• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے 2مرحلے کامیابی سے طے کئے ، پہلا مرحلہ سعودی شہزادے محمد بن سلمان کا پاکستان کا دورہ بھارتی کشیدگی کے باوجود بہت پر سکون اور خیر و عافیت سے گزرگیا ،اس دورے کے فوری اور دور رس نتائج قوم کو نظر آئیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی درخواست پر فوری عمل 2017قیدیوں کے خلاف مقدمات ختم کر کے پاکستان روانگی ،یہ فوری اور تاریخی کارنامہ مانا جائے گا جو ماضی میں کسی بھی حکومت نے کبھی سر انجام نہیں دیا تھا اور لاکھوں پاکستانی جو دریار غیر میں مزدوری کر کے اربوں ڈالر ز ہر سال پاکستان بھیجتے رہے،کبھی ان کی سنوائی نہیں ہوئی تھی۔ پہلی مرتبہ ہمارے وزیر اعظم نے پہل کر کے عوام کے دل موہ لئے ہیں۔ دوسرا فائدہ سی پیک میں شراکت اور اربوں ڈالر کے معاہدے اور ادھار تیل کی فراہمی یقینی طور پر قرضو ں کے سود کی ادائیگی جو ماضی کی حکومتوں سے منسلک تھیں کے بوجھ میں وقتی طور پر کم کرنے کا سبب بنے گی اور اگراس طرح کے معاہدے عمل پذیر ہوتے رہے تو قوم آہستہ آہستہ بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرلے گی۔بشرطیکہ کرپشن اور اخراجات پر قابوپالیاجائے ۔پاک سعودی اعلامیہ بھی پہلے مرتبہ پاکستانی قوم کی عظمت کا آئینہ دار تھا جو خوبصورتی سے ترتیب دیا گیا اور وزیر اعظم عمران خان کو نوواردسیاست ہونےکے باوجود قابل تعریف مانا جائیگا۔ اگر اسکا کریڈیٹ پی ٹی آئی حکومت کونہ دیں تو یہ زیادتی ہوگی ۔دوسرا اہم مرحلہ بھارتی پروپیگنڈہ ،کشمیر پلوامہ میں بھارتی فوجی گاڑیوں پر کشمیریوں کا حملہ بھارتی اندرونی معاملہ اور ردعمل کا توڑ بھی موثرثابت ہوا ۔ہم ہی نہیں خود بھارتی ٹی وی اینکر زاور سابق بھارتی چیف جسٹس مارکنڈے کا ٹجور بھی پاکستان کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ اب کشمیر یوں پر برس ہابرس سے پولیس اور فوج کے مظالم پر ان کی آنکھیں کھل چکی ہیں اور اب وہ صاف صاف کہتے ہیںکہ کشمیریوں کی ہمدردیاں سابق وزیر اعظم آنجہا نی واجپائی تک محدود تھیں، کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر کو پر امن طریقے سے حل کرنا چاہتے تھے۔ جبکہ ان کے پیشرووزیر اعظم مودی جبر اور طاقت سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ جو کشمیریوں کو منظور نہیں ہے اور تو اور بھارتی سیکولر کے زبردست حامی اور سابق کشمیری حکمراں فاروق عبداللہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ دوغلی پالیسی کی وجہ سے کھلی بغاوت کو جنم دیا ،جو اب نہیں رک سکتی۔ جب تک کشمیرکا مسئلہ پر امن طریقے سے طے نہ کیا جائے۔ یہ کریڈیٹ بھی وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے کہ کئی دن گزرنے کے باوجود وزیر اعظم عمران خان ثبوتوںپراصرار کرتے رہے ۔مگر ایک ثبوت بھی پاکستان کے ملوث ہونے کا بھارتی وزیر اعظم مودی نہیں دے سکے ،سوائے گیدڑبھبکیوں کے اور عالمی رائے عامہ کو ور غلانے کے ،جس میں وہ ناکام رہے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے۔ تو عالمی قانون 1949یو این او کے تحت جس علاقے میں فوج کی کشیدگی ہو۔اس میں فو ج پرمقامی جنگجو ردعمل کے طورپر فوجی کانوائے اور چھائونیوں پر جوابی حملہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ اس میں عوام کی کوئی املاک متاثر نہ ہو ،،یہ حملہ خود کشمیری باشندوں کی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ اس میں پاکستان کو کیوں ملوث کیا گیا بغیر کسی ثبوت کے ۔اب جبکہ تیسرا بڑا اہم مرحلہ ملزم کلبھوشن یادوکا حکومت پاکستان نے عالمی عدالت میں کامیاب طریقے سے سامنا کر کے بھارت کو جھوٹا ثابت کردیا ہے۔ فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے فوج کو ہر قسم کے بھارتی ردعمل سے تیار رہنے اور جوابی کاروائی بھی کرنے کا حکم جاری کرنا چاہئے۔ قوم بھی افواج پاکستان کے ساتھ ہے اور انشاء اللہ بھارت منہ کی کھائے گا البتہ ہم کوگھر کے دشمنوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہئے ۔آنے والے چند دن بہت اہم ہوسکتے ہیں ویسے بھارت نے جوابی کارروائی ہماری تجارت اور معیشت پر تو کردی ہے اور بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا کر ہمیں نقصان پہنچانے کی ابتداتو کر دی ہے ۔مگر اس کو نہیں معلوم کہ اس سے بڑا نقصان خود بھارت کی ایکسپورٹ پر ہوگا۔ ہماری درآمدات بھارت سے 25/20ارب ڈالرز ہیں۔ جبکہ بھارت کی برآمد ات صرف 2ڈھائی ارب ڈالرز ہیں ہم چین اور دیگر ممالک سے پورا کرسکتے ہیں جس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور بس، خود بھارت اپنے پائوں پر ہی انتقام میں کلہاڑی مار رہا ہے۔اسکے اپنے صنعتکار واویلا مچا رہے ہیں، انکے پاس اربوں ڈالرز کا مال تیار پڑا ہے انکے گداموں میں اس سے کیسے نمٹیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین