• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاک، بھارت کشیدگی‘‘ سبق سکھانے کی نہیں، سیکھنے کی ضرورت ہے

’’پاک، بھارت کشیدگی‘‘ سبق سکھانے کی نہیں، سیکھنے کی ضرورت ہے
مقبوضہ کشمیر کے ضلع، پلواما میں خود کُش حملے کے بعد جائے وقوع کا ایک منظر، دوسری تصویر میں بھارتی شہری اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں 

پاکستان اور بھارت کے مابین تنائو ایک بار پھر بلندیوں کو چُھو رہا ہے اور اس کا سبب فروری کے دوسرے ہفتے میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے، پلواما میں ہونے والے خود کُش حملے میں بھارتی نیم فوجی دستے میں شامل 40سے زاید اہل کاروں کی ہلاکت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پر ہونے والے اس حملے نے بھارت میں ایک طوفان سا برپا کر دیا اور واقعے کی ذمّے داری فوری طور پر جیشِ محمد نامی ایک شدّت پسند تنظیم کی جانب سے قبول کیے جانے کے باوجود پاکستان سے بدلہ لینے ، اسے سبق سکھانے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ واقعے کے چند روز بعد پاکستانی وزیرِ اعظم، عمران خان نے قوم سے خطاب میں دہشت گردی کی مذمّت کرتے ہوئے بھارت کو حملے کی تحقیقات اور ذمّے دار عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں مدد کی پیش کش کی۔ وزیرِ اعظم پاکستان کی جانب سے کی گئی پیش کش دہشت گردی کے خلاف تعاون کا ایک بہتر طریقہ تھا، لیکن بھارت نے حسبِ معمول ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے رد کر دیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چُوں کہ دونوں ممالک کے مابین اعتماد کا شدید فقدان ہے، اس لیے نیک نیّتی سے کی جانے والی کوششیں بھی فریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ جنوبی ایشیا کے ان دو اہم ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر ایک طویل عرصے سے تنازعے کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین کئی جھڑپیں اور جنگیں بھی ہو چُکی ہیں۔ مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں کشمیری عوام آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں اور وہاں روزانہ ہی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ بھارت کے زیرِ قبضہ اس خطّے میں آئے روز کرفیو نافذ رہتا ہے ، جب کہ 8لاکھ بھارتی فوجی اور خصوصی نیم فوجی دستے مسلسل کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کُچلنے میں مصروف ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ تحریک زور پکڑتی جارہی ہے اور بھارتی سرکار کے لیے ایک مستقل دردِ سَر بن چُکی ہے۔ بھارتی فوج کے مظالم، کشمیریوں کی شہادت اور ان کی املاک کی تباہی کے نتیجے میں جنّت نظیر وادی، گویا تباہی و بربادی کا فسانہ بن چُکی ہے، لیکن بھارتی حُکم ران، کشمیری عوام کو حقِ خود ارادیت دینے اور مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل پر آمادہ نہیں۔ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان غیر معمولی تنائو پیدا ہوتا ہے، تو عالمی طاقتیں اور ادارے فریقین کو مذاکرات کے ذریعے تمام تنازعات حل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بیرونی دبائو کی وجہ سے عارضی طور پر کشیدگی کم ہو جاتی ہے، لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ پھر دونوں ممالک پر جنگ کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔

پاک، بھارت کشیدگی ختم نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ان دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت داخلی سیاست کا لازمی جزو بن چُکی ہے۔ مثال کے طور پر رواں سال بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات ہو رہے ہیں اور بی جے پی کی حکومت پلواما واقعے کی آڑ میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے پاکستان مخالف مُہم چلا رہی ہے۔ خیال رہے کہ کم و بیش بھارت کی ہر سیاسی جماعت ہی پاکستان کے خلاف جذبات بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی، جب کہ اس کے برعکس پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم اپنی وکٹری اسپیچ سے لے کر اب تک کئی مرتبہ بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کر چُکے ہیں۔ عمران خان نے یہ تک کہا کہ اگر بھارت ایک قدم بڑھائے گا، تو ہم دو قدم۔ علاوہ ازیں، پاکستان کی موجودہ حکومت نے دونوں ممالک کو قریب لانے کے لیے کرتار پور راہ داری بھی کھولی، جس کی دُنیا بَھر میں ستایش کی گئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہیں ہو سکی اور اب پلواما واقعہ رونما ہو گیا، جس کے نتیجے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔

برِ صغیر کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کو اس معاندانہ رویّے پر حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی۔ پاکستان اور بھارت، جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ممالک ہیں، جن کی مجموعی آبادی تقریباً 1.5ارب ہے اور دونوں ممالک کے عوام کا معیارِ زندگی کسی طور بھی اطمینان بخش نہیں۔ غُربت، جہالت، آبادی میں بے ہنگم اضافہ اور صحت و ماحولیات کے مسائل خطرے کی گھنٹیاں بجارہے ہیں۔ گرچہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت اور اہلِ دانش مستقلاً ان مسائل کا اظہار کرتے رہتے ہیں، لیکن ان کے حل کے لیے لازمی عُنصر کشیدگی کے خاتمے اور قیامِ امن کی جانب قدم بڑھانے کی جرأت نہیں کرتے، جو ناقابلِ فہم ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر اپنی فوجی طاقت کا اظہار اور جنگ کی دھمکیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت، دانش وَروں اور میڈیا کو جنگ کی تباہ کاریوں کا اداراک نہیں یا پھر وہ سفارت کاری کے نِت نئے اسرار و رموز سے نابلد ہی رہنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ترقّی یافتہ ممالک کی حکومتیں اپنے مُلک میں دہشت گردی کا واقعہ رُونما ہونے کے بعد فوری طور پر ردِ عمل ظاہر نہیں کرتیں اور چھان بین کے صبر آزما مرحلے کے نتیجے میں حاصل کردہ ثبوتوں کی روشنی میں کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ اس دوران ان ممالک کے ذرایع ابلاغ بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور ایسا مواد شایع و نشر کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ جس سے کسی کے جذبات مجروح ہوں۔ اس کے برعکس ہمارے خطّے میں ان واقعات پر جلد بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور کم و بیش ہر دوسرا فرد ہی دوسرے ممالک کو ذمّے دار ٹھہرا کر خود کو محبِ وطن ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

تاہم، ایسے مواقع پر عوام کے جذبات بھڑکانے میں بھارتی میڈیا کا کوئی ثانی نہیں، جو شاید یہ چاہتا ہے کہ واقعے کی تفتیش کی بہ جائے اُس پر کان دھرتے ہوئے آیندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ چُوں کہ سیکڑوں بھارتی ٹی وی چینلز پر بیٹھے سیاسی و دفاعی ماہرین، سیاست دان اور سابق فوجی افسران اپنے جذباتی بیانات کے ذریعے مسلسل آگ پر تیل چِھڑکنے میں مصروف رہتے ہیں، لہٰذا عوام کے دِلوں میں پڑوسی مُلک سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے، جس پر قابو پانا پھر حکومت کے لیے مشکل ہو جاتا ہے، جب کہ بعض طبقات کی جانب سے یہ الزام بھی عاید کیا جاتا ہے کہ نفرتیں پھیلا کر سیاسی فواید حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم، کسی دوسرے مُلک کے خلاف نفرتیں پھیلا کر عارضی فائدہ تو حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن آگے چل کر یہ عمل مشکلات پیدا کرتا ہے اور آخر کار فریقین کو بات چیت ہی پر مجبور ہونا پڑتا ہے، لیکن تب عوام کو سمجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے، کیوں کہ مذاکرات کا نام لیتے ہی رہنمائوں پر ہر طرف سے غدّار اور مُلک دشمن کے الزامات عاید کیے جانے لگتے ہیں۔ گرچہ اس وقت پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے تمام تنازعات طے کریں اور وزیرِ اعظم، عمران خان بھی اس بات کا اظہار کر چُکے ہیں، لیکن ہمارے ہاں بھی غدّاری کے سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے میں بُخل سے کام نہیں لیا جاتا۔ مثال کے طور پر گزشتہ دَورِ حکومت میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے، جن میں عمران خان اور اُن کی جماعت، پی ٹی آئی پیش پیش تھی، اُس وقت کے وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کو بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں پر ہدفِ تنقید بنایا، جس کے نتیجے میں اب موجودہ حکومت خود مشکلات کی شکار ہے اور اسے نیک نیّتی سے کی گئی پیش کش کے باوجود بھارت کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ہمیں اپنے اُس رویّے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جو ہم دوسرے ممالک کے منتخب حکُم رانوں پر تنقید کرتے ہوئے اختیار کرتے ہیں اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ آج کہیں ہمارے اسی لب و لہجے ہی کی وجہ سے تو بھارتی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں مشکل پیش نہیں آ رہی۔ کسی مُلک کی معاندانہ پالیسی پر تنقید کرنا غلط نہیں، لیکن اس موقعے پر اس کے رہنمائوں پر کیچڑ نہیں اُچھالنا چاہیے، کیوں کہ پھر جب مذاکرات کی بات آتی ہے، تو ماضی میں کی گئی کردار کُشی مشکلات پیدا کر دیتی ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں قومی سلامتی کے سابق مشیر، جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے اس تجزیے کو نہیں بُھولنا چاہیے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان عداوت قائم رہی، تو آخر کار دونوں ایک دوسرے کو تباہ کر دیں گے۔ یہ تجزیہ انہوں نے ایک سیمینار میں کیا تھا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنے تلخ ماضی کو نظر انداز کر کے امن کی جانب قدم بڑھائیں کہ جنگ ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ خیال رہے کہ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے براہِ راست اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں اہم کردار داد کیا تھا۔

