• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق طالبہ کی موت کا معمہ حل نہ ہوسکا

کراچی(اسٹاف رپورٹر) انڈا موڑ کے قریب مبینہ پولیس مقابلے کے دوران جاں بحق طالبہ کی موت کا معمہ حل نہ ہوسکا، متوفی طالبہ کے ماموں کہنا ہے کہ انہیں یہ نہیں بتایا جا رہا کہ نمرہ کوپولیس کی گولی لگی ہے یا ڈاکوئوں کی گولی لگی ہے۔ انہوں نے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب جاں بحق ہونے والی طالبہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ورثا کے حوالےکردی گئی، جناح اسپتال میں لیڈی ایم ایل او کی عدم موجودگی اوراسپتال آنے سے انکارپر مقتولہ کی لاش 4 گھنٹے تک مردہ خانے میں پڑی رہی ۔تفصیلات کے مطابق جمعہ کی شب نارتھ کراچی انڈا موڑ کے قریب پولیس اور ڈاکوؤں کی دوطرفہ فائرنگ کی زد میں آکرجاں بحق ہونے والی طالبہ نمرہ بیگ کی لاش رات گئے پوسٹ مارٹم کیلئے جناح اسپتال کے مردہ خانہ لائی گئی تاہم جناح اسپتال میں لیڈی ایم ایل او موجود نہیں تھی، فون پررابطہ کرنے پر لیڈی ایم ایل اوڈاکٹر ذکیہ نے اسپتال آنے سے انکارکردیا، لیڈی ایم ایل او کا موقف تھا کہ پہلی ایم ایل رپورٹ عباسی شہید اسپتال میں درج ہوئی ہے اور پوسٹ مارٹم بھی وہیں سے گرایا جائے تاہم پولیس حکام کا کہناتھا کہ نمرہ کی موت جناح اسپتال پہنچنے کے بعد ہوئی ہے اورنمرہ کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جناح اسپتال سے جاری ہوا ہے لہٰذا پوسٹ مارٹم بھی جناح اسپتال میں ہی ہوگا ۔مردہ خانے کے باہرموجود مقتولہ نمرہ بیگ کے ماموں محمد ذکی خان اورچھوٹے بھائی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نمرہ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں میڈیکل کی فائنل ایئر کی طالبہ اور 2بہن بھائیوں میں بڑی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ نمرہ کے والد مرزا اعجاز بیگ بھی محکمہ پولیس میں تھے اور2010 میں انکا انتقال ہو گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ انہیں مختلف ٹی وی چینلز پرخبر نشر ہونے پر واقعہ سے متعلق معلوم ہوا جس پر انھوں نے نمرہ کے موبائل فون پررابطہ کیا تو کسی نامعلوم شخص نے فون اٹھایا اورکہا کہ آپ لوگ جلد عباسی شہیداسپتال پہنچیںاور جب وہ عباسی شہید اسپتال پہنچے تو نمرہ کو جناح اسپتال منتقل کردیا گیا تھا، انھوں نے کہا کہ پہلے ڈاکٹروں کی جانب سے بتایا گیا کہ نمرہ کے سرپرگولی لگی ہےاورسرپر لگنے والی گولی کا انٹری اور ایگزٹ بھی موجود ہے جب سرپرپٹیاں باندھی گئیں تومعلوم ہوا کہ نمرہ کے سر پرصرف گولی لگنے کا زخم موجود ہے اسکا مطلب گولی سرمیں ہی موجود ہے اور اسے نکالا نہیں گیا ہے، مقتولہ کے ماموں کا کہنا تھا کہ انہیں یہ نہیں بتایا جا رہا کہ نمرہ کوپولیس کی گولی لگی ہے یا ڈاکوئوں کی گولی لگی ہے ۔انھوں نے الزام عائد کیا کہ پوسٹ مارٹم کرانے کیلئے جب ڈاکٹرذکیہ کو فون کال کی گئی توانھوں آنے سے صاف انکار کردیا۔ انھوں نے بتایا کہ کئی گھنٹوں سے ادھر ادھرگھوم رہے ہیں لیکن انکی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے نہ ہی ان سے تعاون کیاجا رہا ہے، مقتولہ کے ماموں نے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا ہے انکے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اگرنمرہ کوپولیس کی گولی لگی ہے تو صاف صاف بتایا جائے ان کا کہنا تھا کہ موقع پرموجود لوگوں نے پولیس موبائل میں بیٹھے ہوئے اہلکاروں کو باتیں کرتے سنا ہے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا معاملے کی غیر جانبدرانہ اور مکمل تحقیقات کی جائے اور جو حقائق ہیں انہیں سامنے لاجائے، تقریباً4 گھنٹے انتظار کرنے کے بعد لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ نجی فلاحی ادارے کی ایمبولینس میں سوار ہو کر جناح اسپتال کے مردہ خانے پہنچیں اور پوسٹ مارٹم شروع کیا گیا، ڈاکٹر ذکیہ کے مطابق مقتولہ نمرہ کے متعدد ایکسرے اور سی ٹی اسکین کرایا گیا، مقتولہ کے جسم میں لگنے والی گولی کا سکہ نہیں ملا۔ انہوں نے بتایا کہ مقتولہ کو سر میں دائیں جانب سے گولی لگی،سر میں دو اعشاریہ پانچ سینٹی میٹر کا زخم آیا، گولی سر کی ہڈی کو توڑتے ہوئے نکل گئی، سر کی ہڈی ٹوٹنے سے مقتولہ کے دماغ کو نقصان پہنچا، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نمرہ کو چھوٹے ہتھیار کی گولی لگی، نمرہ کو لگنی والی گولی کا حتمی تعین پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے پر ہوگا۔ ایس ایس پی سینٹرل راؤ عارف اسلم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شارع نور جہاں پولیس کا ڈاکوئوں سے مقابلہ ہوا تھا، نمرہ دوطرفہ فائرنگ کی زد میں آئی اور بدقسمتی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کی فائرنگ سے ایک ڈاکو ہلاک دوسرا زخمی بھی ہوا۔ عینی شاہدین نے بھی بتایا کہ گولیاں دونوں جانب سے چلی ہیں اس لیے لواحقین کا پولیس پر شک کا اظہار جائز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لواحقین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ شفاف تحقیقات ہونگی، پووسٹ مارٹم مکمل کر لیا گیا ہے، رپورٹ آنے کے بعد حقائق سامنے آسکیں گے۔دریں اثناء طالبہ نمرہ کی مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے کا وزیراعلی سندھ نے نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس قسم کے واقعات ناقابل برداشت ہیں، مجھے تفیصلی رپورٹ چاہیے کہ یہ واقعہ کس کی غفلت سے پیش آیا ہے۔ دریں اثناء لیاقت آباد میں فائرنگ کے واقعہ کا بھی وزیراعلیٰ سندھ نے نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے اور فائرنگ سے نعیم الدین نامی شخص کی ہلاکت پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار بھی کیا۔ انھوں نے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے دریافت کیا ہے کہ مذکورہ واقعہ ٹارگیٹ کلنگ ہے، لوٹ مار کا ہے یا پھر کوئی اور وجہ ہے؟ نیز انھوں نے ہدایت کی ہے کہ فوری قاتل گرفتار کرکے رپورٹ کی جائے۔دریں اثناء مبینہ پولیس مقابلے کے دوران طالبہ کی ہلاکت کے حوالے سے پولیس نے تین رکنی کمیٹی قائم کردی ، ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ نے ڈی آئی جی سی آئی اے عارف حنیف کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی، جس میں انچارج ایس آئی یو ایس ایس پی نعمان صدیقی اور ایس پی ٹریفک سمیع اللہ سومرو کمیٹی کے ممبران میں شامل ہیں، 22 فروری کی رات انڈا موڑ پر اسٹریٹ کرائم کی واردات، ملزمان کی فائرنگ اور پولیس کی کارروائی پر تفتیش ہوگی ، کمیٹی کے چیئرمین عارف حنیف کو تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ تین دن میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے ۔ دریں اثناء تحقیقاتی کمیٹی نےجائے وقوع کا دورہ کیا۔ دو ڈی آئی جیز عارف حنیف، امین یوسفزئی، 2 ایس ایس پیزنعمان صدیقی اور سمیع اللہ سومرو پر مشتمل کمیٹی نے تحقیقات کا آغاز کردیا ،کمیٹی کے ارکان نے نارتھ کراچی میں انڈا موڑ پر جائے وقوعہ کا معائنہ کیا، عینی شاہدین سے بیانات لیےکمیٹی کے ارکان متوفیہ طالبہ نمرہ کے گھر بھی گئے، اہل خانہ سے تعزیت کی اور انصاف کی یقین دہانی کرائی ،متوفیہ نمرہ کا تعلق پولیس کے خاندان سے ہے، مقتولہ کے مرحوم والد اور دادا بھی پولیس ملازم تھے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان نے مقتولہ نمرہ کے ماموں اور دیگر فیملی ارکان کے بیانات ریکارڈ کیے۔دریں اثنا ء کراچی سے اسٹاف رپورٹر بابر اعوان کے مطابق نمرہ انتہائی ذہین ، فرمانبدار اور اچھے اخلاق کی حامل تھی ۔ اس نے سینٹ جانز سے انٹر کیا وہ ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی تھی لیکن گولی کا نشانہ بن گئی۔ ایسی ریاست اور شہر میں رہنے کا کیا فائدہ جہاں علم حاصل کرنے کیلئے نکلیں اور نعش گھر میں واپس لائی جائے۔ ان خیالات کا اظہار انڈا موڑکے قریب مبینہ پولیس مقابلے کے دوران فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی طالبہ نمرہ کے ماموں محمد زکی خان نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہو ں نے بتایا کہ نمرہ کے والد مرزا اعجاز بیگ انتقال کے بعد انکی بہن اور بچے ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ نمرہ کی عمر 23سال تھی اور وہ ڈاؤ یونیورسٹی میں فائنل ایئر کی طالبہ تھی۔ نمرہ سے ایک چھوٹا بھائی مرزا حسن بیگ ہے جسکی عمر 21سال ہے اور وہ یونیورسٹی کا طالبعلم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نمر ہ کی والدہ نجی کالج میں لیکچرار ہیں جو غم سے نڈھال ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔

تازہ ترین