• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خون کو بہنے سے تو روکا جاسکتا ہے لیکن پانی نہیں رکے گا، بھارتی میڈیا

کراچی (رفیق مانگٹ)بھارتی میڈیا اس بات کااعتراف کررہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ممکن نہیں، خون کو بہنے سے تو روکا جاسکتا ہے لیکن پانی نہیں رکے گا، تامل ناڈو یا کرناٹکا کے برعکس کشمیر پہاڑی علاقہ ہے جس کے پانی کا رخ کسی دوسری ریاست کو موڑاہی نہیں جاسکتا۔ تکنیکی لحاظ سے بھی بھارت پانی کو روک نہیں سکتا۔معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں لیکن یہ منصوبے چند دن میں تو تیارنہیں ہوسکتے، پانی کا رخ تبدیل کرنے،استعمال کرنے یا روکنے کیلئے کسی بھی منصوبے کی تعمیرمیں عشرے لگیں گے۔ لیکن اس دوران بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار رہے گی۔پلوامہ حملے کے بعدبھارت نے پاکستانی دریاؤں کا پانی روک دینے کی دھمکی دی۔ بھارت کے وزیرآبی وسائل وزیر نیتن گاڈکری نے کہا کہ مشرقی دریاؤں سے پانی کا رخ موڑ کر اسے مقبوضہ کشمیر اور پنجاب کے لوگوں کو دیں گے۔ این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پانی روک کر بھارت دو جوہری ممالک کے درمیان تعاون کے واحد کامیاب طویل مدتی معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا۔وزیر کا پانی روکنے کا بیان موجودہ پالیسی کی بجائے اعلان تھا ،بھارت پہلے ہی 94فی صد پانی استعمال کرتا ہے۔ ماہرین خبردار کرچکے ہیں پاکستان پانی کی شدید قلت کا شکار ہے،بھارتی سیکورٹی ماہر کا کہنا ہے کہ بھارت کا پانی کے متعلق بیان اس لئے آیا کہ پاکستان کے خلاف کارروائی کیلئے حکومت شدید دباؤ میں ہے لیکن پانی روکنا ممکن نہیں اس کی بجائے دیگر ہتھکنڈے آزمائے جاسکتے ہیں۔بھارتی اخبار ایشین ایج نے لکھا کہ اڑی واقعے کے بعد مودی نے بھی کہا تھا خون اور پانی اکھٹے نہیں بہہ سکتے۔ اب ان کا وزیر پاکستان کے پانیوں کو روکنے کا کہہ رہا ہے۔یہ بیان ہندو بھگتوں کے مجمع کو تو خوش کرسکتا ہے مگر اس پر عمل کرنا حقیقت سے دور ہے۔گاڈکری نے پرانی دھمکیوں کو دہرایا کہ بھارت یوں بدلہ لے گا،حقیقت یہ ہے کہ خون کو بہنے سے تو روکا جاسکتا ہے لیکن پانی نہیں رکے گا۔اڑی واقعے کے بعد بھی ایسے بیانات دیئے گئے ، وعدوں اور حقیقت میں بڑا فرق تھا، وزیر اعظم مودی کی انتخابات سے قبل کی تقریریں اب انہیں شرمندہ کرنے لئے دوبارہ نشر کی جارہی ہیں۔ کہا گیا کہ اس معاہدے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا،اس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جب بادشاہت آئے، لیکن حقیقت وہی رہے گی۔ کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ فرض کریں کہ دلائل کی خاطر پانی روک دیتے ہیں پھر پانی کہاں جائے گا،ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا انفراسٹرکچر ہی نہیں ہے،انڈس دریائی نظام ایک کروڑ گیارہ لاکھ65ہزار مروبع کلومیٹر کو سیراب کرتا ہے ،سالانہ بہاؤ کے لحاظ سے یہ21واں بڑا دنیا کا دریا ہے۔ یہ پاکستان کی واحد بقا ہے۔پیچیدہ نہری نظام کازیادہ تر انفرااسٹرکچر تقسیم کے بعد پاکستان میں چلا گیا،لیکن ان کا سرا بھارت میں رہ گیا،جس سے پاکستان کے پنجابی زمینداروں میں تحفظات پائے گئے۔ کئی برس کی بات چیت کے بعد عالمی بینک نے1960میں یہ معاہدہ کرایا۔اس معاہدے کی توثیق کے بعد دونوں ممالک میں تین جنگیں ہوئیں تاہم اس معاہدے کے تحت پانی کے بہاؤ میں ایک دن بھی خلل نہیں پڑا۔لہذا معمولی سی فوجی کارروائی بہت بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ جو کنٹرول سے باہر جاسکتی ہے۔ عمران خان خطاب میں واضح کرچکے ہیں کہ کسی حملے کی صور ت میں وہ بھرپورجواب دیں گے ۔پاکستانی فوج بھارت کے مقابلے میں عددی لحاظ سے کم ہے جس کی وجہ سے بھارتی حملے کو روکنے کےلئے نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کی اسٹریٹجی اپنائی جاسکتی ہے۔ماضی میں ددنوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آئیں ،تاہم واشنگٹن کی مداخلت نے بڑھتے تصادم کو روک دیا ،آج صورت حال مختلف ہے مودی جواب دینے میں دیر نہیں کرسکتے۔ عام انتخابات سر پر ہیں۔اب نہ تو مودی اور نہ ہی عمران خان واشنگٹن پر انحصار نہیں کرسکتے۔تاہم وقت اور ٹرمپ اس وقت مودی اور جنوبی ایشیا کے حق میں نہیں۔برطانوی اخبار ٹیلی گراف لکھتا ہے کہ مودی نے2016میں خود سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا کہ اڑی واقعے کے بعد انہوں نے سرحد پار کارروائی کی۔ تاہم پلوامہ کے بعد ایسی کاروائی کیوں نہیں کی گئی،مبصرین کا اس پر کہنا تھا کہ بھارت پاکستان پر سفارتی اور معاشی دبائو ڈالے گا اور آخر پر وہ ملٹری دبائو استعمال کرے گا۔سفارتی دباو¿ پہلے ہی استعمال کیا جارہا ہے۔بھارت اپنے تمام اتحادیوں کو اس بارے آگاہ کرکے پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے۔اسلام آباد کا خلیجی ریاستوں اور چین کے ساتھ اتحاد ہے، اس کے ساتھ افغانستان میں امریکی انخلا کے سمجھوتے میں اہم کردار ادا کررہا ہے ،اس لئے اسلام آبا د کو تنہا کرنے میں بھارت کو مشکلات پیش آئیں گی۔ معاشی انتقام بھی بہت کم اثر ڈالے گا۔دہلی نے تجارتی اسٹیٹس ختم کردیالیکن دونوں ممالک کے درمیان تجارت انتہائی کم ہے لہٰذا اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اگر پاکستان جیش محمد اور مسعود اظہر کے خلاف ایکشن نہیں لیتا تو مودی کے پاس ملٹری کا آپشن رہ جاتا ہے۔اس ایشو پر کوئی بھی پاکستان کے ساتھ بھرپور جنگ نہیں دیکھ رہا۔ عمران خان نے بھی بھارت کو خطاب کے ذریعے پیغام دے دیا،کوئی بھی ملٹری ایکشن دنوں یا ہفتوں کےلئے ملتوی کیا جاسکتا ہے اور پاکستان کو ایکشن کرنے کےلئے وقت دیا جائے گا۔پھر بھارتی سفارت کار دعویٰ کریں گے کہ ان کے ملک نے اس سے گریز کیا ہے لیکن ان کے پاس اور کوئی انتخاب بھی نہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ بالکل واضح ہے کہ بھارت بڑھاوا نہیں دینا چاہتا۔بھارتی اخبار”فنانشل ایکسپریس “ لکھتا ہے کہ پاکستان کے معاملے پر بھارت متحد ہے۔فرانس کے لئے سو سال تک جرمن دشمن رہا، برطانیہ کے لئے فرانس ایک ہزار سال تک دشمن رہا،اسی طرح بھارت اور پاکستان1947سے دشمن چلے آرہے ہیں۔چار جنگیں ہوئی1965میں اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادرشاشتری نے آرمی کو پنجاب کی سرحد پار کرنے کا حکم دے کا حیران کردیا۔پاکستان کو توڑنے کےلئے مکتی باہنی کی حمایت کی اور بنگلادیش بنایا۔کارگل میں حیرانی کے باوجود بھارت جیتا۔ اس میں بہت کم شک ہے کہ آئندہ بھی بھارت محدود جنگ کو جیت سکتا ہے۔لیکن اب جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ ہے ۔ وہ لوگ جوپاکستان اور بھارت کے امن اور متحد ہونے کی بات کرتے تھے،اب پلواما کے بعد ان کی وہ باتیں خواب ہوئیں، اب بدلہ لینا مقصد ہے۔بھارت کےلئے فوری کارروائی لائن آف کنٹرول کے پار کی جاسکتی ہے۔کچھ جانی نقصان کے بعد آزاد کشمیر پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں معاملہ اقوام متحدہ میں جاسکتا ہے۔اس کے ساتھ چین کے ساتھ سرحد پر تنازع پیدا ہوسکتا۔ بھارت کو طویل جنگ لڑنے کا تجربہ نہیں۔1962کی شکست سامنے ہے۔اب پنجاب یا راجستھان سے کارروائی کی جاسکتی ہے۔بھارت سرجیکل اسٹرائیکل کی طرح کارروائی کرے اور واپس آجائے لیکن اس سے پاکستان کسی اور محاذ پر بڑی جنگ چھیڑ سکتا ہے۔نیول آپشن بھی ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت نے زمینی جنگیں لڑی ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق کیمونسٹ پارٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف ملٹری ایکشن بھارت کو مدد نہیں دے گا۔ انتخابی مقاصد کو حاصل کرنے کے علاوہ ملٹری ایکشن دہشت گردی کو ختم کرنے میں معاون نہیں ہوگا۔کشمیر کے حل کےلئے سیاسی عمل کے علاوہ طاقت یا فوج کا استعمال مزیدمعاملات کو خراب کرے گا،کشمیر کے جلتے ہوئے ایشو کو حل کرنے میں کسی سیاسی عمل کو اپنانے میں مودی حکومت ناکام رہی۔خلیج ٹائمز کے مطابق دبئی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق بھارتی آرمی سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاملے پر بھارت کو آئیڈیل قسم کا ایجنڈا ترک کرنا چاہیے حقیقی اپروچ اپنانے کی ضرور ت ہے اور پاکستان کے طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے،اس موقع پر امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بیس کروڑ عوام دہشت گردی کا شکار ہے،آخر کار پاکستان کو اسے ختم کرنا ہو گا کیونکہ وہ اس کے مفاد میں ہے۔جہاں تک بھارت کا تعلق ہے ملٹری آپشن کبھی بھی ٹیبل سے نہیں ہٹایا گیا۔عام شہر ی اور بزنس کمیونٹی کبھی بھی یہ نہیں چاہتی۔

تازہ ترین