• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی تاریخ خاصی طویل ہے، لیکن اگر قیامِ پاکستان سے اب تک جاری 71سالہ جہدِ مسلسل پر نگاہ دوڑائی جائے، تو اس اَن تھک سعی میں مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی صنفِ نازک کا کردار بہت اہم نظر آتا ہے۔ کشمیری مائیں گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے بیٹوں میں بے جگری سے لڑنے اور شوقِ شہادت کا جذبہ نسل در نسل منتقل کرتی آ رہی ہیں۔ تاہم، بھارتی فوج کے مظالم نے 1989ء میں کشمیر کی عفت مآب خواتین کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا اور پھریہ بھی حریّت پسند تحریک کاباقاعدہ حصّہ بننے لگیں ۔اس وقت دُخترانِ ملّت کی سربراہ، آسیہ اندرابی سمیت کئی کشمیری خواتین مَردوں کے شانہ بہ شانہ بھارتی فوج کی بے حِسی، سفّاکیت اور قساوت کے خلاف عَلم بلند کرتے ہوئے بھارت کے زیرِ قبضہ خطّے کی آزادی کی راہ ہم وار کر رہی ہیں۔ گرچہ طبعاً کم زور ہونے کی وجہ سے کشمیری عورت ہی سب سے زیادہ زدپر ہے ، اس کی عزّت و بقا کو ہمہ وقت خطرات لاحق رہتے ہیں، لیکن اب اس کے شعور کی سطح اس قدر بلند ہو چُکی ہے کہ عِصمت دری، جنسی ہراسانی اور بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنے پیاروں کے شہید اور لاپتا ہونے جیسے بے شمار لرزہ خیز واقعات کی عینی شاہد ہونے کے باوجود یہ اپنی مظلومیت کا رونا رونے کی بہ جائے اپنے خاندان کی کفالت کے ساتھ تحریکِ آزادی کو بھی تقویّت پہنچا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیری طالبات قابض فوج پر پتّھر برساتی اور پیلٹ گنز کا ہدف بنتے دکھائی دیتی ہیں۔

اقوامِ متّحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی خاطر پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں آواز بلند کرنے والوں میں معروف سماجی کارکن، پِیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی چیئرپرسن اور جمّوں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین کی اہلیہ، مشال ملک بھی شامل ہیں۔ مشال ملک کو انسانیت، بالخصوص بھارتی ظلم و ستم کی شکار کشمیری قوم سے ہم دردی ،اُنس اور غم خواری کا جذبہ وراثت میں ملا، جسے حُریّت رہنما، یٰسین ملک سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد مزید جِلا ملی۔ وہ اپنے شوہر اور 6سالہ بیٹی سے باپ کی طویل جدائی کو سوہانِ رُوح بنانے کی بہ جائے مختلف پلیٹ فارمز کی مدد سے دُنیا بَھر میں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف اور آزادی کے حق میں آواز اُٹھا رہی ہیں۔ گزشتہ دِنوں ہماری اس باہمّت خاتون سے تفصیلی بات چیت ہوئی، جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

س :سب سے پہلے تو اپنے خاندانی پس منظر سے متعلق کچھ بتائیں۔

ج :میرا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ، دانش وَر گھرانے سے ہے۔ میرے والد نوبیل پِیس پرائز کی جیوری میں شامل ہونے والے واحد پاکستانی ہیں ۔ انہوں نے جرمنی کی بون یونی ورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد قائدِ اعظم یونی ورسٹی میں شعبۂ اقتصادیات کے سربراہ کے طور پر فرائض نبھائے، جب کہ میری والدہ میدانِ سیاست میں سرگرم رہیں اور انہوں نے پاکستان مسلم لیگ کی سیکریٹری جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔پھر ایک سماجی کارکُن کے طور پر والدہ نے ہمیشہ حقوقِ نسواں کے لیے صدا بلند کی۔یہی وجہ ہے کہ دُکھی انسانیت کی خدمت اور اس کے لیے آواز اٹھانے کا سبق مُجھے میرے گھر سے ملا اور پھر ایک آرٹسٹ ہونے کے ناتے بھی مَیں کافی حسّاس ہوں۔ مَیں نے ابتدا میں دُنیا میں کہیں بھی ہونے والے مظالم، بالخصوص خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف پینٹنگز بنا کر صدائے احتجاج بلند کی۔ علاوہ ازیں، بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر مقبوضہ کشمیر، بوسنیا اور چیچنیا سمیت دیگر ممالک میں ظلم و ستم کے شکار افراد کے لیے فنڈز بھی جمع کیاکرتی تھی۔ چُوں کہ میری والدہ کا نصف خاندان سری نگر میں مقیم ہے، لہٰذا وہ کشمیریوں کا دُکھ بڑی شدّت سے محسوس کرتی تھیں۔ انہوں نے ہی ہمیں یہ درس دیا کہ کام یابی اچّھے کیریئر میں نہیں، بلکہ اچّھا انسان اور دُکھی انسانیت کی آواز بننے میں پوشیدہ ہے۔ مَیں اپنے والدین کی بے حد شُکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمیں یہ باور کروایا کہ دُنیا میں اربوں انسانوں کو اُن کے بنیادی حقوق تک میسّر نہیں، لہٰذا ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شُکر ادا اور محروم طبقات کی ترجمانی کریں۔

