• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ضمیر نیازی صاحب ان دنوں بہت یاد آرہے ہیں۔ کیا منفرد آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جو کام کردیا وہ ان سے پہلے کسی نے کیا، نہ ان کے بعد کوئی کرپایا۔ پاکستان کی تاریخ میں پریس پر پڑی بپتا انہوں نے بہت حد تک جمع کردی۔ ان سے پہلی ملاقات ان کی کتابPress in Chainsکی اشاعت کے بعد ہوئی۔ اور پھر اکثر ان کے نیاز حاصل ہوتے رہے۔ ان کے گھر جانا ہو جاتا تھا۔ طبیعت ان کی ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ جب تک ممکن ہوا ایک اخبار میں نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ کام مگر ان کا آخر وقت تک جاری رہا، قابل قدر اور منفرد کام۔ ان کی پہلی کتا ب پا کستانی صحافت کی ابتلا کی تاریخ ہے، جیسی بعد والی ہیں۔ پہلی کتاب کا بہت اچھا ترجمہ اجمل کمال نے ’صحافت پابندِسلاسل ‘کے نام سے کیا ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر ضیا الحق تک صحافت اور صحافیوں پر کیا گزری ضمیر صاحب نے بہت حد تک اسے دستاویز کردیا ہے۔ اس میں بہت کچھ تو تحقیق ہے۔ بہت کچھ وہ ہے جو اخبارات میں پریس کے حوالے سے چھپتا رہتا تھا، کس اخبار پہ کس نے حملہ کیا، کونسا اخبار کب کس نے بند کیا۔ کس اخبار کو بند کرانے کے لئے کس کس ایڈیٹر نے مشترکہ اداریہ شائع کیا۔ اور اس میں کوئی رعایت انہوں نے نہیں کی۔ مثلاً’سِول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کے خلاف مشترکہ اداریہ شائع کرنے والوں میں اگر فیض احمد فیض بھی شامل تھے تو ان کاذکر بھی ان کی کتاب میں ملتا ہے۔
لیکن سب سے اہم کام ضمیر صاحب نے دوسرا کیا، اور اصل میں وہی ان کی کتاب کی بنیاد بنا۔ یہ وہ ’ایڈوائزز‘ تھیں جو محکمہ اطلاعات ، یا دوسرے برخود غلط با اختیار ادارے اخبارات کو جاری کیا کرتے تھے۔ انگریزوں کی قائم کردہ یہ روایت اس آزاد ملک میں بھی جاری رہی۔ یہ خبر شائع ہوگی، یہ شائع نہیں ہوگی۔ یہ خبر سنگل کالم سے زیادہ نہیں چھپ سکتی، اسے آخری صفحے پر شائع کریں۔ بھٹو صاحب کے دور میں ائیر مارشل اصغر خان کی خبر آخری صفحے پر ہی چھپتی تھی، ہدایت ہی یہی تھی۔ یہ ایڈوائز فون پر ملا کرتی تھیں، ہر اخبار کو۔ عمل ان پر ’پوری سعادت مندی‘ سے ہو تا تھا، مجبوری تھی۔ ضمیر صاحب ان ایڈوائزز کو ایک رجسٹر میں لکھ لیا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجسٹر ایک کتاب میں تبدیل ہو گیا۔ وہ ایک بہت بڑا کام کرگئے تھے۔
ضمیر صاحب پہلی کتاب کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ ان کی بیماری بڑھ گئی تھی۔ وہ پانچ منٹ بھی آرام سے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ ہر تھوڑی دیر بعد، وہ اٹھتے ، تھوڑا سا ٹہلتے اور پھر بیٹھ جاتے۔ اس بیماری کے با وجود وہ اخبارات میں سے پریس سے متعلق شائع ہونے والی خبریں جمع کرتے رہتے۔ ایڈوائزز کا سلسلہ بھی کچھ کم ہو گیا تھا۔ مگر اخبارات پہ عتاب تو نازل ہوتے رہتے تھے، صحافیوں کی پٹائی بھی، کبھی کسی سیاسی جماعت کے ہاتھوں ، کبھی کسی گروپ کے۔ ضمیر صاحب وہ سب جمع کرتے۔ اخبارات میں کام کرنے والوں سے مستقل رابطے میں رہتے۔ ان سے معلومات حاصل کرتے رہتے۔ تحقیق بھی جاری رہتی۔ انہوں نے بعد میں کچھ اور کتابیں بھی لکھیں۔ Press under Siege, Web of Censorship, اور زمین کا نوحہ۔
