• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت کے دعویدار دراصل جبر کے علمبردارہیں۔ وہ اپنے حق میں ووٹ کے لئے قومی خزانے کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ پانچ برس جو نوکری کوترستے رہے انہیں اب صرف ووٹ ہتھیانے کیلئے نوکری دینا جبر نہیں تو کیاہے۔ وزیراعظم اور ڈپٹی وزیراعظم کے صوابدیدی اخراجات میں اضافہ وطن بیچ کر اقتدار خریدنے کے مترادف ہے۔ عدلیہ اس ناکردنی کا نوٹس لے ورنہ اس چڑیاگھرمیں خونخوار درندے پھر سے داخل ہو کراپنے اوپر بھاری ٹکٹ لگا دیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر یہ ووٹ کے بدلے نوکری کے جمہوریت کش حملے کو کیسے روکیں گے؟ اس سلسلے میں مقتدر قومی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خود ان افراد کو بھی ا س ہتھکنڈے کو ناکام بنا کر اپنی بھلائی کے لئے قربانی دیناہوگی۔ یہ نوکری میں لپٹے ہوئے ووٹ جلد ہی نوکری سے نکل کر صرف ایساووٹ بن جائیں گے جو پھر سے ظلم کا، محرومی کا بازار گرم کرنے والوں کے کام آئیں گے۔ قوم دیکھ سکتی ہے کہ نئی تازہ ہوا بہار کی بھی چل نکلی ہے۔ جس سے ان کے دل کی کلی کھل سکتی ہے۔ 65برس دھوکے کے سمندرمیں ڈوبنے والے اب ساحل کا انتخاب کریں ۔ کیونکہ یہ لٹیرے عیاش ان کا حال کیا جانیں جن کی کشتی بھنور میں ہے
شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابے چنین ہائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا
(کالی سیاہ رات ہے، موجوں کا ڈر ہے اور خوفناک بھنورہے، ساحلوں پرعیش و نشاط کی زندگی بسر کرنے والے ہمارا حال کیا جانیں)
طبقہ ٴ امرا اورحکمرانان پر جب بپتا پڑتی ہے تو ان کو وہ غریب بہت یاد آتے ہیں اوروہ خود کو ان کا غلام کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اب یہ عوام پر ہے کہ آئندہ انتخابات کے موقع پرکوئی ایک ووٹ کے بدلے سرے محل بھی دینے پرراضی ہوتو وہ اپنا چین و سکون، امن و خوشحالی، غیرت وحمیت کا سودا نہ ہونے دیں۔ جہاں ایک طویل زمانہ قربانی دی ہے اورظلم برداشت کیا اب موقع ہے کہ ظالم کو مزید موقع نہ دیا جائے۔
#####
نواز شریف نے یہ کہہ کر شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری کو بڑی عزت دے دی کہ وہ انتخابات میں خلل ڈالنے کے لئے اچانک نازل ہوئے۔ جب انہیں شیخ الاسلام مان لیااور یہ بھی تسلیم کرلیا کہ وہ آسمان سے نازل ہوئے تو پھراسے خلل تو نہ کہیں اور یہ کہنا کہ کھیل تماشے کی اجازت نہیں دیں گے تواس کا جواب یہی ہے کہ ”بازی بازی باریشِ بابا ہم بازی“کھیلتے کھیلتے اب بابا کی داڑھی سے بھی کھیلنے لگے ۔ اگرایک آواز اٹھی ہے اور وہ 18کروڑ آوازوں سے مختلف نہیں پھر جواباً یہ بازیچہ اطفال سجانے کا کیا فائدہ۔ میاں صاحب اس ملک کی بڑی پارٹی کے بڑے لیڈر ہیں ان کااچھا خاصا ووٹ بنک ہے۔ شیخ الاسلام ان سے کچھ چھیننے نہیںآ ئے اور نہ ہی کسی اور سے، وہ تو جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ نہ ہونے دینے کا عزم لے کر اٹھے ہیں۔ کیاوہ اب بیٹھ جائیں گے اور جس خانقاہی نظام نے جہانگیر کی عیاشیوں اور شراب نوشی کے خلاف آواز اٹھائی تھی یہ شیخ الاسلام بھی اسی گنبد ِ مینائی میں رہتے ہوئے ظلم وبربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جس میں ساری دنیا کے مکین رہتے ہیں اگر باقی سب خوش تو ہم کیوں ناخوش۔ آخر ہمارے مظلوم عوام کوبھی توایک اچھی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے جس کیلئے وہ ملکوں ملکوں مارے مارے پھرتے ہیں۔ طاہر القادری، سید عبدالقادر جیلانی  کے روحانی سلسلے کو لے کر چلے ہیں۔کیونکہ انہوں نے بھی اقتدار ِ وقت پرچیک اینڈ بیلنس رکھا ہوا تھااورنہایت جاہ وجلال والے ابو الوقت صوفی تھے۔ ان کے ایک مرید صادق و صوفی باصفا سلطان باہو نے کہا تھا
اے تن میرا پرزے پرزے جیوں درزی دیاں لیراں
انہاں لیراں دی میں گدڑی سواساں تے رلساں وچ فقیراں
شہر بغداد دے ٹکڑے منگساں تے کردی میراں میراں
بہت عرصہ پہلے بھی طاہر القادری ان کے ہاں نازل ہوئے تب توانہوں نے اسے خلل نہیں سمجھا تھا۔
#####
مسلم لیگ ق کے مشاورتی اجلاس میں ارکان جماعت نے گرما گرم تقریریں کیں اوربعض نے پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کے خلاف بھی بہت کچھ کہا۔ چارگھنٹے اجلاس تپتا رہا اورتقریروں پر تقریر یں ہوتی رہیں جب سب فارغ ہوگئے تو شجاعت حسین نے ایک لطیفہ سنا کر سب کو ہنسا دیا اور مطمئن بھی کر دیا۔ لطیفے کے متن سے مسلم لیگ ق کا منشور یامنزل مقصود واضح ہوجاتا ہے۔ چوہدری صاحب مٹی پاؤیوں بذلہ سنج ہوئے ”ایک جاٹ کی بھینس گم ہوگئی۔ وہ بیٹے کو لے کر کئی مزاروں پرگئے اورمنت مانی کہ اگر بھینس مل گئی تو اتنا نذرانہ پیش کروں گا اورہر مزار پر نذرانے کی رقم بڑھاتا گیا، بیٹے نے یہ دیکھ کرکہا ابا جی! اتنی کی تو بھینس آجاتی ہے آپ نے خواہ مخواہ ہی اتنی منتیں مان لیں۔ باپ نے کہا: بیٹا جی ایک دفعہ بھینس کے سینگ ہاتھ میں آنے دو پھردیکھوں گا کہ چندہ کدھر ہے“ قوم اس لطیفے سے اندازہ لگا سکتی ہے کہ ق لیگ ، پیپلزپارٹی کا اتحادی بن کر کس مارپر ہے۔ ق لیگ ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے تک توپہنچ گئی ہے بس ایک قدم آگے منزل ہے پھروہ دیکھ لیں گے کہ کس طرح مزار ِ عوام پرمانی ہوئی منتوں سے منہ پھیرتے اور اقتدارکی بھینس کو سینگوں سے پکڑ کر نکے چوہدری سے کہتے ہیں کہ اب بڑی سی بالٹی لاؤ اور اس کا دودھ نکالو۔ اس لطیفے میں باقی اتحادیوں اورگنبد ِ صدارت میں بند ”حضرت صاحب“ کے لئے عبرت کے کئی سامان موجود ہیں۔ چوہدریوں کی دوڑ بھینس کے سینگوں تک ہوتی ہے انہی سینگوں سے وہ مربعے بنا کر مربے کھاتے ہیں بہرحال مسلم لیگ ق کے چوہدری ہماری سیاست کا ایک نایاب آئٹم ہیں۔ ان کو سنبھال کر رکھنا چاہئے البتہ ایک لطیفہ ہم بھی ذرا لطیف پیرائے میں سناتے ہیں :
سوچ تجھ کو ہے اگر آئندہ پالیٹکس کی
لے نتائج سے مدد اور ہسٹری میں فال دیکھ
#####
جمہوریت آتی ہے، راج نہیں کرسکتی، اس کاحل ایک ہی ہے کہ جو لوگ دوسرے لوگوں کومجبورکرسکتے ہیں ان کا کچھ بندوبست کیاجائے۔ یہ بے تحاشا دولت، زمینیں، کارخانے، پلاٹ، سکیمیں، سرداریاں، وڈیرہ شاہیاں، جاگیرداریاں جب تک ہمسایہ ملک کی طرح یہاں سے صاف نہیں کی جاتیں یہاں صاف جمہوری فضا میسر نہیں آسکتی۔
اگر عوام چاہتے ہیں کہ وہ مشکلات ِزندگی سے نجات پا کر اچھے دن بھی دیکھیں تو انہیں پانی کی طرح اپنا رستہ خود بنانا ہوگا۔ بصورت ِ دیگر یہ چند لوگ 18کروڑ پیٹھوں پر سواری کرتے رہیں گے اور انہیں تیزچلنے پربھی چھانٹے مارتے رہیں گے۔ ان دنوں اچھی تگڑی آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کو اورتگڑا کر دیاجائے تو یہ ظالمانہ نظام اس ملک سے رخصت ہوسکتا ہے۔
محرم کامہینہ جاتے جاتے یہ کہہ گیا ہے کہ صفر کا مہینہ صِفر ثابت نہیں ہونا چاہئے۔ اصل حکمران عوام ہیں کہ وہی حکمران ساز ہیں مگر ہنوز ان کا سازکیوں بے آوازہے، دودھ ابل کرچولہے میں جذب ہو رہا ہے اورپھوہڑ عورت کو خبر نہیں۔ اذیت رسانی کا گراف بہت اونچا چلا گیا ہے۔ آگے موت کھڑی ہے، زندگی تعاقب میں ہے، ایسا کیوں ہے،کیامعاملہ الٹ نہیں ہوسکتا، اب ان شردھالوؤں کی مزید تعریف و توصیف کا وقت گزر گیا کہ اخلاقیات بے اثر ہوچکی ہے
خلق نکو کو سب نے خوشامد سمجھ لیا
کیا کیا مصیبتیں ہیں غریب آدمی کے ساتھ
حالت تو یہ ہے کہ ایک انتہائی غریب بے آسرا کو شادی کا شوق تھا مگر اسے کوئی بھیک دینے کو تیار نہ تھا رشتہ کیا دیتا۔ لنڈا بازارمیں سابقہ شوہر کے ظلموں کی ماری ایک خلع یافتہ خاتون اپنے لئے کوئی سویٹر تلاش کر رہی تھی کہ اس بندہ قلاش نے خود کواس خاتون پرگرا دیا۔ اس نے کہا ”اندھے ہوکیا؟“ جواب ملا ”اندھا نہیں مجبور ہوں“ نہ جانے کیوں اس خاتون کو اس پر ترس آگیا اور پوچھا ”شادی شدہ ہو “ کہا ”نہیں“ خاتون نے اس سے نکاح کرنے کو کہا، اس غریب کے تو خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول گئے اوربڑی سی ہاں کردی، اب میاں بیوی لاکھوں میں کھیلتے ہیں اورپیاربھری زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
تازہ ترین