• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتہ پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے نہایت اہم تھا کیونکہ چائنا چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (ACCIC) کے صدر گائوین لانگ کی سربراہی اور پاکستان میں چائنا کے سفیر یو جینگ اور ایگزم بینک چائنا کے سابق صدر لی روگ کے ساتھ چین کے 12رکنی سرمایہ کاروں کے وفد سے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے اعلیٰ سطحی وفد کی فیڈریشن کیپٹل آفس اسلام آباد میں ظہرانے پر ملاقات ہوئی، جس میں سی پیک کے اسپیشل اکنامک زونز میں چین سے صنعتوں کی منتقلی، ٹیکسٹائل سمیت دیگر مصنوعات کی چین کو ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کیلئے پاک چین آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے فیز کا جائزہ اور پاکستانی بزنس مینوں کو چین کے ویزے کی آسان سہولتیں دینے پر نہایت اہم مذاکرات ہوئے۔ فیڈریشن کی طرف سے مذاکرات میں میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر، نائب صدور اور ممتاز بزنس مینوں نے شرکت کی۔ مذاکرات کا دوسرا دور بیجنگ میں ہوگا جس کیلئے ACCICکے صدر گائوین لانگ نے فیڈریشن کو دعوت دی ہے۔ پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے 14فروری کو چینی وفد کو فرینڈز آف سلک روٹ پر اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں سیمینار منعقد کیا، جس میں چین کے پیپلز پولیٹکل پارٹی کے وائس چیئرمین گائوین لانگ، سینیٹر شبلی فراز، وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار، پاکستان میں چین کے سفیر، سینیٹرز اور پارلیمنٹرینز نے شرکت کی۔ مجھے بھی فیڈریشن کے صدر اور نائب صدور کے ساتھ سیمینار میں مدعو کیا گیا تھا۔ سیمینار میں سی پیک پر وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے اپنی تقریر میں ایک جامع رپورٹ پیش کی جس میں سی پیک کے تمام منصوبوں پر حکومت کی ترجیحات اور منصوبہ بندی کا ذکر کیا گیا۔ ایگزم بینک کے سابق صدر لی روگ نے پاکستان میں سی پیک منصوبے پر بزنس مینوں کی رائے جاننے کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ سی پیک ہمارا قومی منصوبہ ہے جس پر حکومت، تمام سیاسی جماعتیں، افواج پاکستان، بزنس کمیونٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز ایک صفحے پر ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ چین اور پاکستان کے علاوہ خطے کی خوشحالی کا ضامن ہے۔

