• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہنستا کھیلتا اور طاقتور انسان اسپتال کے بیڈ پر پوری طرح بے بس اور آلات جراحی میں جکڑا ہوا پڑا تھا۔ اس کے منہ پر آکسیجن ماسک لگایا گیا تھا، ایک ہاتھ سے خون چڑھایا جارہا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے ڈرپ کے ذریعے اُس میں زندگی داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، لیکن وہ بالکل بے جان پڑا تھا۔ بے ہوشی کے عالم میں ہلکی سی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جو بالکل بے جان تھیں۔ اسپتال کے اس کمرے میں اس کے اہل خانہ تلاوت کلام پاک اور دعائوں میں مصروف تھے۔ ہر آنکھ اشکبار اور ہر چہرہ پریشان تھا، عمران محمود صرف تریپن برس کی عمر میں دنیا چھوڑنے کی تیاری کر رہا تھا اور ہم سب بے بسی سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ میں روز اسپتال آتا اور دور سے ہی عمران کو دیکھ کر واپس ہوجاتا۔ آج بہت ہمت کر کے اسپتال کے اس کمرے میں داخل ہوا لیکن اپنے دوست کو اس حالت میں دیکھ کر جذبات قابو میں نہیں رکھ پارہا تھا، لرزتی زبان سے اس کے قریب جا کر کئی دفعہ میں نے کہا عمران بھائی آنکھیں کھولیں، آپ ٹھیک ہو جائیں گے، میری ڈاکٹر صاحب سے بات ہوئی ہے میری طرف دیکھیں اور پھر میں نے دیکھا عمران محمود کی بے جان آنکھوں سے آنسووں کے چند قطرے بہہ کر اس کے رخسار پر گرے۔ شاید میری آواز اس تک پہنچ رہی تھی، آنسووں کے یہ چند قطرے میرے لئے جواب تھا کہ اس تک میری آواز پہنچ رہی ہے۔ کمرے میں موجود مجھ سمیت کئی لوگ یہ منظر دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے لیکن یہ آخری آنسو تھے جنھوں نے عمران محمود کی زندگی کا ثبوت دیا تھا، میں اسپتال کے کمرے میں موجود ایک کرسی پر بیٹھا تھا اور عمران محمود کی زندگی کے کئی مناظر میرے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہے تھے، وہ گزشتہ چند ماہ سے جگر کے مرض میں مبتلا تھا اور علاج بھی چل رہا تھا۔ اسی دوران اس کی اہلیہ کو کینسر کی بیماری تشخیص ہوئی جو پہلے ہی اسٹیج پر تھی عمران نے اپنا علاج چھوڑ کر پوری دلجمعی سے اپنی اہلیہ کے علاج پر توجہ دی اور بھرپور علاج اور کئی دفعہ کی کیمو تھراپی کے سبب اس کی اہلیہ تو کینسر کی بیماری سے صحت یاب ہو گئیں لیکن عمران کے جگر کی بیماری آخری اسٹیج پر پہنچ گئی اور وہ اب اپنی زندگی کے آخری دن گن رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا لیکن اس کے اہل خانہ اور دوست جن کے لئے عمران نے اپنی زندگی وقف کر دی تھی وہ اس کی زندگی بچانا چاہتے تھے، اس نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی، کئی بھائی بہنوں میں صرف وہی تھا جو اپنی محنت سے غربت سے نکل کر مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرسکا تھا اس کی پہلی شادی ناکام ہوئی تو اس نے اپنی زندگی اپنے بھائی بہنوں اور بھانجے بھتیجوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لئے وقف کردی، وہ اہل خانہ اور دوستوں پر جان نچھاور کرنے والا انسان تھا، ایک طویل عرصے بعد جب بھائی بہن اور ان کے بچے اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے تو گھر والوں کے اصرار پر سات آٹھ برس قبل اس نے دوسری شادی کی جس میں شہر کی تمام بڑی سیاسی، سماجی شخصیات شریک تھیں، اس کے شہر کی ہر سیاسی جماعت سے اس قدر قریبی تعلقات تھے کہ وہ اس جماعت کااہم رکن سمجھا جاتا تھا لیکن وہ کسی جماعت میں بھی شامل نہ تھا، دوستی نبھانا اس نے لوگوں کو سکھایا تھا۔ کراچی کے علاقے لیاقت آباد کےسابق ناظم جب ٹارگٹ کلرز کے نشانے پر تھے تو انھوں نے اپنی روپوشی کا ایک سال عمران محمود کے گھر پر کاٹا اور جب وہ یہاں سے نکلے تو ٹارگٹ کلرز کا نشانہ بنے، کراچی پولیس کے سابق چیف جب کینیا میں ٹریننگ کے دوران شدید بیمار ہو کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوئے تو اگلے ہی روز عمران محمود پولیس چیف کے اہل خانہ کو لیکر اپنی تمام جمع پونجی کے ساتھ کینیا پہنچے اور اپنے دوست کے صحت مند ہونے اور کراچی واپس آنے تک ان کے ساتھ رہے یہی وجہ تھی عمران محمود کےدوست نے اسپتال میں اس کے اہل خانہ اور ڈاکٹروں کو واضح طور پر آگاہ کردیا تھا کہ عمران کے علاج کے تمام اخراجات ان کے ذمہ ہیں اور جب تک ایک فیصد بھی زندگی اس کے جسم میں باقی ہے ڈاکٹروں نےاس کی صحت یابی کے لئے کوششیں جاری رکھیں، یہ اہم سرکاری شخصیت پچھلے ایک ہفتے سے اسپتال میں موجود تھی بلکہ دوستی کا صحیح حق بھی نبھایا ، عمران محمود نے وسیم نامی نوعمر بچے کو مشکل حالات میں اپنے ساتھ رکھا، پڑھایا، لکھایا اپنے ساتھ کاروبار میں لگایا اور پھر اسے زندگی میں آگے بڑھانے کے لئےایک مکان بھی خرید کردیا تاکہ اس کی زندگی آسانی سے گزرتی رہے وہ جوان بھی ایسا کہ عمران محمود کی بیماری کے دنوں میں معاشی تنگی کے پیش نظر چالیس لاکھ کا مکان بائیس لاکھ میں فروخت کرکے تمام رقم اپنے محسن کے علاج اور دیگر اخراجات کے لئے وقف کردی ،عمران محمود ہمیشہ پیسہ جمع کرنے کے مخالف رہے وہ کماتے بھی بہت تھے اور خرچ بھی بہت کرتے تھے، دوستوں کی بیٹیوں کی شادی ہوتو بچی کے پورے جہیز کا ذمہ اٹھالیا کرتے تھے، کئی مواقع پر گاڑیاں بھی بطور تحفہ دیں، معاشی حالات مشکل ہوتے تو بسوں پر سفر کرتے نظر آتے، مشکل وقت بھی انتہائی خندہ پیشانی سے جھیل جاتے، مجھ سے بھی بہت محبت کرتے تھے ہمیشہ حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے اور نقصان اٹھانے کے باوجود سچ کا ساتھ دینے کی تلقین کرتے، بکریاں پالنے کے بہت شوقین تھے انھیں اپنے ہاتھ سے چارہ کھلاتے ،بکریوں کا انہوں نے ایک بڑا ہجوم جمع کر لیا تھا، میں اپنی سوچوں میں ہی گم تھا کہ کمرے میں زاروقطار رونے کی آوازوں سے میں واپس حقیقت کی دنیا میں واپس آ گیا،شاید ڈاکٹروں نے عمران محمود کے اس دنیا سے رخصت ہونے کا اعلان کردیا تھا، کئی دنوں سے وینٹی لیٹر پر عمران محمود آج اپنی زندگی کے آخری آنسو ہمارے نام کرکے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے ۔تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت اور تمام لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا فرمائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین