• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اوائل اکتوبر1999 کا ذکر ہے ۔ میدان صحافت میں قدم رکھے مجھے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ تب تھوڑا بہادر بھی تھا اور کسی حد تک بدتمیز بھی۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے جلسے میں شرکت کے لئے پشاور تشریف لائے تھے۔ جناح پارک کے جلسے میں اے این پی کوخوش کرنے کے لئے انہوں نے لال رنگ کی ٹوپی سر پر سجا رکھی تھی۔ اپنی تقریر میں انہوں نے جمہوری نظام اور میاں نوازشریف کی خوب خبر لی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما‘ عمران خان ‘ نوابزادہ نصراللہ خان اور جنرل اسلم بیگ وغیرہ تو واپس اپنے اپنے شہروں کو چل دئے لیکن علامہ صاحب نے رات پشاور میں گزاری ۔ اگلی صبح پشاور کے ایک ہوٹل میں انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ وہ کارگل جنگ کے دوران امریکی اخبارات میں فوج کے خلاف شائع ہونے والے اشتہارات اپنے ساتھ لائے تھے۔ انہوں نے میاں نوازشریف کو ملک دشمنی اور فوج کے خلاف سازش کا مرتکب قرار دیتے ہوئے فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے میاں نوازشریف کو گھر بھیج دے ۔ یہ سن کر میں نے علامہ صاحب سے عرض کیا کہ جب آئین میں فوج کے سیاسی کردار کا کوئی ذکر ہی نہیں تو وہ کس بنیاد پر فوج سے آئینی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مناسب جواب دینے کی بجائے علامہ صاحب مجھ پر برس پڑے۔ ان دنوں میں نے وہ کیسٹ تازہ تازہ سن رکھی تھی جس میں علامہ صاحب نے اپنے خوابوں کا حال سنایا تھا۔ ازراہ شرارت میں نے سوال اٹھایا کہ یہ جو وہ مطالبہ کررہے ہیں کہ فوج میاں نوازشریف کی حکومت کو رخصت کردے تو یہ ان کا اپنا اجتہاد ہے یا پھر اس کی ہدایت بھی نعوذ باللہ حضورﷺ نے دے رکھی ہے۔ اس پر علامہ صاحب طیش میں آگئے اور کیسٹ کو اپنے خلاف سازش قرار دیا تاہم بعدازاں انہوں نے کئی مواقع پر اپنی تقاریر میں اس آڈیو کیسٹ اور اس میں بیان کردہ خوابوں کی توجیہات بیان کردیں(مذکورہ تقریر اور اس کی وضاحت میں کی گئی تقاریر کی یہ ویڈیوز یوٹیوب پردیکھے جاسکتے ہیں) ۔ بہر حال ایک ہفتہ بعد پرویز مشرف نے علامہ صاحب کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اقتدارپر قبضہ کرلیا اور علامہ صاحب نے اس کا خیرمقدم کرنے والوں میں سبقت لے جانے کی خاطر بارہ اور تیرہ اکتوبر (1999ء) کی درمیانی رات میں اس مشہور زمانہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں موبائل فون کے استعمال کا ڈرامہ بھی دیکھنے کو ملا۔ بعدکے واقعات سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح انہوں نے عمران خان صاحب کے ساتھ مل کر ریفرنڈم کے دوران پرویز مشرف کے حق میں مہم چلائی لیکن 2002ء کے انتخابات میں جب پرویز مشرف کے نجومیوں نے قرعہ فال ان کی پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی جگہ مسلم لیگ(ق) کے نام نکالا تو عمران خان کی طرح وہ بھی پرویز مشرف سے مایوس ہوگئے۔ فرق البتہ یہ تھا کہ عمران خان صرف پرویز مشرف سے مایوس ہوئے لیکن علامہ صاحب سرے سے سیاست بلکہ پاکستان سے مایوس ہوگئے ۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے قومی اسمبلی کی واحد نشست سے استعفیٰ دے دیا ۔ پاکستان چھوڑ کر کینیڈا چل دئے اور وہاں کی شہریت حاصل کرکے ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھالیا۔ گزشتہ چھ سال کے دوران علامہ صاحب پاکستان کی سیاست اور صحافت کے افق سے بالکل غائب رہے۔ وہ تصنیف و تالیف میں جت گئے۔ مغربی ممالک کے دوروں اور وہاں تقاریر کے ذریعے اپنے مداحوں کے حلقے کو وسیع کرتے گئے۔ اس عرصہ میں انہوں نے جہاد و قتال کے موضوع پر بھی خوب لکھا اور طالبان کے خلاف مشہور زمانہ فتویٰ کی وجہ سے پاکستانی عسکریت پسندوں کے لئے ناپسندیدہ ترین شخصیت بن گئے۔ بیرون ملک ان تحریروں اور تقریروں سے اندازہ ہورہا تھا کہ علامہ صاحب مستقبل قریب میں پاکستان واپسی کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن تین ماہ قبل انہوں نے اچانک پاکستان واپسی کے لئے 23دسمبر 2012ء کی تاریخ مقرر کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ 23 دسمبر کو مینار پاکستان میں ہونے والا جلسہ سیاسی نہیں ہوگا بلکہ صرف پاکستانی پرچم نظر آئے گا ۔ انہوں نے سیاست نہیں‘ ریاست بچاؤ کا دلفریب نعرہ بلند کیا لیکن ایم کیوایم کی خصوصی شرکت کے ذریعے انہوں نے یہاں سے ایسی سیاست شروع کردی جس کی سمجھ ہم جیسوں کو تو کیا شاید خود انہیں بھی نہیں آرہی۔ یہاں علامہ صاحب نے 14 جنوری کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا ۔ نگران حکومت کے حوالے سے فوج اور عدلیہ کو بھی اسٹیک ہولڈر قرار دیا اور یہ دھمکی دی تھی کہ جب تک ان کی مرضی کے مطابق انتخابی اصلاحات نہیں کئے جاتے اور سب کے لئے قابل قبول نگراں حکومت قائم نہیں کی جاتی ‘ وہ اور ان کے لوگ نہیں اٹھیں گے ۔ جب سے علامہ صاحب نے یہ اعلان کیا ہے ‘ وہ تجزیوں اور اداریوں کا موضوع بنے ہوئے ہیں لیکن میں لکھنے سے گریز کرتا رہا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ حتمی رائے قائم کرنے سے قبل میں ان کو اور ان کے مشن کو سمجھنا چاہ رہا تھا۔ منہاج القرآن کے رہنماؤں کی طرف سے دعوت اور تاکید کے باوجود میں بوجوہ مینار پاکستان کے جلسے میں شرکت نہ کرسکا۔ جلسے کے بعد ازراہ کرم خود علامہ صاحب نے رابطہ کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ پچھلے ہفتے ملاقات طے ہوئی لیکن والدہ کی علالت کی وجہ سے مجھے پھر معذرت کرنی پڑی ۔ بالآخر گزشتہ جمعرات کو ان سے انٹرویو اور گپ شپ کے لئے لاہور حاضر ہوا۔ صبح سے شام تک پورا دن ان کے گھر پر یا پھرادارہ منہاج القرآن پر گزارا ۔منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق عباس اور عوامی تحریک کے مرکزی امیرصاحبزادہ مسکین فیض الرحمان سے بھی تبادلہ خیالات کا موقع میسر آیا ۔ بے پناہ شفقت کا اظہار کرتے ہوئے علامہ صاحب نے میری ٹائی بندی بھی کرادی ۔ وہ یوں کہ تحفے میں ٹائی پیش کرتے ہوئے انہوں نے میری ٹائی کا نہایت خوبصورت ناٹ بھی بنا دیا اور پھر اپنے ہاتھوں سے اسے میرے گلے میں بھی ڈال دیا۔ جس پر میں نے ازراہ تفنن ان سے عرض کیا کہ دیگر مولوی دستاربندی کراتے ہیں اور آپ نے آج میری ٹائی بندی کرادی۔ لیکن مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں اس نتیجے تک پہنچا کہ جو کام علامہ صاحب سے1999ء میں لیا گیا ‘ شاید وہی کام اب ان سے پھر لیاجارہا ہے لیکن اب کے بار کام لینے والے لوگ مختلف ہیں ۔علامہ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ ان کی قوت تحریر اورفن خطابت اپنی مثال آپ ہے ۔ چاہیں تو دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے حالیہ مشن کے حوالے سے ان کا دل زبان کا رفیق نظر نہیں آتا۔ دلیل وہ دے دیتے ہیں لیکن وہ دل کو اپیل نہیں کرتا۔ لائحہ عمل سامنے رکھ دیتے ہیں لیکن قابل عمل نظر نہیں آتا۔ میری ہمدردی ان کے ساتھ ہے لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ شاید ایک بار پھر ان سے 1999ء والا کام لیا جارہا ہے لیکن اب کے بار یہ کام ملک اور جمہوریت کے لئے پہلے والے کام سے زیادہ خطرناک ہے ۔ اب کے بارمنصوبہ پہلے سے زیادہ ناقابل عمل ہے اور خود ان کی ذات کے لئے بھی حد سے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے ۔ نقصان دہ اس لئے کہ اب جو جوابی پروپیگنڈا ہوگا ‘ اس کی وجہ سے ان کے متنازعہ ماضی کو دوبارہ کریدا جائے گا اور خطرناک اس لئے کہ اب کے بار ان کی زندگی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ افسوس کہ اپنی اور اپنے چاہنے والوں کی زندگی وہ ایک ایسے مشن کی خاطر خطرے میں ڈال رہے ہیں جس کی کامیابی کا خود انہیں بھی یقین نہیں ۔ انہیں یقین ہوتا تو وہ اتنے سارے طعنوں کے بعد کینیڈا کی شہریت کو چھوڑدیتے تاہم علامہ صاحب کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں لیکن اسے ترک کرنے کو نہیں۔ تبھی تو ہم جیسوں کا خیال ہے کہ خود انہیں بھی اپنی کامیابی کا پورا یقین نہیں۔
تازہ ترین