پلواما واقعے کے بعد ہمیں پاک، بھارت تعلقات کے ضمن میں دونوں ممالک کے میڈیا کے کردار پر بھی نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ آزادیٔ اظہار اپنی جگہ، لیکن حالات کا ادراک بھی ضروری ہے۔ پھر موقع محل کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور بات کرنے کا سلیقہ بھی آنا چاہیے۔اسی طرح سفارت کاری کی حدود کا بھی علم ہونا چاہیے کہ کہاں انکشافات کرنے ہیں اور کہاں معاملات کو حکومت پر چھوڑ نا ہے۔ ہم نے اس ضمن میں بھارتی میڈیا کے کردار ذکر کیا، جب کہ پاکستانی میڈیا کو شاید مجبوراً جارحانہ انداز اپنا نا پڑتا ہے، لیکن میڈیا کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ذرایع ابلاغ ہی رائے عامّہ بناتے ہیں ، لہٰذا انہیں حوصلے اور صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے آگ بھڑکانے کی بہ جائے مسائل کا حل تجویز کرنا چاہیے۔ خیال رہے کہ میڈیا عدالت ہے، نہ پالیسی ساز ادارہ اور نہ ہی میدانِ جنگ۔ اگر اسے ان میں سے کسی ایک پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے کا انتہائی خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ آج تقریباً ہر دوسرا فرد ہی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کا صارف ہے اور ہر قسم کی اطلاعات تک رسائی رکھتا ہے۔ ایسے میں اگر مرکزی دھارے کے میڈیا نے عام آدمی کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، تو پھر ہمیشہ اس کا نتیجہ پلواما واقعے کے بعد کی صورتِ حال کی طرح ہی برآمد ہو گا۔ مذکورہ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور جنگ کی دھمکیوں پر مبنی پوسٹس کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان پوسٹس کا دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے جنگ بچّوں کا کھیل ہے، حالاں کہ اس کا انجام صرف اور صرف تباہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ نفرت انگیز پوسٹس اُن افراد کی جانب سے شیئر کی جا رہی ہیں کہ جو تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ آج کے دَور میں اگر کسی مُلک کو، چاہے وہ طاقت وَر ہو یا کم زور، ترقّی کرنی ہے، تو اسے نہ صرف اپنی سر زمین پر امن قائم کرنا ہو گا، بلکہ اپنے گرد و پیش میں بھی اطمینان اور آسودگی کو جگہ دینی ہو گی اور یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، بلکہ معمولی سی عقل و فہم رکھنے والا فرد بھی امن و آشتی کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ اگر ترقّی کے لیے امن و سکون ناگزیر نہ ہوتا، تو ڈونلڈ ٹرمپ اور کِم جونگ اُن جیسے سخت گیر رہنما بار بار ایک دوسرے سے ملاقات کیوں کرتے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں دیں، لیکن بالآخر اب ایک سُپر پاور کا رہنما ایک کم زور مُلک کے لیڈر کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر نہ صرف بات چیت کے لیے آمادہ ہے، بلکہ اس پر فخر بھی کر رہا ہے۔ آج نوبل پِیس پرائز کے لیے جاپان جیسے مُلک میں نام زدگیاں ہو رہی ہیں، جو ایٹمی حملوں کا نشانہ بنا۔ اس وقت رُوس، چین، امریکا اور یورپ سمیت تمام ممالک جنگوں سے عاجز آ چُکے ہیں اور اسی لیے افغانستان میں قیامِ امن چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور افغان طالبان خود اس بات کا اعتراف کر چُکے ہیں کہ اب انہیں جنگ کی نہیں، استحکام کی ضرورت ہے۔ آج ہر قوم جنگ کی تباہ کاریاں دیکھ چُکی ہے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات کا حل چاہتی ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا کے حُکم رانوں اور عوام کو بھی ہوش کے ناخن لینے اور جنگوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر تلخیوں اور نفرتوں میں اضافہ ہوتا رہا، تو اس سے سب کا نقصان ہو گا اور ہمیں اس زیاں کو روک کر ایک دوسرے فائدہ پہنچانا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگوں کے باوجود بات چیت کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ لیاقت نہرو پیکٹ۔ انڈس بیسن واٹر ٹریٹی، معاہدۂ تاشقند، اعلانِ شملہ اور اعلانِ لاہور سمیت کرکٹ ڈپلومیسی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ پھر گزشتہ دَورِ حکومت میں پاکستانی وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کی نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت، بھارتی وزیرِ اعظم کی لاہور آمد اور اپنے پاکستانی ہم منصب کی گھریلو تقریب میں شرکت اور پھر ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا طویل سلسلہ بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ میڈیا، حکم رانوں اور سیاسی جماعتوں کو ٹھنڈے دِل و دماغ سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آیا وہ عبوری زمانہ بہتر تھا کہ جب مختلف بھارتی وفود اور عوام بلا خوف و خطر پاکستان آتے تھے یا موجودہ خوف ناک ماحول۔ سیاست دان ہوں یا جرنیل، اہلِ دانش ہوں یا فن کار، سبھی کو ٹریک ٹو ڈپلومیسی جاری رکھنی چاہیے اور ایک دوسرے کے لیے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں۔ ہمیں ان افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ جو ان تلخیوں کو نرمی میں بدلنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یاد رہے کہ ریاستوں کے درمیان زمانۂ جنگ میں بھی رابطے قائم رہتے ہیں اور ان رابطوں کو غداری یا مُلک دشمنی سمجھنے کی بہ جائے مثبت انداز سے استعمال کرنے کا فن ہی سفارت کاری کہلاتا ہے۔ اس وقت پاک، بھارت تعلقات کی نوعیت بالکل ویسی ہی ہے، جیسی ایک دَور میں یورپی ممالک کی ہوا کرتی تھی۔ یورپی ممالک ایک دوسرے سے جنگیں لڑتے رہے اور تباہ ہوتے رہے، لیکن دو عالم گیر جنگوں میں ہونے والی ہلاکتوں اور خوں ریزی نے انہیں یہ احساس دلایا کہ اتفاق سے رہنے ہی میں بھلائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج 28یورپی ممالک کے درمیان کوئی سرحد نہیں اور سب ایک دوسرے کی خوش حالی میں شریک ہیں۔ یہ کوئی کرامت نہیں، بلکہ انسانی عقل و فہم کا کارنامہ ہے اور یہ سب جنوبی ایشیا میں بھی ممکن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پلواما جیسے واقعات امن عمل کی رفتار سُست کر دیتے ہیں، لیکن یہ ختم نہیں ہوتا اور یہ سلسلہ دوبارہ وہیں سے جوڑا جا سکتا ہے، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ خیال رہے کہ کشیدگی کا خاتمہ قومی مفاد کا معاملہ ہے اور اس پر مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں کو متفقّہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ یاد رہے کہ امن کے بغیر ترقّی و خوش حالی ممکن نہیں اور دونوں ممالک کو مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل اپنانا ہو گا کہ جس میں سب کی جیت ہو۔ 

تازہ ترین