• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے شاید اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی بھی شخص کو مذہبی حلئے میں ہو، اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا ہے لیکن دیوالیہ پن کا شکار ہماری سیاست ہمیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ اب ملاّ اور مولوی اچھے لگنے لگے ہیں۔ انقلابات ہیں زمانے کے! مصنف ہوریس والپول کا کہنا ہے ․․․” انگلستان ایک اچھا ملک ہے اور میں اسے پسند کرتا اگر اس میں انگریز نہ ہوتے۔“پسند کے اسی پیمانے کے مطابق میں بھی پاکستانی جمہوریت کو پسند کرتا اگراس میں اتنے ”رستم زماں “ نہ ہوتے۔ آج پاکستانی جمہوریت کے خدوخال سوائے اس کے اور کیا ہیں کہ ایک طرف نواب شاہ کا ”نواب “ ہے تو دوسری طرف رائے ونڈ کا ” راجہ “ ہے۔ جہاں تک ملک کو درپیش خطرات کا تعلق ہے تو ہمارا سب سے بڑا خطرہ ، یا دشمن بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے ․․․ اور یہ دہشت گردی ہے جس کے بارے میں ہر طلوع ہوتے ہوئے سورج کے ساتھ ہم مزید تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت کے دونوں پیرائے… نواب شاہی اور رائے ونڈی․․․ اس سے نمٹنے کے لئے ایک جیسی پالیسی ہی رکھتے ہیں جو کہ دیکھو اور انتظار کروکے سوا کچھ اور نہیں۔ جمہوریت کے ان مسند نشینوں کے بعد ان کے ہونہار سجادہ نشین بھی ”خلافت “ کے لئے تیار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جمہوریت سے آنے والی تبدیلی کا راستہ ہماری طرز ِ جمہور نے ہی روک رکھا ہے۔ جہاں تک فوجی مسیحاؤں کا تعلق ہے تو ان سے قوم نے گزشتہ ساٹھ برسوں سے کافی علاج کروایا ہے لیکن مرض بڑھتا گیا ․․․۔ تاہم خدا کے لئے یہ تو بتائیں کہ ہمارے لئے کیا یہی انتخاب رہ گیا ہے کہ ہم لے دے کے ان دونوں ․․․ اگرتیسرے کا موڈ نہ ہو․․․ میں سے کسی ایک کی اطاعت کر یں ؟اب صورت ِ حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اگر پانچ سال کے لئے موجودہ سیاست دان ، کسی بھی جماعت سے، دوبارہ واپس آجاتے ہیں تو کوئی بھی سانحہ دل خوش کن ہوگا۔
پہلی جنگ ِ عظیم چار سال جبکہ دوسری چھ سال تک جاری رہی تھی۔ ان چھے سالوں میں پرانے نظام کی کا یا پلٹ گئی اور گزرنے والی قیامت نے اس کا ڈھانچہ منہدم کرکے ایک نیا نظام متعارف کرادیا جبکہ پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کیا کچھ حاصل کیا گیا ہے ؟ ان پانچ سالوں کے دوران وطن تعمیر ِ نو کے عمل سے گزر سکتا تھا ، پنجاب اپنی ترقی اور جدت پسندی سے دوسرے صوبوں کے لئے مثال بن سکتا تھا ، لیکن یہ پانچ سال بے کار گزر گئے اور اگر عوام کے پیٹ قانونی ترامیم سے بھرے جا سکتے ہیں تو پھر ہم نے اٹھارویں اور انیسویں ترامیم کی ہیں․․․ اس کے علاوہ اپنے دفتر میں کوئی عمل نہیں ہے جسے عوام کے محشر کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ تاہم ہمارے پاس وہی گھسا پٹا محاورہ ہے جس کی گردان ہم ہر اچھے برے وقت میں بے تکان کرتے رہتے ہیں کہ ہم نے جمہوریت کا تسلسل یقینی بنایا ہے اور جمہوریت تمام مسائل حل کر دے گی۔ چونکہ خوش فہمی کے سمندر میں غوطہ زن رہنا خلاف ِ فطرت ہو تو ہو، خلاف ِ قانون نہیں ہے، اس لئے اگرچہ ہمارے سامنے وہی سیاست دان ہیں جو کبھی تھے ․․․ ایک نے کوئی تیس سال پہلے سیاست میں قدم رکھا اور دوسرے، جس نے کسی قدیم زمانے میں دس فیصد سے سیاست شروع کی تھی، کی سیاسی عمر آج بیشتر نوجوانوں کی طبعی عمروں سے فزوں تر ہے ، گھوم پھر کر سیاسی اکھاڑے میں آجاتے ہیں ․․․ اور ہم خوش ہیں کہ جمہوری عمل کا تسلسل ہو رہا ہے۔ اس پر مستزاد، ہم نے ان سے انقلابی تبدیلیوں کی امیدیں بھی لگا رکھی ہیں۔ اب اکتاہٹ اس قدر ہے کہ اس دہرائے جانے والے ڈرامے سے کچھ بھی بہتر لگتا ہے۔ میں اس بات کو، جو چینیوں کے لئے ان کے رہنما کی طرف سے طبل ِ جنگ تھی، ہزار مرتبہ دہرا چکا ہوں مگرکیا کریں ہمارے ہاں موجود صورت ِ حال ہمیشہ سے اس کے لئے برمحل رہی ہے ۔ چینی رہنما کا کہنا ہے․․․ ” بدنظمی اور افراتفری کا دور دورہ ہے، چنانچہ تبدیلی کے لئے اچھا موقع ہے۔“ کچھ دن تک صورت ِ حال ایسی تھی کہ گھٹن اتنی زیادہ تھی کہ تبدیلی کا ایک سانس بھی لینا محال تھا اور جمہوریت کے نام پر نصب شدہ بھاری پتھر سرکتے نظر نہیں آتے تھے ، لیکن شاید آسمانی طاقتوں کو ہمارے حال پر رحم آگیا ہے اور ایک غیر متوقع سمت سے آنے والی صدا نے خاموشی کو چیلنج کردیا ہے۔ ابھی فی الحال اس بات کو فراموش کردیں کہ چیلنج کرنے والے کے داؤ پیچ کیا ہیں اور وہ کن امکانات کی نوید سنارہا ہے، صرف یہ بات دیکھیں موسم میں ہلکے سے تغیر کے ساتھ ہی جمہوریت کی کشتی کے دائمی ناخدا سراسیمگی کا شکار ہوگئے ہیں۔ یہ سب حیران کن نہیں ہے کہ ایک شخص کی آمد نے ہوش اُڑا دیے ہیں کیونکہ ان سے توایک معمولی سا مسئلہ، جیسا کہ یوٹیوب کو کھولنا، بھی طے نہیں ہو سکا ہے۔اس لئے ان کے لئے ہوا کا جھونکا بھی سونامی سا ہے۔ ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ دھوکے باز طالبان کے ساتھ بات کیسے کرنی ہے۔ کیا ان سے قوم نے انقلابی تبدیلیوں کی امیدیں لگائی ہوئی ہیں؟ نیا سال 2013 آچکا ہے․․․ اس میں موجود 13 کا عدد بعض لوگوں کے نزدیک منحوس ہوتا ہے․․․ لیکن ہو سکتا ہے کہ اس بدقسمت ترین ریاست کی قسمت میں مزید ستم نہ ہوں اور یہ سال اس کے لئے سعد ثابت ہو۔ تاہم اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آسمانی طاقتیں ہماری یاوری کتنی اور کس حد تک کرتی ہیں۔ کیا محترم ڈاکٹر طاہر القادری اپنا ” مجوزہ “ مہماتی مارچ کر سکیں گے اور کیا اس سے کوئی تبدیلی کی ہوا چل نکلے گی ؟کیا اُن کے پیروکار منجمد کردینے والی سردی میں شاہرائے دستور کو نعروں سے گرما سکیں گے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے پاس تنظیمی صلاحیت بھی ہے جس کا مظاہرہ ہم سب دیکھ چکے ہیں․․․ اور یہ میں نے چکوال میں بھی دیکھا کہ کس طرح وہ عوام کو متحرک کرنے کے لئے پمفلٹ تقسیم کررہے ہیں، ٹرانسپورٹ کا انتظام کررہے ہیں اور فنڈ وغیرہ اکٹھے کررہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ فوجی جوانوں کی طرح خشک راشن لے کر اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ اگر خاطر خواہ ہجوم اکٹھا ہوگیا تو پھر․․․ جیسا کہ جولیس سیزر میں شاعر کہتا ہے کہ ہنگام ِ وقت کوئی ہنگامہ بھی بپا کر سکتا ہے۔
شکست ِ آرزو، فکری انحطاط اور پژ مردگی کے65 سالوں کے بعد آج ہمارے قدم خستہ حال مسافروں کی طرح گرد آلود ہیں، تاہم ہم میں سے رجائیت پسندوں کو ابھی یقین ہے کہ ․․․”ہزار ہا شجر ِ سایہ دار راہ میں ہیں“․․․ اور ہم راکھ سے نئی سلطنت تعمیر کر سکتے ہیں۔ ایک بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ پاکستان انڈیا نہیں ہے، یہ انڈیا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ہمارے حالات مختلف ہیں۔ ہماری قسمت ان کے ستاروں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارا مقدر بھی ہمارا اپنا ہو گا اور اس کے لئے برِ صغیر کی تاریخ سے سبق نہیں لیا جا سکتا ہے۔ ہمارا اپنا سفر ہے، ہمارا اپنا راستہ ہے، اپنا عمل ہے اور اس کا نتیجہ جنت بھی ہو سکتا ہے اور جہنم بھی۔
