• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیسے کیسے انکشافات ہو رہے ہیں؟ خود انکشاف کرنے والوں پر بھی یہ حقائق شاید انہی دنوں منکشف ہوئے ہیں۔ کینیڈا سے آئے ہوئے شیخ الاسلام، جنہیں خواجہ سعد رفیق ”علامہ مغربی“ کہتے ہیں اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ تو 32 سال سے ایک ہی ایجنڈے، ایک ہی انقلابی پروگرام کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔ ادھر گجرات والے چودھری برادران نے بھی شیخ الاسلام سے اپنے سالہا سال پرانے تعلقات کا انکشاف کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ ان تعلقات کا کوئی عملی اظہار اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔ شیخ الاسلام سے نصف شب کی ملاقات کے بعد بڑے چودھری صاحب کا کہنا تھا کہ اس ملاقات میں ان کا دل و دماغ روشن ہوگیا ہے۔ شاید اسی روشنی میں ان پر سالہا سال پرانے تعلقات کا انکشاف ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیخ الاسلام کے انقلابی ایجنڈے کی تائید کرنے والی یہ دونوں جماعتیں گزشتہ 10 سال سے اسی گلے سڑے نظام سے حسب توفیق مستفید ہو رہی ہیں جس سے نجات کا دعویٰ لے کر جناب شیخ الاسلام پاکستان وارد ہوئے ہیں۔ مینار پاکستان پر شیخ الاسلام کے جلسے کے فوراً بعد کپتان نے انکشاف کیا، ہمارا ایجنڈا بھی یہی ہے۔ اگلے روز فرمایا، شیخ الاسلام کے لانگ مارچ میں شرکت نہیں کریں گے اور یہ بھی کہ عام انتخابات کا التوا تباہ کن ہوگا۔ لیکن گزشتہ روز لانگ مارچ کے بارے میں نیمے دروں نیمے بروں کی پالیسی اختیار کر لی، صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ کی شاندار فتح کے بعد چودھری برادران پر الیکشن کمیشن کے ”جانبدارانہ“ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد چند روز تو مخالفین پر سراسیمگی کی کیفیت رہی، اعصاب بحال ہوئے تو دھاندلی کے الزامات لبوں پر آئے۔ صوبائی الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو سامنے لائیں، باقی رہی ہوائی فائرنگ کی بات تو وہ انتخابی نتائج کے بعد ہوئی۔ اس پر بھی نہ صرف ایف آئی آر کٹی بلکہ فائرنگ کرنے والے گرفتار بھی کرلئے گئے۔ کپتان اور میاں منظور وٹو اپنے اپنے وفود کے ساتھ الگ الگ چیف الیکشن کمیشن سے ملے اس موقع پر ضمنی انتخابات میں ”دھاندلی“ کی بات بھی ہوئی۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا کہنا تھا، یہ ”عمومی نوعیت“ کی شکایات تھیں (وہی روایتی شکایات جو شکست خوردگان کی طرف سے سننے میں آتی ہیں، کسی ٹھوس ثبوت اور محکم شواہد کے بغیر۔) یادش بخیر، گورنر (اب سابق) لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ وہ انتخابی دھاندلیوں کے ثبوت اکٹھے کررہے ہیں۔ گورنر ہاؤس سے رخصتی تک وہ یہ ثبوت جمع نہیں کر پائے تھے۔انتخابات کے بروقت انعقاد پر قومی اتفاق رائے ہے، اجماعِ امت۔ چنانچہ شیخ الاسلام اور ان کے حلیفانِ تازہ کیلئے بھی یہ کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ان کے سفر انقلاب کی منزل انتخابات کا التوا نہیں، وہ تو محض اصلاحات کی بات کررہے ہیں جو نگران حکومت اپنی آئینی مدت کے دوران بھی کر سکتی ہے۔ نوابزادہ یاد آئے، زندہ ہوتے تو یہ شعر پڑھتے
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