اب ضمیر صاحب کو ہم سے بچھڑے ایک عشرے سے زیادہ ہوگیا۔ اور اب وہ بہت یاد آتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی جدائی کا غم سوا ہوتا جاتا ہے۔ ان کے بعد کسی نے ریکارڈ جمع کرنے کے بھاری پتھر کو چوما بھی نہیں، اٹھاتا تو کیا۔ ان کے بعد ان سا کوئی سامنے نہیں آیا۔ اب کوئی کسی رجسٹر میں نہیں لکھ رہا کہ کس نے کس خبر کی اشاعت پر پابندی لگائی؟ کوئی یہ تاریخ مرتب نہیں کر رہا کہ فلاں واقعہ اگر ہوا تو وہ ٹی وی پر نظر کیوں نہیں آیا؟ اگلے دن کے اخبارات میں جس اجتماع کو تاریخی قرار دیا گیا، ایک دن پہلے، جب وہ سڑکوں پر تھا، تو چند منٹ کے لئے بھی نظر کیوں نہیں آیا؟ دکھایا کیوں نہیں گیا؟ صحافت تو آزاد ہے، تو پھر کون اس کا گلا گھونٹ رہا ہے؟ ہوتا تو پہلے بھی یہی تھا۔ مگر اس وقت صحافت آزاد نہیں تھی۔ خبر شائع نہیں ہو پاتی تھی، مگر ضمیر صاحب اس کا ریکارڈ تو رکھتے تھے۔ اپنی کتاب میں درج تو کر گئے۔ اب تو یہ کام کوئی نہیں کر رہا۔ کل تو کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ ایک جمہوری حکومت کے اقتدار میں ،آزادیٔ صحافت کے دور میں بھی خبروں پر پابندی لگائی جا تی تھی۔
اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے ۔ ضمیر نیازی صاحب یوں ہی تو یاد نہیں آرہے۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے، پہننے والا جانتا ہے جوتا کہاں کاٹ رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے جانتے ہیں، چبھن کہاں ہے۔ گھٹن ماضی میں بھی رہی ، ہوا کے کچھ ٹھنڈے جھونکے درمیان میں آئے۔ ایسی گھٹن مگر پہلے کبھی نہ تھی۔ کچھ نہ کچھ راستے نکل آتے تھے۔ اب تو وہ بھی نہیں ہیں۔ جو کچھ بیت رہی ہے، ضمیر صاحب زندہ ہوتے تو پتہ رکھتے، اپنے رجسٹر میں درج کرتے کہ کس ٹی وی چینل پر کتنی افتاد پڑی اور کیوں؟ اور یہ بھی کہ کس نے کس پر کتنا دبائو ڈالا؟ کس کس طریقے سے؟ یہ آج تو نہیں چھپتا۔ ہر بات آج کے لئے تو نہیں ہو تی۔ تاریخ تو آنے والے وقت کے لئے، آنے والی نسلوں کے لئے، طالبِ علموں کے لئے، محققین کے لئے ہوتی ہے۔ مگر ایک تاریخ دان ان سب کے لئے ہوتا ہے۔ ضمیر صاحب ، ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔ آپ کا کام جاری نہیں رکھ سکے۔ کوئی بھی آپ سا نہ تھا۔ کوئی آپ سا کام کیسے کرتا۔ کوئی آپ ساکیسے ہو سکتا تھا۔
یہاں تو لوگوں نے آپ کی کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں سے ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے زمانے میں صحافیوں اور اخبارات پر جو بیتی، جو پابندیاں لگائی گئیں، جوسنسرشپ عائد کی گئی، جو کوڑے مارے گئے، اور جو ایڈیٹر جیلوں میں بند کئے گئے ، وہ سب نکال باہر کیا ہے۔یہ ایڈیشن برطانیہ کی ایک یونیور سٹی کے پاکستانی اشاعتی ادارے نے چھاپا ہے۔وہ ہماری تاریخ کو ’درست‘ رکھنے کے لئے بڑی مہم چلاتا ہے۔ مگر آپ کی کتاب کا جو نظر ثانی شدہ ایڈیشن اب سے چند برس پہلے آیا ہے، اسے دیکھ کر یہ پتہ نہیں چلتا کہ کب، جمہوریت کے کس چیمپئن نے کونسا اخبار بند کیا تھا، اور کس صحافی کو کیا سزا دی تھی۔ اگر آپ کی پہلی کتاب ہمارے پاس نہ ہوتی توکسے معلوم ہوتا، اور کیسے، کہ بھٹو صاحب کے مارشل لاء میں صحافیوں کو بعض ایسی سزائیں بھی دی گئیں جو ان سے پہلے کبھی دی گئیں نہ بعد میں۔ بلکہ دنیا میں شاید ہی کہیں ایسی سزا کبھی دی گئی ہو۔ اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر، جناب الطاف حسن قریشی، پرنٹر اور پبلشر، جناب اعجاز حسن قریشی، زندگی کے ایڈیٹر جناب مجیب الرحمان شامی، پنجاب پنچ کے ایڈیٹر، جناب حسین نقی اور پبلشر جناب مظفر قادر کو یہ سزا دی گئی کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی اخبار نکال سکتے ہیں نہ کسی اخبار میں کام کرسکتے ہیں۔ انہیں ایک ایک اور دودو سال کی قید اور ایک ایک اور دو دو لاکھ روپے جرمانے کی سزائیںبھی دی گئیں۔ ہائی کورٹ نے بعد میں یہ سزائیں کالعدم قرار دیدیں۔ اب آپ کی کتاب کے نئے ایڈیشن میں یہ اور بہت کچھ نظر نہیں آتا۔ تاریخ کو اس سے زیادہ اور کیا مسخ کیا جا سکتا ہے۔ یہ احساس مارے ڈالتا ہے کہ آنے والی نسلیں یہ کیسے جان پائیں گی کہ ایک سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور ایک فوجی آمر کے دور میں پاکستان کے پریس پر کیا گزری۔ اور ضمیر صاحب کے انتقال کے بعدذرائع ابلاغ کس ابتلا کا شکار ہوا۔
تازہ ترین