segments of life 2hundred 7 million Pakistanis we have singleness of conception. We have the will and the determination, we have ways and means to reach our desired end, state we can response to full spectrum threat and I hope you get them and don't mess with Pakistan
اب آگے کا راستہ کیا ہے وہ جو آپ نے اختیار کیا ہے کہ حملہ ہوا ‘ ثبوت ملا نہیں الزامات لگادیئے ‘ بدلہ لینے کی بات شروع کردی ‘ایم این ایف کا اسٹیٹس واپس کردیں گے ہمارے شوٹرنے ادھر ایک اولمپک کے مقابلوں کے لئے جانا تھا ویزا نہیں دے رہے ‘ٹماٹر بند کردیئے ‘Let me talk about media also ‘دو قسم کے میڈیا ہوتے ہیں ایک War journalism کے لئے اور ایک Peace journalismکے لئے سارامیڈیا انڈیا کا War journalism کررہا ہے ‘And let me appreciate Pakistan media جیسا میں نے single ness of conception کی بات کی Media part of that بہت Responsible رپورٹنگ ‘ Peace journalismکو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں آپ ‘ انڈیا کے میڈیا اور پاکستان کے میڈیا میں یہی فرق ہے تو آپ اس راستے پر چلنا چاہتے ہیں جو آپ بتارہے ہیں یا وہ راستہ جو پاکستان آپ کو آفر کررہا ہے پاکستان کیا کہہ رہا ہے آیئے اس معاملے کی تحقیقات کرتے ہیں ‘ آیئے بات چیت کرتے ہیں ‘ آیئے خطے کو دہشت گردی سے پاک کرتے ہیں ۔ خطے کے امن کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ کشمیر کا یشو ہے آیئے اس پر بات چیت کرتے ہیں اس کو Resolve کرتے ہیں جیسا کہ پرائم منسٹر نے کہا مقبوضہ کشمیر میں آپ کی Violence کی پالیسی فیل ہورہی ہے Intersection کی ضرورت ہے پاکستان نے Intersection کی اور آج اس مقام پر پہنچا ہے انشاء اللہ اور بہتری آئے گی آپ کو بھی Intersection کی ضرورت ہے کہ کیوں کشمیری آپ کے مظالم سے تنگ ہوکر آپ کے Violence کو اس قسم کے Violence سے رسپانڈ کررہے ہیں آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں دو جمہوری ملکوں میں جنگ نہیں ہوتی ‘ Democracies they never fight war اگر آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قوت ہیں تو اس کے نام کو بھی ذہن میں رکھیں آپ سیکولر ملک کہ پھر ایسے حالات کیوں پیدا ہوں کہ جو اقلیت ہیں ان کو ہرٹ کیا جائے پلوامہ واقعہ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کیا ہوا جو انڈیا میں مسلمان ہیں اور کشمیری ہیں ان کے ساتھ کیا ہوا This is not being secular ‘آپ امن چاہتے ہیں ‘ ترقی چاہتے ہیں تو کلبھوشنوںکو ہمارے ملک میں مت بھیجیں ‘ خطے کے امن کو تباہ مت کریں ‘ ترقی کے موقع کو مت گنوائیں ۔ انڈیا سے کچھ دوست آئے ہوئے تھے ‘میری ان سے بات چیت ہوئی ‘ میں نے ان کو چیف کا پیغام دیا کہ پاکستان آرمی چیف کہتے ہیں کہ Countries do not and cannot develop alone in region develop اگر ہماری یہ سوچ ہے کہ خطے نے مل کر ڈیولپ ہونا ہے تو ہم جنگ کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتے ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ حکومت پاکستان کی امن کی پیش کش پر ذمہ داری سے غور کریں گے اور خطے کی امن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے ‘ ہم اکیسویں صدی میں ہمارے خطے میں بہت سارے چیلنجز ہیں او رسب سے بڑا چیلنجHuman security index کا ہے ناصرف پاکستان بھارت بلکہ جو باقی ممالک ہیں ان کے لوگوں کو بہتر تعلیم ‘ بہتر روزگار ‘ بہتر صحت حق حاصل ہے They ever right to left legal peace and legal environment which have based on peace and stability and co resistant نہ کہ جنگ کی جس کی آپ بات چیت کررہے ہیں اور حالات پیدا کررہے ہیں آپ آنے والی نسلوں سے اپنی بے قوفی کے ذریعے یہ حق نہ چھینیں آپ پاکستان سے دشمنی کریں ‘ پاکستانیت سے دشمنی کرلیں انسانیت سے دشمنی نہ کریں ۔Your attitude is not in line humanity even میں نے جیسا شروع میں کہا تھا آج میری بات چیت زیادہ پلوامہ سے متعلق ہوگی آج 22فروری ہے 22 فروری 2017ء کو پاکستان میں آپریشن رد الفساد کا آغاز ہوا تھا آج دو سال ہوگئے ہیں میں اس موضوع پر آپ سے بات چیت کرنا چاہتا تھا لیکن کم وقت کی وجہ سے میں آپ سے صرف اتنا کہوں گا کہ یہ باقی تمام آپریشن سے مشکل تھا پہلے جو Kinetic آپریشن تھے وہ تقریباً انٹیلی جنس ہوتی تھیں اور اس آپریشن کو ملک بھر میں ان دیکھے جو دہشت گرد تھے میں آپ سے اگلی پریس کانفرنس میں ڈیٹا شیئر کروں گا کہ ان کے ذریعے کتنا اسلحہ و بارود برآمد ہوا ہے ‘ کتنے سہولت کار جو ہیں وہ ہم نے پکڑے ہیں اور اس کا جو سب سے بڑا ٹاسک تھا وہ تھا پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ کرنے کا الحمدللہ پاکستان ‘ افغان بارڈر پر جو ماحول چل رہا ہے اس کے اچھے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں ‘کراس حملوں میں کمی ہوئی ہے ‘ فائرنگ کے واقعات ہوجاتے ہیں جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ جب ہماری سیکنڈ آرمڈ فورسز وہاں پہنچیں گی جو نئے خطے بن رہے ہیں تو ان میں بھی بہتری آئے گی اور بہت سارے ایسے Incident ہیں جو کہ ہماری ملٹری انٹیلی جنس نے آئی ایس آئی نے ‘ آئی بی نے سی ٹی ڈی نے اپنی انٹیلی جنس جدوجہد کے ذریعے حاصل کئے ہیں کیونکہ واقعہ ہونا آپ کو پتہ نہیں چلتا تو بہت سارے ایسے واقعات ہیں جو کہ ہم نے ہونے سے روکے ہیں اور انشاء اللہ ہم امن کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ کامیابی ہماری جاری رہے گی ‘Lastly ایک انکوائری جنرل اسد درانی کے بارے میں ہورہی تھی ‘ وہ انکوائری جو آرڈر ہوئی تھی وہ violated military code of conduct' کے اوپر تھی تو انکوائری میں یہ Conclude کیا کہ جنرل اسد درانی He has been found guilty of violating the military code of conduct. ‘وہ ہمارے سینئر آفیسر اور ذمہ دار عہدے پر رہے جس طریقے سے اس کتاب کو دیکھا گیا اس کے دوران انٹریکشن کیا گیا اس کے لئے جو طریقہ کار تھا وہ فالو نہیں کیا گیا اس Violation پر کورٹ نے ان کو Recommend کیا جو اس لیول اور اس لیول کی Violation پر جوpunishmentتھی His pension and related benefits have been stopped he is no more initiator to the pension and allowances which Retired ‘ان کا نام ای سی ایل پر ہے ‘ وزارت داخلہ پر اس پر ہم بات کریں گے کہ ان کا نام ای سی ایل میں Continue رکھا جائے یا نہیں ۔
صحافی …سر رینک برقرار…!!
آصف غفور : جی رینک برقرار …!!!اس کے علاوہ آخری بات جو تھی وہ یہ کہ میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ دو آرمی کے سینئرز آفیسرز جو ہیں وہ ملٹری کی زیر حراست ہیں ان پر Charges of as per not ‘ان کا آرمی چیف نے فیلڈ اینڈ کورٹ مارشل آرڈر کیا ہوا ہے وہ پراسیس میں ہیں دونوں Individual cases ہیں آپس میں ان کا کوئی لنک نہیں ہے And there is no network as that's تو یہ بھی آپ ذہن میں رکھئے کہ If we unable to gate them and identify the issue it is a success یہ چیزیں ہوتی ہیں چلتی ہیں جب یہ کورٹ مارشل ختم ہوگا اس کا جو بھی نتیجہ ہوگا وہ میں آپ سے شیئر کروں گا ۔ Going back to پلوامہ میں آخر میں ہمیشہ آئی کوڈ دکھایا کرتا ہوں ‘Please See ‘ میں نے جیسا کہا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے ہم بہت مشکلوں سے گزر کر اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں ہمPositivity کی جانب جارہے ہیں ‘ Nation میں Positively relevant ہیں لوگ ہم سے بات کرتے ہیں ‘پاکستان میں انویسٹمنٹ آرہی ہے ‘ Witch to have any
conflict physical conflict hit anybody and India but any aegration if imposed we shell defense every inch of land at all cost to last bullet and to our last ان شاء اللہ ہم اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے ۔ یہ پاکستان کی فوج صرف وہ فوج نہیں ہے جو یونیفارم پہنتی ہے ‘ 2.7ملین پاکستانی ‘ آرمڈ فورسز آف پاکستان کے ساتھ ہیں ‘کوئی سیاسی جماعت نہیں ‘کوئی Segment of life نہیں ‘We only one entity and that's is Pakistan ‘ شکریہ آپ سب کا ۔
صحافی : عمران خان نیشنل کمانڈ اتھارٹی کو بھی ہیڈ کرتے ہیں تو جو کل انہوں نے الائو کیا ہے جو چین آف کمانڈ کو انہوں نے کہا ہے کہ جی آپ اس سلسلے میں اگر انڈیا کی طرف سے کوئی aggressionہوتی ہے تو آپ وال آئوٹ اس کا جواب دیں تو میں پوچھنا چاہوں گا یہ جو نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے آپ نے کہا کہ Spectrum جو ہے اس کو ہم رسپانڈ کریں گے تو اس میں بھی چین آف کمانڈ جو ہے وہ نیچے ڈائیورڈ کیا گیا ہے پی ایم کی جانب ۔
آصف غفور : ایسا نہیں ہوتا ‘This is a weapons of deterrents and this is the political weapon. This is responsible country Responsible nation he don't talk about this اور ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ آپ نے اس کو Interpret کیا ہے‘وزیراعظم نے اس کوAuthorized کیا ہے for response to any physical aggressionn from eastern border جس کی آپ بات کررہے ہیں یہ بڑے مشکل فیصلے ہوتے ہیں لیکن ایک بات میں بتائوں کہ It is not about the weapon little have it is not about the war potential. It is about the confidence to have a nation and that's confidante replace more a capability and capacity ۔
صحافی : In the event of the further military explanation with India how can that effect Pakistan Commitment to the afghan peace process Deployment for the afghan border and peace process it is going on right now have that's we Conway implication Conway to American
