• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چارسدہ کی تحصیل شب قدر میں حفاظتی انتظامات کے باوجود پیرکو سیشن کورٹ کے احاطے میں خودکش حملے اور دو سکیورٹی اہلکاروں سمیت 17افراد کی شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردوں نے کمرٹوٹنے، بے پناہ جانی نقصان اٹھانے اور محفوظ ٹھکانوں سے محروم ہونے کے باوجود بے گناہ انسانوں کا خون بہانے سے توبہ نہیں کی اور وہ وقفے وقفے سے ریاست کے خلاف کارروائیاں کرکے اب بھی اپنا وجود ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شب قدر کے سانحے میں 16سال کا ایک نوعمر خودکش بمبار ملوث تھا جس نے عدالت کے مرکزی گیٹ پر تلاشی لینے والے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر دی اور ایک جرأت مند سکیورٹی اہلکار کی جانب سے دبوچنے کی کوشش پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس افسوسناک واقعے میں ایک لیڈی کانسٹیبل سمیت 25افراد زخمی بھی ہوئے اور متعدد گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ دھماکے کے وقت لوگوں کی بڑی تعداد عدالت میں موجود تھی۔ پولیس حوالدار نسیم، جان کی بازی لگا کر حملہ آور پر نہ جھپٹتا اور اسے اندر جانے سے نہ روکتا تو جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا تھا۔ کالعدم تحریک طالبان کی تنظیم جماعت الاحرار نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے سانحہ شب قدر میں انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم پر متحد ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی کہا ہے کہ مسلح افواج دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کرکے دم لیں گی۔ پاکستان بار کونسل نے احاطہ عدالت میں دہشت گردی پر احتجاجی پروگرام کا اعلان کیا اور منگل کو ملک بھر میں عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں سے دہشت گردی کے خلاف 90فیصد اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں، تقریباً 22ہزار دہشتگرد گرفتار کئے جا چکے ہیں، ان کے ایک ہزار کے قریب محفوظ ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ہیں اور اب آخری مرحلے میں پاک افغان سرحدی پٹی کو شدت پسندوں سے پاک کیا جا رہا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ جہاں دہشت گردوں کی بڑی تعداد سرحدپار کرکے افغانستان جا چکی ہے وہاں کچھ عناصر اندرون ملک بھی پہنچ چکے ہیں جو اپنے سہولت کاروں کی مدد سے آسان شہری اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ملک کے اندرونی علاقوں سے شرپسندوں کا صفایا کرنے کے لئے سیاسی قیادت نے ایک متفقہ قومی ایکشن پلان کی منظوری دی تھی جس پر پوری طرح عمل ہو جاتا تو پشاور ، مردان اور شبقدر جیسے واقعات کو روکا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو جونہی موقع ملتا ہے انسانی جانوں کا خون بہانے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایکشن پلان کا سب سے اہم نکتہ دہشتگردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی مدد روکنا ہے مگر اس حقیقت کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ دہشت گردی کو تقویت دینے کیلئے غیرملکی ذرائع سے شدت پسندوں کی مالی و اسلحی امداد آج بھی جاری ہے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن اس کا سرے سے خاتمہ ہنوز ایک خواب ہے۔ فاٹا میں اصلاحات ہوئی ہیں نہ بلوچستان میں مفاہمت آگے بڑھی ہے۔ کراچی میں حالات کافی حد تک بہتر ہوئے ہیں مگر مزید بہتری کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ دہشت گرد تنظیموں کا کمیونیکیشن نیٹ ورک بھی پوری طرح غیرموثر نہیں بنایا جا سکا۔ اس کے علاوہ بھی ایکشن پلان کے کئی نکات عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ ادھر دہشت گردوں نے بھی حالات کے تحت اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ وہ وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی واردات کرکے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دہشت گردی دم توڑ رہی ہے اور امن و امان کی صورتحال مستحکم ہورہی ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو مزید فعال کیا جائے۔ عوام کو بھی چاہئے کہ گردوپیش پر کڑی نظر رکھیں اور کوئی مشتبہ سرگرمی دیکھیں تو متعلقہ اداروں کو فوری اطلاع دیں۔ ملک و قوم کا محفوظ مستقبل دہشت گردی کے مکمل خاتمے ہی پر منحصرہے۔

