• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھنے باد۔ نریندرا مودی۔

ہم سب کو جناب مودی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کی مسلمان اور پاکستان دشمن ہرزہ سرائی ہمارا اپنے آپ پر فخر بڑھا دیتی ہے۔ ان سارے سوالات کے جوابات بھی مل جاتے ہیں کہ پاکستان کیوں ناگزیر تھا۔ قائد اعظمؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا حصول کیوں ضروری سمجھا۔ تحریک پاکستان کے اکابرین کی جدو جہد کیوں نتیجہ خیز رہی۔ اب تو ہم ایک خود مختار مملکت پاکستان کے شہری ہیں۔ ہمارا اپنا خزانہ ہے۔ اپنی مسلّح افواج ہیں۔ اپنا نظام ہے۔ اب تو ہم سر اٹھا کر دنیا میں چلتے بھی ہیں اور انتہا پسند بھارتی حکومت کی اشتعال انگیزی پر جواب دینے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تصوّر کیجئے کہ راس کماری سے گوادر تک کیا منظر ہوتے۔ مودی جیسے نفرتوں، دشمنیوں میں پلے نیتا ہمارا کیا حال کر رہے ہوتے۔ اب تو ان کی ساری یلغار پاکستان روک لیتا ہے۔ پاکستان نہ ہوتا تو افغانستان، ایران، متحدہ عرب امارات براہِ راست اس کی زد میں ہوتے۔

جواز دیا جا رہا ہے کہ وہاں الیکشن قریب ہیں۔ اس لئے پاکستان کے خلاف الزامات کی مہم تیز کی جا رہی ہے۔ مودی نے ہندو توا کی آگ بھڑکا کر پہلے بھی اپنا راستہ ہموار کیا تھا۔ اب بھی وہ پانچ سال بعد اسی کیفیت کو الیکشن جیتنے کا جواز بنا رہا ہے۔ ایک طرف تو یہ سمجھ لیں کہ مودی 2014میں سیاسی طور پر جہاں کھڑے تھے واپس وہاں پہنچ گئے ہیں۔ سیاسی، سماجی، عمرانی، نفسیاتی، اقتصادی طور پر بھارت پانچ سال میں آگے نہیں بڑھا۔ کیا ایسا کوئی کارنامہ ان 5برسوں میں نہیں ہوا جس کو انتخابی مہم کا موضوع بنایا جاتا۔ ایک سوال اور ذہن میں آتا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل نے بھارتی معاشرے کے مجموعی شعور میں کوئی نکھار پیدا نہیں کیا۔ کوئی ذہنی پختگی استوار نہیں کہ اب بھی اپنے فوجیوں کی لاشیں گرا کر پاکستان پر الزامات عائد کر کے الیکشن جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کیا بھارت کی اقتصادی ترقی کے سارے وعدے ہوائی تھے۔ ہمسایہ ملکوں کو سازشوں کا گڑھ قرار دینے کی روایت صدیوں پرانی ہے۔ اب اکیسویں صدی میں یہ پالیسیاں جنوبی ایشیا کے علاوہ کہیں قابل قبول نہیں ہیں۔

پاکستانی حکمراں، پاکستانی قوم ان دھمکیوں اور پالیسیوں کا جواب دے رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی فخر ہے جمہوری تبدیلیوں کا تسلسل نہ ہونے کے باوجود عوام کو جب بھی حکمراں بدلنے کا موقع ملا ہے تو انہوں نے اعتدال پسندوں کا ہی منتخب کیا ہے۔ کبھی کسی انتہا پسند پارٹی، فرقہ پرست جماعت کو حکومت بنانے کے لئے نہیں چُنا ہے اور اب یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری انتخابی مہم میں بھارت دشمنی موضوع نہیں بنتی۔ پاکستانی قوم نے بھارت کو مسئلہ سمجھنا ترک کردیا ہے لیکن بھارت کی سیاست پاکستان دشمنی سے باہر نہیں نکل سکی ہے۔ کیا سیکولرازم اور جمہوریت کے پھل اتنے کڑوے ہوتے ہیں اور ان کی اولادیں ذہنی طور پر اتنی معذور۔ پاکستان میں تو انتہا پسندی کے خلاف منظّم تحریکیں بھی چل رہی ہیں۔ انتہا پسند شخصیات کے خلاف عدالتیں بھی سخت فیصلے دے رہی ہیں۔ بھارت میں آزادٔ عدلیہ کے دعوے بہت کئے جاتے ہیں لیکن کیا وہاں کی کسی سپریم کورٹ، کسی ہائی کورٹ نے انسانی اقدار پامال کرنے والی سیاسی جماعتوں کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہے۔