میجر جنرل آصف غفور : More than ask for the question for international community and India have self should the region what is the impact on the status of regnal peace if you want the terrorism some the region so finish the afghan peace process it critical for that to successes many come to that's take then for first priority is defense for mother land اس کے بعد باقی سب سیکنڈ
صحافی : سر یہ فرمایئے گا یہ جو آپ الیکشن کے تناظر میں ساری چیزیں دیکھ رہے ہیں کیا آپ نے ان کے بارڈر کے اوپر ‘ لائن آف کنٹرول بائونڈر ی کے اوپر کوئی ایک Deployment بھی انڈیا کی جانب سے دیکھی ہے کہ وہ تیاریاں کررہی ہیں یا صرف یہ الیکشن کے تناظر میں پاکستان کے اوپر واقعہ کی ذمہ داری عائد کرتے ہیں ۔
میجر جنرل آصف غفور : دیکھیں وہ ایک ملٹری پروسیس ہے ‘ Both side the profession army but I request you we are not preparing of war but then we have to be prepare for a response وہ کہتے ہیں ناں کہ Expect be best for ready for the burst تو ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اور ایک پروفیشنل آرمڈ فورسز کے طور پر رسپانس دینے کے لئے جو تیاریاں ہونی چاہئیں وہ تیاریاں ہیں ۔
صحافی : اس تناظر میں پہلا رد عمل ایران میرے خیال میں We did not talk about it we are like in response with India and prepare whatever but Iranian force commander has also lost the protest and byname in the nation so he should be prepared for that factorial we think that and there also
میجر جنرل آصف غفور : یہ دو مختلف کونٹیکسٹ ہے ‘You can now compare India and Iran, India of history 70 years میں نے آپ کو بتائی ہے ایران ہمارا برادرلی مسلم پڑوسی ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے تاریخی بھائی چارگی والے تعلقات ہیں آپ کو پتہ ہے ویسٹرن بارڈر میں ہمیشہ میں نے بات کی ہے پاکستان ‘ افغانستان کے ساتھ بارڈر ہے پچھلے چالیس سالوں سے وہاں پر تنازع چل رہا تھا اب ہم اس کو Offence کررہے ہیں وہاں دہشت گرد ہیں وہ بھی جو ریجمنٹ ہے فورسز کی ہے یا فینز کی ہے That is not again Afghanistan forces for the afghan people that offence for the terrorist similarly share 909 kilometer border with Iran, Iran brothers and Muslim country وہ بارڈر بھی ایسا ہی ہے ‘ ناں ہماری فورسز کیونکہ ہمیں وہاں سے دھمکی کوئی نہیں ہے اور اس طرف بھی کوئی اتنی اچھی سیکورٹی کی ارینجمنٹ نہیں ہے لیکن جب دہشت گردی افغانستان سے ریورس کرکے ایران کے ذریعے پاکستان آیا تو اب پاکستان ‘ افغانستان اور ایران کے اندر بہت بہتر کوآرڈی نیشن ہے کہ ہم اپنے بارڈر کو استعمال نہ ہونے دیں دہشت گردوں کے لئے کیونکہ ہمارا زیادہ تر فوکس پاک افغان بارڈر پر رہا تو کچھ دہشت گرد جو ہیں وہ پاک ایران بارڈر پر بھی ایکٹیو ہوتے ہیں اس میں ہماری ایران کے ساتھ بہت اچھی کوآر ڈی نیشن ہے آپ کو یاد ہے آرمی چیف بھی وہاں گئے تھے ۔ ہماری جو کو آرڈی نیشن ہے وہ سیکورٹی کے لئے بہت بہتر ہوئی ہے او رایران کے ساتھ ہمارا بڑا اچھا تعلق ہے او ریہ بہتر بھی ہوگا اور اس میں اس طرف ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
صحافی : Sir Don't Recognizing Pakistan army wave officer and solders and you point out standing very to face up to India and strategy police but the fact it's the nation of billion plus and portion of army and the western boarder it is the time to take under 62 percent of Pakistan start thinking about mobilizing that and civil government to launch civil defense
میجر جنرل آصف غفور : جیسا میں نے پہلے آپ کو بتایا It is not the quantity of force capacity of force the capability of the force it is the confidence of nation and decision making body and its capability its capacity, Your armed forces are good and us for any threat come anybody coming to we nation of Pakistan will be our death body ہم بلکہ جیسا کہ آپ نے رات کو دیکھا ہے ہم تو پہلے بھی Weaponized کررہے ہیں ہم نے اپنی جوان نسل کو اس طرف لے کر جانا ہے جہاں کہ 21 ویں صدی کی مطابق وہ مثبت انداز میں اپنا حصہ پیش کرسکیں ۔ ہم نے ان کو تعلیم ‘ صحت ‘ روزگار ‘ شعور ‘ آگاہی دینی ہے ۔ یہی ہمارا عزم ہے اور بس ۔
صحافی : کل نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا جو اجلاس ہوا اس میں پرائم منسٹر کی طرف سے اختیار دیا گیا دفاعی فورسز کو کہ وہ کسی بھی طرح کا جواب دیں ہم جانتے ہیں اسی طرح کی چیز پہلے انڈیا میں بھی ہوچکی تھی تو کیا اس وقت ایسی کوئی انٹیلی جنس ہے کہ وہاں پر کس طرح کا تھریٹ لیول ہے کہ جس پر پاکستان آرمڈ فورسز کو یہ اختیار جو ہے وہ دیا گیا ہے ۔
میجر جنرل آصف غفور : دیکھیں اس کو آپ تھوڑا سا Over interpret کررہے ہیں پاکستان پرائم منسٹر جب اس قسم کی وال مائورنگ سپورٹڈ بائے ذمہ دارمیڈیا چل رہی ہو توYou have to take seek us تو اس طرح ایسا نہیں ہوتا کہ ادھر سے انچ بھی کراس ہوتا ہے تو Prime minster response to that place so it is metro of mythology کہ پرائم منسٹر آف پاکستان نے جو حالات چل رہے تھے اس کے لئے یہ اختیار دیا آرمڈ فورسز کو کیونکہ پرائم منسٹر صاحب نے بھی کہا آپ نے سنا ہوگا War initiate کرنا Is in once hence ‘جیسا میں نے کہا ناں کہ جو initiate کرتا ہے اس کے بعد اس کے ہاتھ سے جنگ نکل جاتی ہے اور پھر ہمارے پاس آجاتی ہے کہ ہم نے اس کو کس طرح سے ٹیک کرنا ہے ۔ تو اس کو آپ اس mythology کے ڈومین میں رہنے دیجئے کہ پرائم منسٹر نے کیا اختیار دیا ‘ کیا ایکشن ہوئے کیا ہماری انٹیلی جنس ہے ۔ Have full confidence armed forces ‘
صحافی : سر تازہ اطلاع ہے کہ ایران اسٹیٹ نیوز ایجنسی کی کہ وہاں سے حملہ ہوسکتا ہے ۔
میجر آصف غفور : We have a very coordination at every tear whether is local Pakistan forces and Pak Iran border and the forces underside or the leadership military and civilian booth and maximum coordination and corporation with Iran the terrorism is a regional threat Regional Challenge And reginal approach اور ان شاء اللہ جو بارڈر کی صورتحال ہے اس کو ہم مل کر باہمی تعاون سے محفوظ کریں گے کہ اس قسم کی موومنٹ ناں ایران کی طرف سے ہماری طرف ہو اور ناں ہماری طرف سے ایران کی طرف ہو اور کوئی تیسری پارٹی بھی اس میں مداخلت نہ کرسکے ۔ شکریہ ۔
صحافی: I have a question regarding internal threats because you talked about General Asad Durrani, you talked about other 2 army officers who are in your Custody lets talk about civilian ambassador who is blaming Pakistan say for heavens for terrorist "Hussain Haqqani" If you have seen in watched he's viral clip on social media, he blamed in his clip that in Bahawalpur Pakistan is having safe heaven for terrorists, how do you respond to this statement?