س :آزادیٔ کشمیر کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں جَھیلنے والےحریّت پسند رہنما، یٰسین ملک سے کیسے ملاقات ہوئی ، ان سے رشتۂ ازدواج میں کب اور کیا سوچ کر منسلک ہوئیں؟

ج : مجاہدِ آزادی ، یٰسین ملک سے میری پہلی ملاقات 2005ء میں تب ہوئی تھی، جب اُس وقت کے صدرِ پاکستان، جنرل پرویز مشرّف کی زیرِ نگرانی امن عمل جاری تھا ۔ اس موقعے پر حریّت پسند رہنماکے اعزاز میں اسلام آباد کے پنجاب ہائوس میں ایک بہت بڑا عشائیہ منعقد کیا گیا، جس میں پاکستان مسلم لیگ کی رہنما ہونے کے ناتے میری والدہ کو بھی مدعو کیا گیا اور مَیں نے اُن کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کی۔ اس دوران یٰسین ملک نے اُن 15لاکھ دست خطوں کی بھی نمایش کی، جو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جمہوری طریقے سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی پر مبنی مؤقف پر لیے گئے تھے۔ چُوں کہ ہمارا خاندان مجاہدینِ آزادی کی بڑی عزّت کرتا تھا ، میری والدہ ان سے مستقل رابطے میں رہتی تھیں اور مُجھے بھی یہ صفات ورثے میں ملی تھیں، لہٰذا میرے لیے تو اس تقریب میں شرکت کرنا خوابوں کی تعبیر ملنے کے مترادف تھا۔ پھر جب مَیں نے یٰسین ملک کی وہ تقریر سُنی، جس میں انہوں نے فیض احمد فیض کی مشہورِ زمانہ نظم،’’ ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے…لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ پڑھی تھی، تو میرے دِل میں اُن کی قدر و منزلت کچھ اور بھی بڑھ گئی۔ تقریب کے اختتام پر مَیں نے اور والدہ نے وہاں موجود تاثراتی کتاب میں تاثرات کے علاوہ اپنے ای میل ایڈریسز بھی درج کیے۔ بعد ازاں، پاکستان سے روانگی سے قبل یٰسین ملک نے فون پر میری والدہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مجھ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ سلام دُعا کے بعد انہوں نے پاکستانیوں کے بارے میں تعریفی کلمات ادا کیے اور پھر مُجھے شادی کی پیش کش کر دی۔ یہ سُن کر مُجھے ایک جھٹکا سا لگا، کیوں کہ اس سے پہلے میری کبھی اُن سے بات تک نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی مَیں نے کبھی اُن کی رفیقِ حیات بننے کا تصّور کیا تھا۔ مَیں تو اُن کی اَن تھک و طویل جدوجہد کے بارے میں سوچ کر ہی حیرت میں ڈُوب جاتی تھی ۔ تاہم، جب مَیں نے اُن کی شادی کی پیش کش پر ٹھنڈے دِل و دماغ سے غور کیا، تو خیال آیا کہ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں اور پھر میرا اس بات پر بھی پُختہ ایمان ہے کہ تقدیر کا لکھا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ سو، مَیں نے ہاں کر دی۔

س :جب آپ کے شریکِ حیات پر تشدّد کیا جاتا ہے، انہیں جسمانی و ذہنی اذیّتیں دی جاتی ہیں، تو آپ کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ ان کرب ناک لمحات میں جذبات کا اظہار کرتی ہیں یا پھر تحریکِ آزادی کی خاطر اپنا غم بُھول کر دیگر مظلوم کشمیریوں کی تڑپ کا سوچ کرعزم وحوصلہ پاتی ہیں؟

ج : اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ میرے خاوند کی زندگی عام مَردوں سے قطعاً مختلف ہے۔ وہ قید و بند کی صعوبتیں اور مَیں اور میری بیٹی اُن کی طویل جُدائی برداشت کر رہی ہیں، لیکن یہ میرے لیے بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ مَیں ایک نیک مقصد کی خاطر جدوجہد کرنے والے ایک جرّی و بہادر شخص کی رفیقِ حیات ہوں ۔ مَیں اللہ کا شُکر ادا کرتی ہوں کہ میری زندگی کا اِک اِک پَل مظلوم کشمیری قوم کے لیے وقف ہے اور اس نے مُجھےبھارتی مظالم کے ستائے کشمیریوں کی دُنیا بَھر میں نمایندگی کا موقع دیا۔ یٰسین ملک کی پوری زندگی آزادی کے لیے تگ و دو کرتے، اذیّت سہتے گزری ہے۔ اُن کے جسم کا شاید ہی کوئی حصّہ ایسا ہو، جس پر بھارتی فوج نے تشدّد نہ کیا ہو۔ جب مُجھےاپنے شوہر پر ہونے والے مظالم کی اطلاع ملتی ہے، تو میری رُوح تک کانپ اُٹھتی ہے ۔ مَیں سجدے میں گر کر شوہر کی سلامتی کی دُعائیں مانگتی ہوں۔ گرچہ اس موقعے پر میری والدہ اور خاندان کے دوسرے افراد ہمّت افزائی کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود مَیں جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتی۔ تاہم، میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی معصوم بیٹی کے سامنے پریشانی کا اظہار نہ کروں، کیوں کہ وہ بھی میری طرح کافی حسّاس ہے اور کسی کو دُکھ میں دیکھ کر کھانا پینا چھوڑ دیتی ہے۔ اس کی خاطر بھی مَیں خود کو مضبوط ظاہر کرتی ہوں۔ پھر یٰسین ملک بھی مُجھے رونے سے منع کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہم ایک نیک مقصد کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ہم کشمیری قوم کی اُمنگ، آواز ہیں، لہٰذا ہمیں انہیں افسردہ یا بد دِل نہیں کرنا چاہیے۔

آزادی کشمیر کا بوجھ خواتین پر یے، مشال ملک
شوہر اور بیٹی کے ساتھ

س :آپ آزادیٔ کشمیر کے لیے اپنا کردار کس طرح ادا کر رہی ہیں اور کیا شوہر سے رابطہ رہتا ہے؟

