• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت محض اس وجہ سے پوری دنیا باعث رحمت قرار نہیں پا رہی ہے کہ اس کے ذریعے عامۃ الناس کو اپنی قیادت خود منتخب کرنے کے مواقع ملتے ہیں بلکہ یہ ایک ایسی وسیع تر سوچ یا طرزعمل کا نام ہے جو اول تا آخر انسان نوازی کا سبق ہے۔ انسانی حقوق اور آزادیاں،عوامی حاکمیت ،حریت فکر ،آزادی اظہار،منتخب عوامی اداروں بالخصوص پارلیمنٹ کی سپریم یا بالا دست حیثیت ،سوسائٹی کے کمزور طبقات ، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ آئین کی بالادستی ،قانون کی حکمرانی اور میڈیا کی آزادی حتیٰ کہ اپوزیشن کے حقوق کا تحفظ یہ سب فی الحقیقت جمہوریت کے کرشمے ہیں بشر طیکہ ہم جمہوریت کے تقاضوں کا بھی خیال رکھیںاورعوام کی تعلیمی پستی اور معاشی پسماندگی کو دور کریں تاکہ وہ اپنے نمانندے منتخب کرتے وقت شعور کی اس سطح پر آجائیں جہاں وہ حقیقی لیڈر اور ٹھگ کا فرق پہنچاننے کے قابل ہوں معاشی طور پر اتنے کمزور نہ ہوں کہ اپنے ووٹ کی طاقت کو ذاتی مفادات یا کوڑیوں کی خاطر بیچ دیں بلکہ قومی لیول کی قیادت چنتے وقت وہ قومی مفادات کے شعوری فیصلے کر سکیں اگر کسی جگہ عوام اپروچ ایسی بلند نہیں کہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایسے لوگوں سے اُن کا جمہوری حق ہی چھین لیا جائے یا انہوں کسی ڈکٹیٹرکے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے ۔کئی نام نہاد دانشوعوامی تعلیمی ومعاشی پستی کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہوئے اس نوع کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ عوام جمہوریت کے قابل ہی نہیں ہیں پہلے انہیں اس قابل کیا جائے پھر جمہوریت دی جائے یا جس طرح ہمارے قومی شاعر فرما گئے کہ’’ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ‘‘ ایسے لوگوں کو گھمنڈ ہوتا ہے کہ ون مین ون ووٹ کا تصور ہی غلط ہے ایک سکالر اور ایرے غیرے کی آراء برابر کیسے قرار دی جاسکتی ہیں ۔ان کا بس چلے توحضرت صاحب کے لیے ایک مزدور کے بالمقابل پچاس ووٹوں کا تقاضا کر دیں ہماری نظر میں یہ سب باتیں لایعنی و بے معنی ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر انسانی مساوات اور عظمت و شرف انسانی کے خلاف ہیں۔
ہماری نظر میں جوں جوں سو سائٹی ارتقائی منازل طے کرے گی جمہوریت میں خود بخود نکھار آتا چلا جائے گا۔جس طرح تیرا کی پانی کے بغیر نہیں آسکتی اس طرح جمہوری تطہیر بھی بغیر جمہوری نظام قائم کیے قطعاً نہیں لائی جاسکتی عوام ایک دفعہ ٹھوکر کھائیں گے دو دفعہ یا دس دفعہ کھائیںگے بالآخر معیاری و بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہوتے چلے جائیں گے۔جمہوریت کی جتنی بھی خرابیاں یا چغلیاں کر لی جائیں ان سب کو اگر بھلائیوں یا خوبیوں میں بدلنا ہے تو پراسس اس کا صرف اور صرف جمہوریت ہی ہے کسی علیحدہ لیبارٹری میں اس کی دھلائی یا صفائی نہیں کی جاسکتی اور یہ بھی یاد رہے کہ انسانی شعور نے صدیوں کی ارتقاء سے اب تک جو بہتر نظام دریافت کیا ہے وہ صرف اور صرف جمہوریت ہے۔ کسی نے کتنا درست کہا ہے کہ ’’بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بدرجہا بہتر ہے‘‘۔جمہوریت کا اس سے بڑا فیضان کیا ہو سکتا ہے کہ خوان خرابے کے بغیر پرامن انتقال اقتداد کا اسلوب انسانیت نے اِسی مغربی جمہوری نظام سے ہی سیکھا ہے۔ جمہوریت کے متعلق منفی پراپیگنڈہ کرنے والے یہ جان لیں کہ چودہ صدیوں تک آپ لوگوں کے پاس انتقال اقتداد کا کو ئی پر امن اسلوب نہیں تھا ۔حصول اقتداد کے لیے ہم لوگ پاگل ہو جاتے تھے، سگے بھائیوں کو ذبح کر دینا یا ان کی آنکھیں نکال دینا گویا کوئی بات ہی نہ تھی اور بڑے فخر سے کہتے تھے کہ محبت اور اقتدار کی جنگ میں سب کچھ جائز ہے
