• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے پانچ ہفتے پہلے عدلیہ کی سربراہی کا منصب سنبھالتے وقت ملک کی عدالتوں میں زیر التواء لاکھوں مقدمات کا قرض اتارنے اور جھوٹے مقدمات کے سیلاب کو روکنے کیلئے ڈیم بنانے کا اعلان کرکے مروجہ عدالتی نظام کی بڑی خامیوں کی اصلاح کے عزم کا اظہار کیا تھا اور یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ اس مشن کی تکمیل کیلئے ان کی جانب سے عملی اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔ منصب پر فائز ہونے کے بعد گزشتہ روز وہ سندھ ہائی کورٹ میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کرنے کیلئے پہلی بار کراچی آئے۔ اجلاس میں جس کے شرکاء عدالتِ عالیہ سندھ کے سربراہ جسٹس احمد علی شیخ اور دیگر جج صاحبان پر مشتمل تھے، سندھ کی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے عدالتوں میں طویل عرصے سے زیرِ سماعت مقدمات کو جلد نمٹانے اور اس مقصد کیلئے مربوط نظام وضع کرنے کا حکم دیا۔ مقدمات میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ وکلاء کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی درخواستوں کو قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس طرزِ عمل کی حوصلہ شکنی کی ہدایت کی۔ جھوٹی مقدمہ بازی کی مؤثر اور فوری روک تھام پر بھی چیف جسٹس نے زور دیا کیونکہ عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے جبکہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو اُن اقدامات سے آگاہ کیا جو ان اہداف کے حصول کی خاطر کیے گئے ہیں۔ بلاشبہ جھوٹے مقدمات کا کسی روک ٹوک کے بغیر دائر کیا جانا اور زیر سماعت مقدمات کی سماعت کا غیر ضروری طور پر ملتوی ہوتے چلے جانا ہمارے مروجہ عدالتی نظام کے بنیادی نقائص میں شامل ہیں، جنہوں نے انصاف کی فراہمی کو انتہائی دشوار بنا رکھا ہے۔ سائلین کو تاریخوں پر تاریخیں دیئے جانے کی وجہ سے کرائے دار اور مالک مکان کے قضیوں جیسے آسان مقدمات کے فیصل ہونے میں بھی بسا اوقات کئی کئی عشرے لگ جاتے ہیں اور یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے جس کی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں کہ دادا کے دائر کیے ہوئے مقدمے کا فیصلہ پوتے کی زندگی میں ہوتا ہے۔ گزشتہ سال جنوری میں سپریم کورٹ کی ایک تین رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انکشاف کیا تھا کہ ہماری تمام سطحوں کی عدالتوں میں مجموعی طور پر 19لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التواء ہیں جبکہ انہیں نمٹانے کیلئے محض چار ہزار جج دستیاب ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور تمام نچلی عدالتوں کے یہ چار ہزار جج دن رات بھی کام کریں تو مقدمات کا یہ طومار نمٹایا نہیں جا سکتا۔ اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ججوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ بتایا تھا کہ جب حکومت سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ فنڈز نہیں ہیں۔ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو عدلیہ کی اس ضرورت کو پورا کرنے کی حتی المقدور پوری کوشش کرنا چاہئے کیونکہ انصاف کی فراہمی کسی بھی معاشرے کو قائم رکھنے کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ جھوٹی گواہی بھی ہمارے عدالتی نظام میں رچا بسا ایک ایسا روگ ہے جو مقدمات کو الجھانے اور طول دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور چیف جسٹس نے پچھلے دنوں مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران اس لعنت کے خاتمے کی ضرورت کا بھی بڑے پُرزور اندازمیں اظہار کیا ہے۔ جھوٹی گواہی کا خاتمہ ہو جائے تو جھوٹے مقدمات کا دائر کیا جانا یقیناً محال ہو جائے گا اور ہماری عدالتوں کو غیر ضروری بوجھ سے نجات مل جائے گی۔ پولیس کے نظامِ تفتیش کی اصلاح بھی اس کے بغیر ممکن نہیں جس میں استغاثے کا موقف ثابت کرنے کیلئے اکثر جھوٹے گواہوں پر انحصار کیا جاتا ہے جس سے انصاف کی نہیں بے انصافی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ لہٰذا اس مکروہ سلسلے کے خاتمے کیلئے ضروری قانون سازی کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی مشاورت سے حکومت اور پارلیمنٹ کو عدالتی نظام کی بہتری کیلئے تمام مطلوبہ اقدامات جلد از جلد میں عمل میں لانا چاہئیں۔

تازہ ترین