ادھر ایک انکشاف کپتان کے گھریلو کالم نگار نے بھی کیا ہے جو اپنے لیڈر کے چچازاد بھی ہیں اور بہنوئی بھی۔ یہ ان کے خلاف پنجاب حکومت کی ”انتقامی کارروائیوں“ کا انکشاف ہے۔ حالانکہ یہ ایک پرائیویٹ بینک کی طرف سے ہائیکورٹ میں داخل کردہ ایک درخواست ہے جس میں دسمبر 1999ء میں لئے گئے قرضے کی وصولی کی استدعا کی گئی ہے۔ یہ ڈیفالٹ کا کیس ہے اور حیرت ہے کہ اپنے حالیہ کالم میں 16 کروڑ 23 لاکھ 87 ہزار 724 روپے کے معاملے کو انہوں نے چند سطروں میں سمیٹ دیا۔ کیا کروڑوں روپے کا یہ معاملہ واقعی اتنا سادہ اور اتنا مختصر تھا۔ ان کے بقول 1990ء میں پاکستان واپسی پر انہوں نے ٹیکسٹائل کا کاروبار اپنے سرمائے سے شروع کیا، بینک کو چلتے کام میں شریک کیا، نفع بھی کمایا اور نقصان بھی اٹھایا۔ کاروبار میں نفع آیا تو بینک کو کما کر بھی دیا اور بدقسمتی سے کاروبار بدحالی کا شکار ہوا تو اپنا سرمایہ بھی گنوایا اور شراکت داروں کو بھی نقصان پہنچا۔ کسی بینک سے قرضہ معاف نہیں کروایا۔ ”دی نیوز“ میں جناب طارق بٹ اور عثمان منظور کی مفصل رپورٹ سے دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ دسمبر 1999ء کی بات ہے جب انہوں نے ٹیکسٹائل پروڈکٹس کا کاروبار کرنے والی اپنی کمپنی کے لئے کمرشل بینک سے 13 کروڑ 21 لاکھ 79 ہزار 758 روپے قرضہ حاصل کیا۔ انٹرسٹ کے ساتھ اب یہ رقم 16 کروڑ 23 لاکھ 87 ہزار 724 روپے بنتی ہے۔ ہمارے دوست فاضل کالم نگار اس رقم کی وصولی سے انکار نہیں کرتے لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی 15اکتوبر 2002ء کے سرکلر کے مطابق 2007ء میں رائٹ آف ہوگئی تھی اور اس پالیسی سے صرف وہی مستفید نہیں ہوئے بلکہ 17 ہزار دیگر قرضوں کا معاملہ بھی اس کے مطابق طے کر دیا گیا۔ لیکن یہ معاملہ تو این آر او کا بھی تھا جس سے محض محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری ہی نہیں بلکہ 7 ہزار کے قریب دیگر افراد بھی مستفید ہوئے تھے۔ اسے محض حسن اتفاق سمجھ لیں کہ یہ قرضہ لیا بھی مشرف دور میں گیا (تب کپتان مشرف کے انقلابی ایجنڈے کا پرجوش حامی تھا) اور یہ رائٹ آف بھی مشرف ہی کے دور میں ہوا۔ یاد آیا، مشرف حکومت سے تقریباً 3 سالہ ہنی مون کے خاتمے پر جب کپتان قومی اسمبلی کا رکن بھی تھا، پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں اخبار نویسوں کو دکھانے کے لئے اس کی بغل میں عموماً چودھریوں کے معاف کروائے گئے قرضوں کی ایک فائل ہوتی۔ اب خود کپتان کے لئے یہ ایک بھولی بسری داستان بن گئی ہے جس طرح الطاف بھائی کے خلاف لندن میں مقدمہ درج کروانے کی بات قصہٴ پارینہ ہوچکی۔ ادھر تحریک انصاف نے ہمارے اس دوست فاضل کالم نگار سے اظہار لاتعلقی کر دیا ہے۔ تحریک کے سیکرٹری اطلاعات شفقت محمود کے بیان کے مطابق موصوف تحریک کے بنیادی رکن بھی نہیں۔ خود ہمارے یہ دوست بھی وقتاً فوقتاً یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے دو آنے کے ممبر بھی نہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ ایک ٹی وی چینل پر مارننگ شو میں موصوف کا تعارف تحریک انصاف کے رہنما کے طورپر کرایا گیا تو انہوں نے فوراً ہی اس کی تردید کردی اور کہا کہ عمران خان سے رشتہ داری کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ اسی شام عمران خان جناب سید منور حسن سے ملاقات کے لئے منصورہ گئے تو موصوف بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ملاقات کی لائیو کوریج میں وہ کبھی عمران خان اور کبھی منور حسن سے سرگوشیاں کرتے نظر آئے۔ ایک دوست نے تبصرہ کیا یہی صاحب ایک دن پہلے تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان فرما رہے تھے۔ ان کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں لیکن 2002ء کے الیکشن میں وہ اسی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میانوالی سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے (اور ہار گئے)۔ ان کی کمپنی میں راولپنڈی کے کچھ ڈاکٹر صاحبان نے بھی سرمایہ کاری کی تھی۔ وہ اب بھی بہت سی دستاویزات لئے پھرتے ہیں۔ عمران خان کے ایک سابق رابطہ کار نوجوان صحافی نمل یونیورسٹی کے لئے 30 لاکھ روپے کے ایک عطیہ کا ذکر بھی کرتے ہیں جو یونیورسٹی اکاؤنٹ کی بجائے ایک نجی اکاؤنٹ میں چلا گیا۔ یہ پیسہ نکلوانے کے لئے نمل انتظامیہ کو جو کاوش کرنا پڑی وہ اپنی جگہ ایک الگ طلسم ہوشربا ہے۔
تازہ ترین