• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی ہنگامی حالات کے اعلان کا کیا مطلب ہے؟

کاظم شوببر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے فنڈز کی درخواست پر کانگریس کی جانب سے انہیں فنڈز دینے سے انکار کے بعد جمعہ کو ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا۔

یہ اعلان امریکی صدر کو وفاقی رقم کے اربوں ڈالرز کا رخ دیوار کی تعمیر کی جانب موڑنے اور پیدا ہوانے والے قانونی چیلنجز کو ختم کرنے میں مدد کرے گا ۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دو سالہ صدارتی دور میں اپنے دیوار کی تعمیر کے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہونے کے بعد متنازع حکمت عملی کا انتخاب کیا ہے، جب ریپبلکن پارٹی کا ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں پر کنٹرول ہے۔

ایمرجنسی کے اعلان کے بعد صدر کون سے اختیارات کا استعمال کرسکتے ہیں؟

ایک عام معاملے کے طور پر۔ آئین کانگریس کے ہاتھوں میں فنڈز مختص کرنے کے لئے واحد اختیار فراہم کرتا ہے، جو فیصلہ کرتی ہے کہ کتنا خرچ کرنا اور کس پر خرچ کرنا ہے جب وہ بجٹ پاس کرتی ہے۔ قومی ایمرجنسیز ایکٹ صدر کو دیگر مقاصد کیلئے فنڈز کا رخ موڑنے کے لئے اختیار فراہم کرتا ہے۔

یہ ایکٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو نیشنل ایمرجنسی کے اعلان کی اجازت دیتا ہے اور ایمرجنسی کا مطلب کیا ہے اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔

ٹیکساس اسکول آف لاء یونیورسٹی میں پروفیسر رابرٹ چینسی نے کہا کہ صدر کے پاس اپنے لئے کافی وسیع اختیارات ہیں کہ وہ ایمرجنسی کے طور پر درجہ بندی کرنا چاہتا ہے۔

یہ ایکٹ بشمول بعض فنڈز کو دوبارہ مختص کرنے کے 100 سے زائد قوانین کے تحت ہنگامی حالت میں صدر کو اختیارات کی ایک ترتیب فراہم کرتا ہے۔

مثال کے طور پر، قومی ہنگامی حالت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دفاع کے شعبے کے فنڈز عسکری تعمیراتی منصوبے، جو مسلح افواج کے استعمال کیلئے ضروری ہیں، کی جانب بھیجنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس نے عسکری کے سول کاموں کے منصوبوں کے لئے مختص فنڈز کو منتقل کرنے کے اختیارات بھی دیتی ہے۔

متعدد صدور نے اکثر غیرملکی معاملات کے تناظر میں اختیارات کی مدد طلب کی ہے۔ اس معاملے میں کانگریس، جسے آئین کی جانب سے وفاقی بٹوہ کی ڈوری دی گئی ہے، نے اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے پورے طور پر فنڈ دینے سے انکار کردیا ہے جس کیلئے ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا ہے۔

اب کیا ہوگا؟

ڈیموکریٹس کی جانب سے کانگریس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کو روکنے کی کوشش کی جائے گی، لیکن اس کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔

نیشنل ایمرجنسی ایکٹ نے کانگریس کو ہنگامی صورتحال کے نفاذ سے مدد کو ختم کرنے کے لئے قرارداد منظور کرنے کی صلاحیت فراہم کی ہے۔ قطعی طور پر، اگر ایوان نمائندگان قرارداد کی منظوری یا اس کے برعکس کارروائی کرتے ہیں تو سینیٹ کو 18 روز کے اندر اندر ووٹ کے انعقاد کرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ سینیٹ میں ریپبلکنز کو یہ کہنے پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کارروائی کی حمایت کریں اگر ایوان نمائندگان نیں ڈیموکریٹس ان کے اعلان کو مسترد کرنے کیلئے قرارداد منظور کرتے ہیں کہ ہنگامی صورتحال موجود ہے۔

تاہم 1983 سے سپریم کورٹ کا فیصلہ،جس کا مطلب ہے کہ عملی طور پر کانگریس اس کی نامنظوری کے اظہار کے مقابلے میں کہیں زیادہ کام کرسکتی ہے۔

فیصلے کو نیشنل ایمرجنسی ایکٹ کو قانونی طور پر مؤثر ہونے کیلئے صدر کی جانب سے دستخط کی گئی کسی قرارداد یا کانگریس میں واضح اکثریت کے ساتھ منظور کی گئی قرارداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

صدر ٹرمپ کا اپنے اعلان کو مسترد کرنے کا امکان نہیں ہے، اور ان کے ایوان یا سینیٹ دونوں میں ریپبلکنز کی ویٹ پروف واضح اکثریت سے بچنے کے کافی امکانات ہیں۔

عدالتیں کیا کریں گی؟

مقدمہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہنگامی صورتحال کی مدد طلب کرکے دیوار کی جانب فنڈز کو دو بارہ مختص کرنے کی کوشش کو روک یا سست کرسکتا ہے،یا جانچ پڑتال کرسکتا ہے کہ سرحدی دیوار ایک عسکری منصوبے کے طور پر شمار ہوتی ہے جسے مسلح افواج کو ضرورت ہے۔

امریکی میکسیکو سرحد کے ساتھ پراپرٹی مالکان جن کی زمین پر دیوار تعمیر کی جائے گی، کا سب سے زیادہ امکان ہے کہ یہ افراد مقدمہ درج کرنے کے لئے کھڑے ہوسکتے ہیں۔

چیلنج کو سب سے نمایاں رکاوٹ کا سامنا ہوسکتا ہے کہ اپنے فیصلوں کے ساتھ ججز کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے عزم کا متبادل ہوں گے۔

ساؤتھ ٹیکساس کالج آف لاء ہیسوٹن میں قانون کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جوش بلیک مین نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آیا عدالت یہ کہے گی کہ صدر کے پاس ایمرجنسی کے اعلان کیلئے مطلوبہ حقائق نہیں ہیں۔

مسٹر چینسی نے کہا کہ معمول کی صدارت میں صدر کو اس طڑھ کی بحچ میں جیتنے کا یقین ہوتا ہے۔لیکن یہ معمول کی صدارت نہیں ہے۔

جج کی جانب سے کسی بھی حکم امتناہی پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لا محالہ اپیل کی جائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی سفری پابندی کی صورت میں، زیریں عدالت ان کے نفاذ کو روک دیا لیکن قدامت پسند اکثریتی سپریم کورٹ نے بتدریج نظرثانی شدہ ورژن کو نظریاتی سطور کے ساتھ تقسیم شدہ ووٹ میں اجازت دی۔ 

تازہ ترین