اس نازک موڑ پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے قومی نظریے کے محافظوں کے کیا ارادے ہیں ؟ان کی نگاہ کرم کے بغیر قادری صاحب کی اسلام آباد آمد ، رفت کے مترادف ہی ہو گی کیونکہ اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستانی لانگ مارچ چینی لانگ مارچ نہیں ہوتے ہیں۔ اس غلط فہمی میں کسی کو نہیں رہنا چاہیے کہ” مارچ “سے موسم تبدیل ہو جاتا ہے ، اس کے لئے مقتدر طاقتوں کی رضامندی ضروری ہے۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کا سبق سب کو یاد ہو گا ۔ اس لئے قادری صاحب اکیلے تو اس سرد خرابات کو نہیں گرما سکتے، ہاں ”درپردہ چشم ِ یار کی شہ “ ہو تو اور بات ہے۔ چنانچہ دوبارہ وہی سوال ، کہ دفاعی اداروں کی نیت کیا ہے؟ویسے مکمل ”حال“ تو اوپر والا ہی جانتا ہے لیکن ماضی تو ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ یہ حقیقت سب پر منکشف ہے کہ اس وقت فوج دنیا کے دشوار ترین علاقوں میں ایک مشکل جنگ لڑ رہی ہے اور میدان ِ کارزار میں وہ اکیلی ہی ہے۔ اُسے حکومت یا عوام کی بھرپور حمایت حاصل نہیں ہے۔ دوسری طرف قومی رہنما بھی ابہام کا شکار ہیں ۔ ان سے تو یوٹیوب بھی نہیں کھلی (دوہرانے پر معذرت ) چنانچہ یہ طالبان کے ساتھ نمٹنے جیسا دشوار کام کیسے کر سکتے ہیں؟ہماری سراسیمگی ملاحظہ فرمائیں کہ ایک نہایت سفاک دشمن ہم پر حملہ آور ہے اور ہم ” پس چہ باید کرد “ کی عملی مثال بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس سیاسی طبقہ تو ہے لیکن قیادت ناپید ہے۔ اسی سے وابستہ ایک اور سوال ہے کہ کیا اس مسئلے کی وجہ سے قادری صاحب کی پشت پناہی کرنے والے انتخابات ملتوی کروا کے طویل عرصے کیلئے وسط مدتی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں؟فی الحال اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی حمایت نہ ہو لیکن حالات دیکھتے ہوئے عین موقع پر مطلوبہ حمایت کردی جائے، یا پھر اب حمایت کا وعدہ ہو لیکن عین وقت پر آنکھیں پھیر لی جائیں؟ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آج شاید وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ہاں پائے جانے والے جمہوری معروضات پر غور کرلیں۔ کبھی یہ بھی کہا گیا تھا کہ مسلسل انتخابات کرانے سے مسائل حل ہو جائیں گے، کم از کم 1970 سے پہلے تک یہ بات درست تھی۔ ا س کے بعد ضیا کا دور آیا تو ہم نے کہا کہ اگر آمریت ختم ہو گئی تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔ اسکے بعد ہم نے 90 کی دھائی میں جمہوریت کا بھاری بوجھ بھی اٹھا لیا۔ اس جمہوریت نے سوائے بدعنوانی، قرضے معاف کرانے اور بعض جنرلوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے سیاست دانوں کے علاوہ ہمیں کچھ نہ دیا۔ اسی غفلت کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ یاد ہو گا کہ اکتوبر 99 ء میں جنرل مشرف کو برطرف کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ اُسے چند ماہ پہلے، اپریل یا مئی میں کارگل حماقت پر نکالا جانا چاہیے تھا۔ اب شاید ہم ایک مرتبہ پھر امید لگائے ہوئے ہیں کہ جب وقت کا پہیہ چلے گا تو ملک نئے حسن ِ انتظام سے جگمگا اٹھے گا ، حالانکہ معمولی مسائل ، جیسا کہ سڑک پر ٹریفک کنٹرول کرنے یا پلاسٹک بیگ، جن کو ”کیمیائی طالبان“ کہا جا سکتا ہے، پر پابندی لگانے کے بھی اہل نہیں ہیں۔ تاہم جنوری میں کچھ نہ کچھ ہو گا․ تبدیلی یا تبدیلی کے نام پر مایوسی۔ تاہم خوشی ہے کہ اب انتظار کی گھڑیاں تمام ہونیوالی ہیں۔
تازہ ترین