صحافی: ایک ضمنی سوال، انڈیا کی طرف سے بھی یہی الزام آرہا ہے، وہ اس واقعہ میں جیش محمد کو ملوث کررہے ہیں او ر ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں جیش محمد موجود ہے، اس کے ٹھکانےیہاں موجود ہے اور یہ پاکستان سے آپریٹ کیا گیا، دوسرا یہ بھی تاثر ہے جیسے آپ نے کہا کہ اس واقعہ میں مقبوضہ کشمیر کا مقامی رہائشی نوجوان ہے لیکن یہ بھی تاثر ہے کہ اس کے پیچھے شاید مودی حکومت کا ہی ہاتھ ہے، اسی کی جانب سے یہ پلان کیا گیا تاکہ اپنی انتخابی مہم کو بڑھاوا دیا جائے اور اس کا فائدہ اٹھایا جائے؟
صحافی: سر اس کے ساتھ ہی کلپ کردیں کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کا بیان کلبھوشن کے کیس میں دلائل کے طور پر استعمال کیا گیا، اسی طرح کا بیان سابق آرمی چیف جنرل مشرف کی طرف سے بھی آیا تھا جس کو ابھی استعمال کیا جارہا ہے، آپ اس کو کس context میں دیکھ رہے ہیں، ساتھ یہ بھی بتادیں کہ جو بھی فیصلہ اگر پاکستان کے خلاف آتا ہے اس کیس میں تو ایک آرمی چیف کے پاس جو mercy petition پڑی ہوئی ہے کیا اس پر کسی قسم کا یہ اثرانداز ہوسکے گا؟
ڈی جی آئی ایس پی آر: 3 questions, first of all on Hussain Haqqani, please request him to come to Pakistan, go with me and indicate to me. ۔ آپ نے کہا کہ الزامات ہیں، دیکھیں یہی تو میں نے بات کی کہ ایک واقعہ ہوا کوئی evidence نہیں اور آپ نے الزام لگادیا، اب تو پاکستان نے آفر کردی ہے کہ evidence لائیں، if there is any involvement of anybody from Pakistan, from the soil of Pakistan, not under your pressure, we will take action against him because he is enemy of Pakistan تو ہماری determination تو آپ نے دیکھ لی۔ کلبھوشن سے متعلق آپ نے جو سوال کیا ہے one this case is under process, subjudice ہے اس پر میں بات چیت نہیں کرنا چاہتا، ہم آئی سی جے میں گئے ہیں، ہم اس کو avoid بھی کرسکتے تھے لیکن یہ بھی ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا ثبوت کا ہے کہ آپ international obligations پوری کرتے ہیں، let the decission come then will talk about this آج جس موضوع پر ہورہی ہے i request you not to touch the political subjects۔
صحافی: پلوامہ کے حوالے سے ہی جیسے انہوں نے سوال کیا، یہ جو پلوامہ میں خودکش حملہ ہوا ہے، یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا حملہ ہے، خود کش حملہ کشمیریوں کا مزاج ہے یا نہیں، کیونکہ ہم بھی واچ کررہے ہیں، اس پر تھوڑا سا کمنٹ کیجئے؟
صحافی: ایک related question sir ماضی میں چاہے سمجھوتہ ایکسپریس ہو یا انڈیا میں جتنے بھی دہشتگرد حملے ہوئے ہیں اس میں انڈین انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث رہی ہیں، سمجھوتہ ایکسپریس میں واضح طور پر شواہد بھی سامنے آئے، کیا یہ اسی طرح کا واقعہ ہے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر: جیسا کہ وزیراعظم نے بھی کہا کہ انڈیا کیلئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیوں کشمیر کی یوتھ اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ان سے موت کا خوف اتر گیا ہے، ستر سال سے وہ ایک تشدد کا سامنا کررہے ہیں، میں دیکھ رہا تھا ٹی وی کے اوپر بھی، سوشل میڈیا پر بھی کہ ایک mother کا انٹرویو چل رہا تھا جس سے سیکیورٹی فورسز کا بندہ جاکر کہہ رہا تھا کہ اپنے بچوں کو سمجھائیں۔ جب کسی قوم سے اس کی نسل سے یوتھ سے موت کا خوف اتر جائے تو پھر اس کا کوئی حل نہیں ہوتا، that is why we about them کہ آپ سوچیں کیا اس مسئلہ کا حل صرف violance ہے، violance کا جواب پھر violance جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ہوئی، Yes it is a different kind of methodology کہ دو ڈھائی سو کلوگرام سے زیادہ explosive ایک دن میں اکٹھا نہیں ہوتا، گاڑی تیار کی گئی جیسا کہ میں آپ سے کہہ رہا تھا، اُدھر بات بھی ہورہی ہے کہ there are a intelligence faliure on their part, so many forces, so many intelligence agencies and they need to approach inside Indian occupied Kashmir, I will take the last two questions?
صحافی: سر جو انڈین threats ہیں اس پر تو آپ نے کہہ دیا کہ آپ پر رسپانس چھوڑ دیا یعنی فوج پر اور یقیناً اس پر آگے کوئی بات رہتی نہیں ہے، باقی سوال بھی سارے ہوگئے، میں ایم بی ایس کا جو وزٹ ہے اس پر جاننا چاہوں گا کہ پاکستان کا وزٹ کیا، پاکستان کی بہت ساری توقعات پوری ہوئیں، امیدیں بندھیں، پھر وہ انڈیا بھی گیا، اب اس ٹینشن میں جو پاکستان کے ایسے دوست ہیں وہ دونوں طرف کے رابطے میں ہیں، کیا ان دوستوں کا کردار نہیں ہونا چاہئے جب آگے ہی بڑھنا ہے، دنیا کو لے کر چلنا ہے تو اس میں کیا کہیں گے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر: ایسا نہیں ہوتا جیوپالیٹکس میں اور commentary of nations میں کہ آپ بہت ہارڈ بلاکس بنالیں، یہ رشتہ داریاں نہیں ہوتیں، اس طریقہ سے blood relations نہیں ہوتے، Every sovereign state has relation with other sovereign state but then you have the priority of relations the construct of relations اگر سعودی عرب کے کرائون پرنس یہاں پر کہہ کر گئے ہیں کہ I am the ambassador of Pakistan in KSA and the was his responded on the request of Prime Minister for the prisoners and the kind of investment which Saudi Arabia has done in Pakistan, I think it's a very positive indication of the strength of Pakistan KSA relations وہ انڈیا گئے ہیں both two sovereign countries ان کے اپنے agreements ہیں اور یہ وزٹ جو ہے وہ کوئی پلوامہ incident کو ذہن میں رکھ کر نہیں کیا گیا تھا، but having said that you should be happy that were kind of statements from our friendly countries have come کتنا زور لگایا یونائیٹڈ نیشن سیکیورٹی کونسل کی اسٹیٹمنٹ میں کچھ الفاظ ڈلوانے کیلئے، آپ نے سعودی پرنس کی اسٹیٹمنٹ دیکھ لی، آپ نے ہمار ے time tested friend چائنا کی اسٹیٹمنٹ دیکھی، ان کا رول دیکھا، the world atlarge recognizes the role of Pakistan and the positive relevance of Pakistan اگر انڈیا illussion میں رہنا چاہتا ہے یا different track پر جانا چاہتا ہے تو وہ ان کی مرضی ہے، جو best way ہے that is the ray of peace, that is the ray coexistence, cooperation and fight against the issues which are threat to the human security.
صحافی: James Mccanzy from Reuters News Agency, can you give a some indication of where the you seen concrete Indian Military preparation on near side of the border control and what kind of movements you observed there?
ڈی جی آئی ایس پی آر: I have actually responded of this question. When there is a war mongering across the border hype by media and the statements by their responsible leadership, we as a sovereign country have the right to prepare for defense, beyond that what is the kind of movement on that side the border or this side of the border that is methodology we have said that, we do not wish to go into war because we know what is the importance of peace what price Pakistan has faced and given, we do not wish to go to war but then what I conclude it that if it is imposed on us as a sovereign country, as a capable country we have the right to respond and respond the way the nation of Pakistan want us to respond. Thank you very much ladies and gentlemen.
تازہ ترین