ج :مَیں مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان سمیت پوری دُنیا میں مقبوضہ کشمیر کے عوام، بالخصوص خواتین اور بچّوں کی آواز پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اسی وجہ سے چند برس قبل جیل میں یٰسین ملک سے ملاقات کے لیے جاتے ہوئے بھارتی فوج نے مُجھے اور میری بچّی کو قتل تک کرنے کی کوشش کی۔ مَیں ہر پلیٹ فارم پر کشمیری قوم کی امنگوں کی نمایندگی کرتی ہوں کہ آزادی، کشمیریوں کا جمہوری حق ہے اور مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متّحدہ کی قراردادوں کی روشنی ہی میں حل ہونا چاہیے۔ مَیں اب تک پاکستان کے سیکڑوںتعلیمی اداروں میں کشمیریوں کی آواز پہنچا چُکی ہوں۔ اس کے علاوہ مَیں نے کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دلانے کے لیے ایک دستخطی مُہم کا بھی آغاز کیا ہے۔نیز، ای میلز بھیجنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ مَیں نے ای میلز ہی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں جاری نسل کُشی پریو این او کے ہیومن رائٹس کمشنر اور سیکریٹری جنرل کی توجّہ مبذول کروائی۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر یہ باور کروا رہی ہوں کہ مسئلہ کشمیر کا حل علاقائی سلامتی و ترقّی کے لیے ناگزیر ہے ، مگر جنگ مسئلے کا حل نہیں۔ اس سلسلے میں مَیں کئی بین الاقوامی سیمینارز میں شرکت کر چُکی ہوں۔ کچھ عرصہ قبل مُجھے ناروے کے سابق وزیرِ اعظم اور نوبیل پِیس پرائز کی ٹیم کے کلیدی رُکن، بونڈے وِک نے اپنے مُلک میں مدعو کیا ۔ اس موقعے پر مَیں نے نہ صرف نارویجن حُکّام کے سامنے کشمیری عوام، بالخصوص کشمیری خواتین کی ابتر صورتِ حال پر تفصیلی روشنی ڈالی، بلکہ اُن سے مقبوضہ جمّوں و کشمیر کے دورے کی بھی اپیل کی، جس کے نتیجے میں کم و بیش 7سال بعد ایک طاقَت ور وفد بونڈے وِک کی سربراہی میں مقبوضہ کشمیر گیا۔ اس وفد نے سیّد علی گیلانی اور میر واعظ عُمر فاروق سمیت دیگر حریّت پسند رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں، لیکن یٰسین ملک کے جیل میں ہونے کی وجہ سے اُن سے ملاقات نہ ہو سکی۔ مزید برآں، مَیں نے ملائیشین حُکّام سے بھی ملاقاتیں کیں اور اب کشمیری قوم کو ملائیشیا کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ مَیں مسئلہ کشمیر اور بھارتی مظالم کو پوری دُنیا کے سامنے اُجاگر کرنا چاہتی ہوںاور اس مقصد کے لیے ہر ممکن حد تک کوشش کرتی رہوں گی۔ ازدواجی زندگی کے حوالے سے بات کی جائے، تو حریّت پسند رہنما کے ساتھ میری شادی کو 10برس ہونے والے ہیں، لیکن ہم نے صرف 60روز اکٹھّے گزارے ہیں۔ ایک عورت کے لیے یہ ایک بہت بڑی قربانی ہوتی ہے۔ پھر میری بیٹی بھی اب بڑی ہوتی جا رہی ہے اور وہ بھی اپنے والد کی کمی بہت زیادہ محسوس کرتی ہے، لیکن اس کے باوجود اپنی مظلومیت کا پرچار کرنے کی بہ جائے مَیں خود کو مجاہدِ آزادی کے طور پر پیش کرتی ہوں۔

س :مسئلہ کشمیر نے مقبوضہ کشمیر کی خواتین پر کیا اثرات مرتّب کیے ہیں؟

ج :سیاہ قوانین کے تحت بھارتی فوج کو حاصل بے لگام اختیارات کے سبب اس وقت کشمیری خواتین ہی سب سے زیادہ غیر محفوظ اور مجروح ہیں۔  آج نہ صرف کشمیری عورت کی عِصمت غیر محفوظ ہے، بلکہ شوہر، بھائیوں اور جوان بیٹوں کی شہادت اور لاپتا ہونے کی وجہ سے تحریکِ آزادی چلانے، بچّوں کی پرورش اور اہلِ خانہ کی کفالت کا بوجھ بھی اُس پر آن پڑا ہے۔ اس وقت ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں کشمیری مَرد غائب ہیں۔ لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا سارا بوجھ خواتین پر ہے۔

س :مجموعی طور پر دنیا بھر میں عورت ظلم و ستم، عدم مساوات کا شکار ہے۔ طبعاً، فطرتاً کم زور، حسّاس، زُود رنج ہونے کے سبب ستائی بھی جاتی ہے اور خود ستائی کا بھی شکار ہے، مگر ایک ایسی کشمیری عورت، جو پیدایش سے آج تک ایک دہکتی دوزخ میں سانس لے رہی ہے، اُس کے احساسات، جذبات کیا ہیں؟