اسلام آباد میں قیام کے دوران ہماری دوسری اہم ملاقات سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کے وفد جس میں سعودیہ کے ممتاز بزنس مین شامل تھے، سے ہوئی جس میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں 20ارب ڈالر کے معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کئے گئے جن کے تحت سعودی عرب متبادل توانائی، ریفائنری، پیٹرو کیمیکل پلانٹ، معدنی وسائل اور بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرے گا۔ اس دوران ٹیلی وژن انٹرویوز میں سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری پر مجھے مختلف چینلز پر مدعو کیا گیا تھا جہاں میں نے بتایا کہ مشکل حالات میں سعودی عرب کا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا ایک نہایت اہم فیصلہ ہے، سعودی عرب نے جتنے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، وہ سب طویل المیعاد ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب آئندہ دہائی میں پاکستان کو معاشی طور پر ایک مضبوط ملک دیکھتا ہے جو دنیا کیلئے ایک مثبت پیغام ہے۔ میں نے بتایا کہ نوجوان سعودی ولی عہد کے وژن 2030ء کے مطابق وہ سعودی عرب کی معیشت کا تیل پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے انہوں نے پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک میں صنعتوں میں سرمایہ کاری کا پلان بنایا ہے جس میں بھارت اور چین بھی شامل ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک جو پہلے یورپ، امریکہ کے اعلیٰ ہوٹلوں، شاپنگ مالز اور بلڈنگوں میں سرمایہ کاری کرتے تھے، اب وہ صنعتوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سی پیک کے علاقائی روابط کی وجہ سے سعودی عرب کے گوادر میں آئل ریفائنری کے قیام سے سعودی عرب چین کو تیل کی سپلائی نہایت کم وقت اور لاگت میں گوادر کے محفوظ راستے سے کر سکے گا جو چین کیلئے بھی مفید ہے جبکہ پاکستان کو ٹرانزٹ فیس سے خطیر زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ پاکستان سے سعودیہ تجارت میں ہماری ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ہم سعودی عرب سے زیادہ تر تیل امپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان سے تجارتی تعلقات بڑھانے کیلئے میں نے وفد کے ارکان کو سعودیہ کی فوڈ سیکورٹی کیلئے ایگریکلچر میں سرمایہ کاری کی تجویز دی۔ سات دن اسلام آباد میں قیام کے دوران فیڈریشن کے وفد نے اسلام آباد میں متعین مختلف سفیروں سے ملاقاتیں بھی کیں جن میں برازیل، ملائیشیا، مراکش، یمن اور صومالیہ کے سفیر شامل ہیں۔ مراکش کے سفیر محمد کرمون نے ہمارے اعزاز میں اپنے گھر پر ایک پُرتکلف عشائیہ دیا جبکہ اسلام آباد چیمبرز کے سابق صدر خالد اقبال ملک اور میرے قریبی دوست میاں اکرم فرید نے بھی فیڈریشن کے وفد کے اعزاز میں ظہرانہ اور عشائیہ دیئے جس کیلئے میں ان کا شکرگزار ہوں۔ اگر اس موقع پر میں پاکستان میں سعودیہ کے سفیر کا ذکر نہ کروں گا تو ناانصافی ہوگی۔ نواف بن سعید الملکی جو میرے اور میرے بھائی اشتیاق بیگ کے قریبی دوست ہیں، پاکستان میں سعودی عرب کے ملٹری اتاشی تعینات تھے، جس کی وجہ سے جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل راحیل شریف اور دیگر فوجی حلقوں میں ان کے نہایت قریبی تعلقات ہیں۔ سعودی سفیر، ولی عہد محمد بن سلمان کا بھی اعتماد رکھتے ہیں اور انہوں نے سعودیہ کے حالیہ دورے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے جس کو میں نے اپنے تمام ٹی وی انٹرویوز میں سراہا اور قوم ان کی شکرگزار ہے۔ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے سعودیہ، عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک سے بہتر تعلقات میں اہم کردار ادا کیا۔

اسلام آباد میں قیام کے آخری دن فیڈریشن کے نو منتخب عہدیداران کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ایوانِ صدر میں مدعو کیا تھا جس میں ہم نے صدر پاکستان کو مختلف ممالک کے وفود سے سرمایہ کاری کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں بتایا۔ کراچی پہنچنے پر ہمارے 9رکنی وفد کی ملاقات کور کمانڈر سندھ لیفٹیننٹ ہمایوں عزیز سے ہوئی جس میں بزنس کمیونٹی کے دیگر مسائل کے علاوہ ہم نے ان سے بھارت کی پاکستان سے تجارت اور ایکسپورٹ پر پابندی کے بارے میں گفتگو کی۔ میں نے انہیں چینی اور سعودی سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ بھارت پاکستان کی موجودہ تجارت 2.28ارب ڈالر ہے جس میں بھارت سے پاکستان ایکسپورٹ 1.8ارب ڈالر جبکہ پاکستان سے ایکسپورٹ صرف 0.4ارب ڈالر ہے لہٰذا پاکستان سے تجارت بند کرنے کا زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا۔ بھارت نے پلوامہ واقعہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی فضا خراب کرنے کی جو کوشش کی تھی، وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ میں حکومت اور بالخصوص وزیر خارجہ کواس کامیاب دورے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

تازہ ترین