• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری عالم گیر جنگ کے بعد تقریباً پون صدی کے عرصے میں دنیا کی کئی محکوم قومیں سامراجی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہوئیں جبکہ کئی طاقتور فسطائی قوتوں کے غاصبانہ تسلط سے نجات کے لئے جدوجہد کرنے والی قوموں کو اقوام متحدہ کے طفیل یا باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا موقع ملا مگر یہ عالمی ضمیر کی مجرمانہ بے حسی اور تاریخ کی سنگین ستم ظریفی ہے کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے، سلامتی کونسل کی غیر مبہم قراردادوں، تقسیمِ ہند کے واضح فارمولے اور لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے کے باوجود ریاست جموں و کشمیر کے دو تہائی حصے پر بھارتی استبداد کا جابرانہ قبضہ آج بھی برقرار ہے اور مقبوضہ علاقے کے مظلوم عوام آج بھی اپنی آزادی کے لئے دار و رسن کی آزمائشوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پلوامہ کا واقعہ اسی کا ردعمل ہے جسے بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دینے کے لئے استعمال کیا مگر وزیراعظم عمران خان نے یہ پیشکش کرکے اس کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ بھارت پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت پیش کرے، ہم ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ثبوت تو اس کے پاس کوئی نہیں تھا اس لئے بھارتی وزیراعظم مودی نے دسمبر 2015ء میں عمران خان سے ایک ملاقات کا حوالہ دے کر بات بدلنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے ایک بیان میں واضح کیا کہ اس ملاقات میں اتفاق ہوا تھا کہ پاکستان اور بھارت کا اصل مسئلہ غربت اور جہالت کا خاتمہ ہے جن کے خلاف لڑنا چاہئے اور کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کو امن کی کوششیں سبوتاژ نہیں کرنے دینا چاہئے لیکن افسوس کہ بھارت میں انتخابات کے باعث امن کو پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے مودی سے کہا کہ میں آج بھی اپنے الفاظ پر قائم ہوں لہٰذا امن کو ایک موقع اور دینا چاہئے۔ پاک بھارت بڑھتی ہوئی کشیدگی پر دنیا کے کئی ملکوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں ملکو ں میں مذاکرات پر زور دیا ہے مگر بھارت عقلِ سلیم سے کام لینے کے بجائے جنگ کی طرف جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس نے بڑی کارروائی کے لئے دس ہزار فوج مزید بھیج دی ہے۔ ریاستی ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں اور خوراک کا ذخیرہ کرنے کا حکم دیا ہے جس سے اس کے جارحانہ عزائم کا پتا چلتا ہے۔ مقبوضہ ریاست کے عوام خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ سرچ آپریشن کے نام پر ان کی جائیدادوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ گھر، دکانیں اور گاڑیاں جلائی جا رہی ہیں۔ حریت رہنماؤں اور کارکنوں کو بے دریغ گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے۔ ان ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف بھارت نواز کشمیری لیڈر بھی چیخ اٹھے ہیں۔ سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹاک شو میں کہا بھارت کو کشمیری نہیں کشمیر چاہئے لیکن آپ لوگوں کو قید کر سکتے ہیں، ان کے نظریے کو نہیں۔ اینکر پرسن نے پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے چپ کرا دیا کہ بھارت کے پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے دعوے جھوٹے ہیں۔ امریکہ، روس، چین اور سعودی عرب سب پاکستان کے ساتھ ہیں۔ جنگ ہوئی تو زیادہ نقصان بھارت کا ہو گا۔ ایک اور سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے ایک انٹرویو میں کہا مسئلہ کشمیر پاکستان سے مذاکرات کے بغیر حل نہیں ہو گا، پنڈٹ نہرو نے سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ استصواب کے ذریعے حل کرنے کی دھائی دی تھی اور مسئلے کا صحیح حل بھی یہی ہے، اس لئے بھارت پاکستان سے مذاکرات کرے۔ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بھی کشمیریوں پر ظلم روکنے اور پاکستان سے مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں سب کی یہی سوچ ہے۔ پاکستان کے ایما پر اسلامی ملکوں کی تنظیم کا اجلاس بھی موجودہ صورت حال پر بلا لیا گیا ہے۔ عالمی برادری کی اکثریت کشمیریوں سے ہمدردی رکھتی ہے مگر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کرایا جا رہا۔ نجانے عالمی ضمیر کب جاگے گا اور انڈونیشیا اور سوڈان میں غیر مسلم اکثریت کے علاقوں کو آزادی دلانے والے جموں و کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کو کب حق خود ارادیت دلائیں گے۔

تازہ ترین