• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بار پھر جمہوریت گھیرے میں نظر آرہی ہے یہ پیشگوئیاں تو کئی ماہ سے ہمارے کئی سیاسی مبصر ”ہیوی ویٹ“ صحافی اور تجزیہ نگار کررہے تھے ۔ اس سلسلے میں یہاں تک کہا گیا کہ اچانک حالات ایسے ہونے والے ہیں کہ حکومت اور جمہوریت دونوں لپیٹی جانے والی ہیں۔ یہ پیشگوئیاں بھی کی جارہی تھیں کہ بنگلہ دیش ماڈل پاکستان میں بھی آزمایا جائے گا یا شاید لمبی مدت کیلئے نگران حکومت قائم کی جائیگی جس کے ہاتھ میں ”احتساب ” کا ڈنڈا ہوگا۔
مولانا ڈاکٹر طاہرالقادری نے مینار پاکستان پر ایک بہت بڑے جلسہ عام کا اہتمام کیا اور اپنے خطاب میں انہوں نے کئی معنی خیز اعلانات کئے مثا ل کے طور پر کہاکہ” ہمیں سیاست نہیں ریاست کو بچاناہے۔ یعنی کیا کوئی ریاست سیاست کے بغیر بھی چل سکتی ہے؟ پھر اگر آپ ریاست کوسیاست کے ذریعے چلانا نہیں چاہتے توکیا ریاست کو چلانے کیلئے پھر کوئی مارشل لا لانا چاہتے ہیں یا پھر B(2)58بحال کرانا چاہتے ہیں۔
علامہ طاہر القادری نے ایک اور دلچسپ نکتہ اٹھایاہے کہ انتخابات کے لئے 90دن کی شرط ضروری نہیں ہے یہ بات بھی آئین کی صریحاًخلاف ورزی ہے یہاں یہ بات بھی یاد دلاتے چلیں کہ جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرکے مارشل لا لگایا تو انہوں نے حرم پاک میں وعدہ کیا تھا کہ انتخابات 90 دن میں کرائیں گے مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ حرم پاک میں کئے گئے اس وعدہ کا کیاحشر ہوا
علامہ نے یہ دلچسپ اور معنی خیز مطالبہ بھی کیا کہ نگراں حکومت فوج اور دوسرے اسٹیک ہولڈرزکے مشورے سے ان ہی پر مشتمل بنائی جا ئے یہ مطالبہ بھی ماورائے آئین ہے ۔ کیونکہ آئین میں نگراں حکومت کا طریقہ کار دیا گیا ہے اس سے روگردانی فقط اس وقت کی جاسکتی ہے جب آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق ترمیم کرکے اس سلسلے میں کوئی نیا طریقہ کار وضع کیاجائے
علامہ قادری کے اس MOVE کیلئے Rightist سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کا سافٹ کارنر ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ بھی وقت آنے پر اس لانگ مارچ میں شامل ہوجائیں، مگر سب سے حیرت انگیز اور دلچسپ ردعمل پی پی کی دو اتحادی پارٹیاں پی ایم ایل (کیو) او رمتحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے آیا ہے ایم کیو ایم کا فیصلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ایم کیوایم نے طاہر القادری کے اعلان کردہ لانگ مارچ میں شرکت کرنے کا اعلان کیا ہے۔اچانک ایم کیو ایم اور (پی ایم ایل (کیو) کی طرف سے لانگ مارچ کو کامیاب کرانے کے بارے میں کئے گئے اعلانات کے مدنظر اس وقت سیاسی حلقوں میں کئی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ سب کچھ صدر زرداری کے مشورے سے ہورہا ہے تاکہ الیکشن ملتوی ہوں اور ان کی حکومت کو مزید مدت مل سکے ساتھ ہی یہ بھی رائے ہے کہ ”کیو“ لیگ اور ایم کیو ایم نے شاید کچھ ملکی اور غیر ملکی قوتوں کے اشارے پر صدر زرداری کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیاہے مگر یہاں یہ دوسوالات بھی کئے جارہے ہیں کہ اگر واقعی ایم کیو ایم اور”کیو“لیگ زرداری کو سیٹ بیک دینے کیلئے علامہ قادری کے لانگ مارچ میں شرکت کررہی ہیں تو پھر وہ دونوں اتحادی حکومتوں سے الگ کیوں نہیں ہوجاتے یا صدر زرداری خود ان دونوں پارٹیوں کو حکومت سے آؤٹ کیوں نہیں کردیتے ۔