افغانستان اور امریکی منصوبہ بندی
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اگر طالبان مذاکرات سے انکاری رہے تو افغانستان میں امریکی فوج رکھیں گے اور افغان فوج کو ٹریننگ بھی دیں گے۔صدر اوبامہ کا وائٹ ہائوس میں یہ آخری سال ہے ۔ ان کی خواہش ہے کہ اپنے دور ِ صدارت کے باقی ماندہ عرصہ میں وہ ایسا کام کرجائیں جوان کی یاد لاتا رہے۔ اس سے پیشتر وہ ایران کا جوہری پروگرام رول بیک کرنے اور کیوبا سے قریباً نصف صدی کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے ایسے دو بڑے کارنامے انجام دے چکے ہیں۔اسی تناظر میں اب ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن اور مفاہمت کا کوئی معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوجائیں جس کے بعد وہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد امریکی عوام کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے امریکہ، چین، افغانستان اور پاکستان سمیت ایک چار ملکی گروپ بھی تشکیل دیا گیا ہےلیکن اس منزل تک پہنچنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ طالبان کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور وہ کسی ایک لیڈر کی بلاچوں و چرا اطاعت کے لئے تیار نہیں ،دوسری طرف افغان حکومت کی اپنے ملک پرگرفت بہت کمزور ہے اور امریکہ کی تمام ترکوششوں کے باوجودافغان فوج اس قابل نہیں ہوسکی کہ وہ اندرونی شورش کو کچل کر ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کا قیام عمل میں لاسکے۔ افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی اس ملک کا 35سے 65 فیصد علاقہ طالبان کے اتنے مضبوط کنٹرول میں ہے کہ وہاں جانے کے لئے خود امریکی فوج کے دستوں کو بھی پروانہ ٔ راہداری حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں امریکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے خواہ کوئی بھی حکمت عملی بنائےاس کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں اس لئے اسے افغانستان میں اپنی فوج کے قیام میں توسیع کرنا پڑے گی اگرچہ بعض واقفان حال کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ کے علاقائی و عالمی مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے اور امریکہ باقی جوکچھ کر رہا ہے وہ محض اصل مقاصد کو چھپانے کیلئے ہے۔

اقتصادی ترقی کےا شاریئے!!
ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب اپنے آخری مراحل میں ہے۔ کراچی میں امن و ا مان کی صورتحال میں بہتری ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملک میں تعمیر و ترقی کے منصوبے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ بڑھ کر ساڑھے بیس ارب ڈالر تک جاپہنچے ہیں۔ گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی صدارت میں ہوا جس میں بتایا گیا کہ ملک میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح10سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ اجلاس میں نان فائلرز کے لئے ود ہولڈنگ ٹیکس شرح چار فیصد کرنے اور اس میں 15مارچ تک توسیع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک میں اشیائے ضرورت کے ذخائر اطمینان بخش ہیں ۔ جولائی 2015سے جنوری2016کے دوران برآمدات میں6.8فیصد کمی اور ٹیکس آمدن میں18.4فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی سے فروری کے دوران اوسط مہنگائی2.48فیصد رہی جو گزشتہ سال اس عرصے میں چار فیصد تھی ۔گندم ،چینی اور پٹرولیم کے ذخائر اطمینان بخش ہیں۔اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں جو بریفنگ دی گئی اس میں ملک میں اقتصادی ترقی کے جن اشاریوں کی نشاندہی کی گئی جو اطمینان بخش ہیں اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک اقتصادی طور پر استحکام کی جانب گامزن ہے۔تاہم ضرورت ہے کہ اس ترقی کے اثرات عام آدمی تک بھی منتقل ہوں اورترقی ہوتی نظر آئے۔ کمیٹی کے اجلاس میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی کا ذکر کیا گیا ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح دس سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے جو ا یک خوش آئند بات ہے کیونکہ عوام اس وقت گرانی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس کے اثرات عام آدمی تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے اور عام مارکیٹ میں بھی ایسا ہوتا نظر آئے۔
SMS: #JEC (space) message & send to 8001

تازہ ترین