پاکستانی قوم معاشی طور پر ابھی مسائل کا شکار ہے، لوٹ مار ہے، میرٹ کی حکمرانی نہیں ہے مگر وہ اپنے آپ کو دفاعی طور پر محفوظ سمجھتی ہے۔ 1965اور 1971کی جنگوں میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہوائی حملے کا سائرن بجنے پر وہ خندقوں میں پناہ لینے کی بجائے چھتوں پر چڑھ جاتے تاکہ طیّاروں کی لڑائی دیکھ سکیں۔ آج کل وہ سوشل میڈیا پر یہی رویے اختیار کر رہے ہیں۔ جنگی جنون بڑھانے کی بجائے لطیفے اور جگتیں سنا رہے ہیں لیکن پھر بھی دشمن کے عزائم کو جاننا وقت کا تقاضا ہوتا ہے۔ یہ اعتماد اپنی جگہ کہ عسکری طور پر ہم محفوظ ہاتھوں میں ہیں مگر ہمیں یہ غور تو کرنا ہو گا کہ بی جے پی دوبارہ تخت دہلی حاصل کرنے کے لئے کس حد تک جا سکتی ہے۔ اس کے نفسیاتی، سماجی، اقتصادی عوامل کیا ہوں گے۔ 1948۔1965 اور 1971 کی جنگوں کے اثرات اب بھی جنوبی ایشیا کے ذہنوں پر مرتب دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت سرکار کی طرف سے جاری جنگی جنون، ایک مطالعے اور مباحثے کی دعوت دیتا ہے اس کے اثرات ان آبادیوں کے ذہنوں کو کیسے متاثر کر رہے ہیں۔ اس سے آج کی عالمگیر دنیا کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اس کا بہتر موثر طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں اپنے متعین سفیروں کی ایک روزہ کانفرنس اسلام آباد میں کرے۔ بھارت میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر بھارتی عزائم سے اپنے ہم منصبوں کو با خبر کریں۔ وزیراعظم، وزیرخارجہ سفیروں کو رہنما خطوط سے آگاہ کریں۔ یہ سفیر واپس اپنے اپنے اسٹیشنوں پر پہنچ کر وہاں کے حکمرانوں کو بھارتی عزائم کی تفصیلات پر اعتماد میں لیں۔ اس طرح دنیا پر واضح کریں کہ بھارت کا سیکولرازم اور جمہوریت صرف دعویٰ ہے۔

یہ احساس یقیناً قابل فخر ہے کہ پاکستانی قوم بھارتی سماج کے مقابلے میں ذہنی طور پر زیادہ باشعور ہے۔ اسی شعور کو زیادہ مستحکم کرنے کے لئے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں علمی مباحث کرائے جانے چاہئیں کہ بھارت کی طرف سے الزامات کی جو مہم چلائی جاتی ہے۔ اس کے کیا کیا اسباب ہو سکتے ہیں۔ اس کا پس منظر کیا ہے۔ مباحث اور تحقیق کے ذریعے بھارت کی نفسیاتی صورتِ حال بھی جانی جائے۔ اب ٹیکنالوجی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ اس کے ذریعے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کا معاشرہ آگے بڑھنے کی بجائے تاریک صدیوں میں واپس کیوں جا رہا ہے۔ کیسی ذہنی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ ان کے نتیجے میں آئندہ حکمراں بھی نریندر مودی جیسے ہی آئیں گے یا انسانوں کو انسان سمجھنے والے حکمراں آئیں گے۔ کوئی ایسا جراتمند، حقیقت پسند حکمراں بھی آئے گا جو کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا اعلان کرے۔

بھارت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کو پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں مدعو کر کے لیکچر دلوائے جائیں، اس طرح پاکستان کی آئندہ نسل بھارت کی حقیقی سوچ سے آگاہ ہو سکے گی۔ ہم اس طرح اپنے اور اپنے بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں میں خود اعتمادی پیدا کر سکیں گے۔ میں بار بار درسگاہوں میں اجتماعی بحث پر زور اس لئے دیتا ہوں کہ وہاں ہمارا مستقبل پرورش پا رہا ہے۔ ہمیں اس کو تعصبات، خدشات سے محفوظ کرنا ہے۔ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی اور دوسری تیز رفتار ایجادات کے ذریعے اس کے ذہنوں کو مستحکم کرنا ہے۔ جذباتی طور پر نہیں ہمیں اپنے روڈ میپ اعداد و شُمار اور حقائق کی روشنی میں تشکیل دینے ہیں۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ دنیا میں بڑے ملکوں کے ہمسایہ چھوٹے ملکوں نے کیسے کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ راستہ تعلیم سے کھلتا ہے۔ معیشت سے یا اسلحے سے۔

تازہ ترین