بہر حال سندھ کے لوگ جو سیاسی طور پرباشعور ہیں وہ اس نہج پر سوچ رہے ہیں کہ یہ جواچانک ہوا ہے اس کے نتیجے میں ایک ہی وقت جمہوریت ، وفاقی نظام اور سیکولرازم داؤ پے لگے ہوئے ہیں۔ علامہ قادری کی دعوت کے سلسلے میں سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کی طرف سے جو اب تک ردعمل آیا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے ایک لحاظ سے اس سارے MOVE کے سلسلے میں سندھ کی سیاسی فورسز کی طرف سے اسMoveکے بانیوں اور پردے کے پیچھے چھپے ہوئے ملکی اور عالمی قوتوں کیلئے ان کا ایک سنجیدہ پیغام بھی ہے اطلاعات کے مطابق علامہ قادری کے وفد نے سندھ ترقی پسند پارٹی، عوامی تحریک اور سندھ یونائیڈ پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے انہیں لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت دی اس وفدسے عوامی تحریک کے بانی سربراہ رسول بخش پلیجو اور سربراہ ایاز لطیف پلیجونے ملاقات نہیں کی یہ رویہ اختیار کرنا ہی ان کیلئے ایک پیغام ہے بہرحال منہاج القران کے وفد کی عوامی تحریک کے کسی اور سینئر رہنما سے ضرور ملاقات ہوئی ہے ۔اطلاعات کے مطابق انہیں سرد مہری پر مبنی رویہ کا سامنا کرنا پڑا شاید یہ کہا گیا ہے کہ پارٹی ہائی کمان اس دعوت پر غور کرے گی بعد کی اطلاعات کے مطابق علامہ قادری کی ٹیلی فون پر ایاز لطیف پلیجوسے بات چیت ہوئی ہے انہوں نے لانگ مارچ پراپنے تحفظات ظاہرکئے ہیں اور خاص طورپران کے ساتھ ایم کیو ایم کے نتھی ہونے پر اعتراض کیا سید جلال محمود شاہ اور علامہ کے نمائندوں کی بھی ملاقات ہوئی مگر انہوں نے بھی غورکرنے کا وعدہ کیا اور کوئی ٹھوس وعدہ نہیں کیا بہرحال ایس یو پی کے سینئر رہنما شاہ محمد شاہ نے کہاکہ ایک تو ان کے ساتھ ایم کیو ایم بیٹھی ہوئی ہے دوسری بات یہ ہے کہ ان کے عزائم جمہوریت سے متصادم نظر آتے ہیں وہ بھی ایسے وقت جب انتخابات ہونے والے ہیں انہوں نے زور دے کر کہا کہ سندھ جمہوریت پر Compromiseنہیں کرسکتی سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی سے علامہ قادری کے نمائندوں کی ملاقات کے بارے میں ایس ٹی پی کے قریبی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر مگسی نے کھل کر بات کی اور کہاکہ ایک توآپ کے ساتھ ایم کیو ایم جیسی تنظیم بھی شامل ہوگئی ہے دوئم آپ سیاست کے بغیر ریاست جیسی عجیب وغریب باتیں کررہے ہیں علاوہ ازیں انہوں نے صاف طورپر کہہ دیا کہ وہ جمہوریت کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے۔
دریں اثناء نہ فقط سندھ کے قوم پرست حلقے ، دانشور ،مگر سول سوسائٹی جمہوریت کو لاحق ان خطرات کا بغورجائزہ لے رہے ہیں اور ایک رائے یہ ہے کہ اگر جمہوریت گئی تو وفاقی نظام کی امیدیں بھی ختم ہوجائیں گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سندھ کے یہ عناصر اس Moveکے نتیجے میں سندھ کیSovereignty کو لاحق سنگین خطرات دیکھ رہے ہیں لہٰذا یہ حلقے فی الحال بند کمروں میں اس صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر اسلام آباد کے لانگ مارچ کے نتیجے میں جمہوریت ، وفاقی نظام اور سیکولر ازم کیلئے خطرات ابھرتے ہوئے نظر آئے تو یہ سب قوم پرست گروپ اور دانشور ایک متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کریں، تاکہ سندھ کی تاریخ ، معیشت ، جغرافیہ اورڈیماگرافی کاتحفظ کیا جاسکے اگر واقعی ان خطرات کے بارے میں اندیشے صحیح ثابت ہوتے ہوئے نظر آئے تو سندھ کے کچھ مبصرین اور دانشور اس بات کو بھی رد نہیں کرتے کہ اس صورتحال میں سندھ شاید اپنی بقاء کیلئے کچھ نئے آپشنز پر بھی غور کرے۔ جس کے کافی دورس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ‘ بلوچستان پہلے ہی کافی ناراض ہے اگر لولی لنگڑی جمہوریت جس میں اس دور میں سندھ کو دیا تو کچھ نہیں مگر بہت کچھ لیا ہے اگر ڈگمگاتی ہوئی نظر آئی تو ہوسکتا ہے کہ سندھ بھی کوئی ایسی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے۔
کیونکہ سندھ جمہوریت کو اپنی بقاء کے لئے لازمی سمجھتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ہے تو وفاقی نظام کی امید بھی ہے، دوسری بات یہ کہ طاہر القادری کی قیادت میں اگر ملک کی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اور فنڈامینٹلسٹ قوتیںآ گے آئیں تو سیکولرازم کا جنازہ نکل جائیگا۔ سندھ یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکے گا، کیونکہ سندھ کا معاشرہ سیکولر ہے، جس کی بنیاد صدیوں سے صوفی ازم پے ہے۔
تازہ ترین