ہماری تاریخ تو اس حوالے سے اتنی بری ہے کہ اس کا ذکر ہی کیا۔ کاش ہمارے لوگ اپنی تاریخ ہی پڑھ لیں ،سب کچھ ہمارے سامنے آ جائے گا کہ ظلم کی انتہا تھی، اپنی اولادوں اور اپنے بزرگوں تک کو قتل کرواتے ہوئے بھی ان لوگوں کو شرم نہیں آتی تھی ۔مذہب کا تو محض نام استعمال ہوتا تھا، اصل مدعا تو ہمیشہ حصول اقتدار یا سیاسی مفادات ہی قرار پاتے رہے اور پھر خرابی بسیا محض اسی عنوان تک محدود نہ رہی ہم نے اپنی ایمپائرز میں جو طرز حکمرانی قائم کیے رکھا وہ بھی محض افراد کی شخصی آمرتیوں والا تھا ۔منظم عوامی اداروں کا تصور تو کبھی ابھر ہی نہیں سکا۔
ہماری نظرمیں آمریت کی خامی محض یہ نہیں ہے کہ حکمرانی زور،جبر و وراثت سے آتی ہے اور اس میں عوامی منشاء کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ اس سے بھی بڑی خامی یہ ہے کہ اگر کسی ظالم وجابر کے ستائے عوام کسی ایسے آمر کا استقبال کرتے ہیں جو روایتی عوامی ووٹوں سے تو نہیں آیا لیکن وسیع تر عوامی حمایت سے ،وہ یہ دعویٰ ضرور کر سکتا ہے کہ میں عوامی حمایت یافتہ ہوں ۔کل کو جب وہی عوام اس سے درخواست کرتے ہیں کہ اب ہماری جان چھوڑ دو تو وہ مختلف النوع تو جیہات دیتے ہوئے یوں ظاہر کرتا ہے کہ عوام کی خاموش اکثریت تو مجھے پسند کرتی ہے، یہ تو کچھ سر پھرے ہیں جو میرے جانے کے مطالبات کرہے ہیں اور پھر یہی شخص اپنے اقتداد کا عرصہ بڑھانے کے لیے اپنی عوام پر تشدد کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔شخصی اقتداد چاہے وہ جبری ہو ،وراثتی ہو یا عسکری، جمہوریت کے بالمقابل اس کی خامی یہ ہے کہ اس کے خمیر میں جبر سمایا ہوتا ہے بظاہر وہ مسکراتے ہوئے عوامی رائے کی عظمت میں رطب اللسان بھی ہوگا۔لیکن اس کے پلے جبر کے سوا کچھ نہیں گا۔ عوامی خدمت کے نعرے میں بھی ذاتی،خاندانی یا گروہی مفادات کا حصول پہنا ہو گا۔بلاشبہ اس نوع کی آلائشیں کمزور جمہورتیوں میں بھی ہوتی ہیںلیکن بحیثیت مجموعی اعلیٰ ترین آمریت میں بھی ایک نوع کی گھٹن ضرور ہوتی ہے۔عوام کو رعایا خیال کیا جاتا ہے لوگوں میں خوشامدانہ پن آجاتا ہے وہ ضمیر کے خلاف اپنے حکمران کی ہاں میں ہاں ملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک گھٹا ہو،ا ڈھکا ہوا سماج جیسے سوویت یونین کا سماج تھا جس کے خلاف خودگورباجوف جیسے عظیم الشان انسان نے گلاسنوٹس یا Opennessکا نعرہ لگایا تھا لیکن سوویت یونین تو ٹوٹ گیا جسے بہرحال ٹوٹنا ہی تھا لیکن اس گریٹ لیڈر کا یہ نعرہ کروڑوں انسانوں کو ضمیر اور شعور کی آزادیوں سے بہرہ ورکرگیا جس سے آج ان سب کی آنے والی نسلیں بھی مستفید ہو رہی ہیں ۔آخر میں ہم مغرب جدید و قدیم مغربی افکار پیش کرنے والے دانشوروں کو فلسفیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ہم سقراط،افلاطون اور ارسطوکی عظمتوں کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ہم پچھلی چند صدیوں پر محیط اہل مغرب کی اس جمہوری جدوجہدکے شکر گزرار ہیں جس کی برکت سے ہماری آج کی دنیا جمہوریت کے فیضان سے مستفید ہورہی ہے۔
تازہ ترین