• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موضوعات بہت سے ہوں اور گرما گرم بھی ہوں تو ان میں سے انتخاب قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ موضوع کی اہمیت آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے لیکن دل کسی اور موضوع کی طرف مائل ہوتا ہے، پھر کالم بیچارا گیارہ بارہ سو سے زیادہ الفاظ کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اختصار سے کام لینا ایک فن ہے لیکن کبھی کبھی اختصار کا مطلب موضوع کی مرغی حرام کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً موجودہ سیاسی تناظر میں گرما گرم موضوع پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بھڑکتی ہوئی آگ ہے، جس کے شعلے جنگ میں بھی بدل سکتے ہیں لیکن میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ان شاءاللہ ایسا نہیں ہو گا۔ اس موضوع پر سینکڑوں کالم اور لاکھوں ٹی وی تبصرے روشنی ڈال چکے ہیں، اس لئے پرانی باتوں کو دہرانے کا کیا فائدہ؟ البتہ میں اس بات سے بالکل متفق نہیں کہ ہم نے ہندوستانی میڈیا، حکمت عملی اور جنگجؤیانہ عزائم کو شکست دے دی ہے۔ تساہل کا شکار نہ ہوں، وزیر خارجہ رابطوں کی مہم جاری رکھے اور بین الاقوامی سطح پر اپنا نقطۂ نظر پرُاثر انداز سے واضح کرے، جو اب تک نہیں ہو سکا۔ غیر ملکی میڈیا نمائندوں کو ثبوتوں کے ساتھ قائل کریں کہ اس حملے میں پاکستان ملوث نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کا شکار پاکستان ایسے عزائم رکھتا ہے۔ میرا تو جی چاہتا ہے کہ خود وزیر اعظم عمران خان دو تین امریکی برطانوی، یورپی چینلز کو انٹرویو دیں، اُن ممالک کے اخبارات کو انٹرویو دیں اور کسی الطاف گوہر سے نہایت مدلل مضمون لکھوا کر ایوب خان کی مانند امریکی اور برطانوی بڑے اخبارات کو بھجوائیں کیونکہ میرے مشاہدے کے مطابق ان کے لئے بین الاقوامی میڈیا میں ایک نرم گوشہ محسوس کیا جا سکتا ہے، جس کا فائدہ پاکستان کو ملنا چاہئے۔ عالمی رائے عامہ بنانے میں امریکی، برطانوی، فرانسیسی اخبارات اور برقی میڈیا کا اہم کردار ہے۔ ایکسٹرنل پبلسٹی کے بھارتی محکمے دن رات کام کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک اور دہشت گردی برآمد کرنے والی ریاست کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ عمران خان پاکستان کا عالمی امیج بہتر بنانے اور پاکستانی پاسپورٹ کی عزت و تکریم بڑھانے کے وعدے کرتے رہے ہیں۔ اس سے قبل حکومتوںپر بھی الزامات تھے اور بین الاقوامی سطح پر شکوک و شبہات بھی، چنانچہ ان کی آواز میں وہ تاثیر نہیں تھی جو عمران خان کی آواز میں ہے۔ اندرون ملک عمران خان کے وعدوں اور خوابوں پر جھوٹ کا الزام لگا کر انہیں مسترد کیا جا رہا ہے، اس کی سیاسی مصلحتوں اور کمپرومائزز کو منافقت کا نام دیا جا رہا ہے، احتساب کی خواہشات پر انتقام کا غلاف چڑھایا جا رہا ہے اور اس کے ریاست مدینہ کے خواب کا ’’مخول‘‘ اڑایا جا رہا ہے، لیکن میں اپنے ذاتی مطالعےو مشاہدے کی بنا پر محسوس کرتا ہوں کہ ابھی تک عمران خان کی بین الاقوامی ساکھ قائم ہے، بیرونی قوتیں اس پر اعتماد و اعتبار کرنے پر مائل ہیں، اس لئے اس کی آواز سنی جائے گی اور اس کے لفظوں کو سچ کا فائدہ دیا جائے گا۔ باعث حیرت سہی مگر یقین رکھیے کہ یہ اس لئے نہیں کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ہے بلکہ یہ صورتحال عمران کے اپنے عالمی امیج کا ثمر ہے۔ میں جن بیرونی اخبارات پر نگاہ ڈالتا ہوں، ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ’’فی الحال‘‘ عمران خان کا عالمی امیج مودی سے بہت بہتر ہے۔ اسی امیج نے امریکہ کو بھی دھمکی آمیز بیانات سے روک رکھا ہے، ورنہ پلوامہ حملے کے بعد ٹرمپ نے اب تک پاکستان پر دو چارلفظی فائر کر دینا تھے۔ ہاں اس میں پاکستان کے اس کنٹری بیوشن اور کردار کا بھی بہت سارا حصہ ہے جو اس نے امریکہ کو طالبان کے ساتھ گفتگو اور سمجھوتے کی میز پر لانے اور بٹھانے کے لئے ادا کیا۔ واشنگٹن تھنک ٹینک کے اہم رکن کے بقول ٹرمپ کو عمران کی نیک نیتی اچھی لگی ورنہ اس سے قبل امریکہ کسی صورت بھی پاکستان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔ امریکی پالیسی سازوں کی یہ رائے پختہ ہو چکی تھی کہ پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا اور امریکہ کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ لگتا ہے اب یہ زخم بھرنے لگے ہیں اور اعتماد کی فضا ابھرنے لگی ہے۔ حاکم و محکوم کے رشتے کے بندھن بھی کمزور ہوئے ہیں۔ اس موافق صورتحال سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کا امیج بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور پلوامہ حملے سے دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے لئے حکمت عملی وقت کا تقاضا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود محنت کر رہے ہیں، دوست ممالک سے رابطے کر رہے ہیں اور بین الاقوامی فورمز بشمول اقوام متحدہ اور او آئی سی کو متحرک کرنے کی سعی کر رہے ہیں لیکن مجھے بین الاقوامی میڈیا کا خانہ تقریباً خالی لگتا ہے جبکہ یہی میڈیا عالمی رائے عامہ ڈھالتا اور حکومتوں پر دبائو ڈالتا ہے۔ اب تک حکومتی مشینری کا زور پاکستان کی داخلی رائے عامہ کو یہ فریب دینے پر ہے کہ گویا ہم نے ہندوستانی حکومت کے عزائم کو شکست دے دی ہے۔ اس حوالے سے ان چند آوازوں کو مبالغہ آمیز انداز سے پیش کیا جا رہا ہے جو ہندوستانی میڈیا میں مودی کے خلاف بلند ہوئی ہیں لیکن اگر آپ ہندوستانی ٹی وی چینلز سنیں، ان پر سوار تجزیہ کاروں کے نہ صرف نفرت سے بھرپور تبصروں پر غور کریں بلکہ ان کے عزائم کو بھی سمجھیں اور پھر ہندوستان کے عمومی قومی رویے پر نگاہ ڈالیں تو اس فریب کا دامن چاک چاک ہو جاتا ہے، جس میں ہم مبتلا ہو رہے ہیں۔ مجھے تو یہ آرزو بھی محض فریب لگتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور قیادتیں متحد ہوں اور پارلیمنٹ کو نفرتوں اور تفریق کا پلیٹ فارم بنا کر اس کے وقار کو ملیا میٹ کرنےکے بجائے اسے باوقار قومی ادارہ بنائیں۔ حکومت احتساب کی دلدل میں پھنس گئی ہے اور نیب کی قابل رحم کارکردگی نے حکومت کو گردن تک اس دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ خوف کی ماری اپوزیشن سات ماہ پرانی حکومت کو دھکا دینے کے لئے بے چین ہے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن، نوابزادہ نصر اللہ خان نہیں ہو سکتے، باہمی نفرت اور تفریق کی پھیلتی خلیج کے پیش نظر قومی اتحاد کی آرزو بھی فریب ہی لگتی ہے۔ قومی تفرقات کو قومی اتحاد میں بدلنے کے لئے ایک قدر آور سیاستدان اور قائد اعظم کی ضرورت ہے جس سے ہمارا سیاسی میدان خالی ہے۔ سیاست ناسمجھ اور بگڑے بچوں کا کھیل بن چکی ہے۔ دیدہ بینا فریب میں مبتلا نہیں ہوتی، اللہ اللہ خیر سلا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین