اسلام آباد (انصار عباسی) قومی احتساب بیورو (نیب) نے شہباز شریف اور دیگر کے خلاف کرپشن کے الزام میں تین مقدمات صاف پانی پروجیکٹ، رمضان شوگر ملز اورا ٓشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے حوالے سے بنائے جو اعلی عدلیہ کے ہاتھوں نیب کے لئے خفت ،پشیمانی اور شرمندگی کی ہیٹ ٹرک بن گئے۔ ان میں سے دو مقدمات میں لاہور ہائی کورٹ کو بدنیتی معلوم ہوئی جس سے مقدمات قائم کرنے و ا لوں کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ معروف آئینی اور قانونی ماہر وسیم سجاد نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ اگر عدالت اپنے حتمی فیصلے میں بدنیتی کا پتہ چلالیتی ہے تو پھر ذمہ داران کے خلاف عدالتی کارروائی کی ر اہ ہموار ہوجائے گی۔ تاہم وسیم سجاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ضمانت کی صورت میں عدالتی احکامات عبوری تصور ہوں گے اور اس مرحلے پر بدنیتی کے الزام میں کوئی کارروائی قبل از وقت ہوگی۔ صاف پانی کیس میں ہزیمت کے بعد نیب کو اب سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے خلاف رمضان شوگر ملز اور آشیانہ مقدمات میں خفت کا سامنا ہے۔ تینوں مقدمات میں لاہور ہائی کورٹ کو اختیارات کے ناجائز استعمال یا قانون کی خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں ہوئی۔ اس حقیقت کے باوجود ضمانت کے مرحلے پر عدالتوں نے الزامات کا سرسری جائزہ لیا اور گہرائی تک نہیں گئیں لیکن لاہور ہائی کورٹ نے دو مقدمات صاف پانی اور رمضان شوگر ملز کیسز میں نیب کی بدنیتی کی نشاندہی کی۔ مخصوص ماہرین قانون جنہوں نے سوشل میڈیا پر بھی اظہار خیال کیا ان کے مطابق نیب اور اس کے حکام کی جانب سے یہ قابل مذمت فرد جرم ہے۔ مسلسل تین عدالتی فیصلوں میں نیب کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے شور شرابے کی توثیق کی گئی ہے۔ نیب کا ادارہ سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کاقائم کردہ ہے۔ سرکاری ذرائع نے عدالتی احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیب کے تحت انسدادی بدعنوانی معاملات کی یہ افسوس ناک کہانی ہے۔ نیب کی سوالیہ استعداد اور ارادوں سے ہر کوئی واقف ہے لیکن اس سے زیادہ پریشان کن معاملہ نیب پر عدالتی نگرانی کا ہے۔ ہائی کورٹس کی رولنگ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذاتی پیشہ ورانہ دیانت داری اور شفاف ریکارڈ کے حامل افراد کو مہینوں کے لئے ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دیا گیا جنہیں 6؍ سے 10؍ تک ناکردہ گناہوں پر قید بھگتنی پڑی۔ جن کے خلاف قاعدے اور ضابطے کی خلاف ورزی تک کا ثبوت نہیں ملا۔ آشیانہ اور رمضان شوگر ملز کیسز میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہوا اور نہ ہی فنڈز میں خوردبرد ہوا۔ اس کے علاوہ کمیشن یا کک بیکس کا بھی کوئی ثبوت ملا۔ آشیانہ کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ ایک انچ بھی ریاستی اراضی کسی کو نہیں دی گئی۔ صاف پانی کیس میں کہا گیا کہ انتظامیہ نے 40؍ کروڑ روپے بچائے جبکہ رمضان شوگر ملز کیس میں نالہ کی تعمیر شوگر ملز کے بجائے عوامی بہبودی منصوبہ تھا۔ نیب کے آشیانہ کیس سے نمٹتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف حکومت کی ہائوسنگ اسکیم کا حوالہ دیا جس میں نیب کے دہرے معیار کوافشا کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے نیب کا سرکاری و نجی شراکت داری کے بجائے پروجیکٹ کے سرکاری ہونے پر کیوں زور ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضیغم اشرف بنام سرکار کیس میں سپریم کورٹ کی اس آبزرویشن کا حوالہ دیا کہ شخصی آزادی پر قدغن قانون کے تحت سنگین اقدام ہے لہٰذا ججوں کو فیصلے دینے میں عدالتی ذہن اختیار کرتے ہوئے نہایت سمجھ بوجھ اور فکر و دانش سے کام لینا ہوگا۔