ج : ایک دَور ایسا بھی تھا کہ جب دُنیا کے ایک بڑے حصّے میں خواتین کو مساوی حقوق حاصل نہیں تھے، جس کے لیے بڑی جدوجہد کی گئی، جب کہ اسلام نے سب سے پہلے خواتین کو عزّت و احترام دیا۔ بھارت کی مسلّط کردہ جنگ کی وجہ سے کشمیری عورت ہی سب سے زیادہ مسائل کی شکار ہے۔ اُسے مختلف جسمانی و نفسیاتی امراض کا سامنا ہے۔ مہینوں کرفیو نافذ رہنے کی وجہ سے کشمیری طالبات درس گاہوں میں نہیں جا سکتیں، جس کی وجہ سے اُن کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ پیلٹ گن کا پہلا ہدف بھی ایک 13سالہ طالبہ، انشا تھی، جب کہ دُنیا میں پیلٹ گن کا نشانہ بننے والی سب سے کم عُمر بچّی، ہبیٰ بھی کشمیری ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیری عورت کن حالات میں زندگی گزار رہی ہے، لیکن یکے بعد دیگرے رونما ہونے والےلرزہ خیز واقعات کے باوجود اُس کا عزم غیر متزلزل ہے۔

س :کیا ’’کشمیر کی بیٹی‘‘ آزادی کے خواب کے سوا بھی کوئی سپنا دیکھتی ہے؟

ج :آزادی اور حقِ خود ارادیت پوری کشمیری قوم کا خواب ہے۔ صرف کشمیری عورت ہی نہیں، بلکہ مَرد، بچّے اور بزرگ بھی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ تاہم، اگر تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو پتا چلتا ہے کہ ڈوگرا راج کو سب سے پہلے مائیسوما کی خواتین نے للکارا تھا اور اس جُرم کی پاداش میں بہت سی عورتیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی گئی تھیں۔ یعنی تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے اور اس وقت بھی اَن گنت خواتین مختلف انداز میں مَردوں کے شانہ بہ شانہ اس تحریک کی قیادت کر رہی ہیں۔

آزادی کشمیر کا بوجھ خواتین پر یے، مشال ملک
بھارتی مظالم کے خلاف مظاہرے میں منہ پر سیاہ پٹّی باندھ کر اور کبوتر آزاد کر کے کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کررہی ہیں

س :جنگیں عورتوں اور بچّوں پر ہر اعتبار سے منفی اثرات مرتّب کرتی ہیں، مگر وہ بچّے جو آنکھ ہی غلامی، ظلم و تشدد، سفّاکی و بربریّت، جنگ کے ماحول میں کھولیں، کیا وہ کبھی بھی عام انسانوں کا سا برتائو کر سکتے ہیں؟

ج: مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں گزشتہ 70برس سے جنگ جاری ہے اور یہ ایک بہت طویل عرصہ ہے۔ کشمیریوں کو روزانہ ہی اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھانا پڑتی ہیں اور یہ واقعات رُوح تک کو ہِلا کر رکھ دیتے ہیں۔ دہائیوں سے جاری یہ کُشت و خوں نہ صرف کشمیری خواتین اور بچّوں کی رُوحیںچَھلنی کر رہا ہے، بلکہ اس کے اثرات اگلی نسلوں تک بھی منتقل ہو رہے ہیں۔

س :کشمیر کی حد درجہ ہُنر مند عورت کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں؟ یہ دُنیا کی مظلوم ترین عورت ظلم سہتے سہتے ’’بانجھ‘‘ تو نہیں ہو گئی؟

ج : کشمیر ی خواتین دُنیا کی بہادر ترین عورتیں ہیں۔ یہ اپنے سائبان چِھن جانے پر تنِ تنہا اپنی بقا اور آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ جرأت مند خواتین مَردوں کی غیر موجودگی میں اپنے اہلِ خانہ کو بھارتی فوج کی سفّاکیت سے بچائے رکھتی ہیں اور جنسی ہراسانی و عِصمتیں لُٹنے کے خطرات کے باوجود گھروں سے نکل کرتعلیمی اداروں اور ملازمتوں پر جاتی ہیں۔ پھر اس وقت لاپتا افراد کی تحریک کی قیادت بھی خواتین ہی کر رہی ہیں اور اپنے پیاروں کی تلاش میں کبھی جیلوں تو کبھی عدالتوں کے دھکے کھاتی پِھر رہی ہیں۔مگر آسیہ اندرابی اور مجھ سمیت دوسری خواتین کی کاوشوں کی وجہ سے کشمیری صنفِ نازک کی شعوری سطح خاصی بلند ہوئی ہے اور انہوں نے خود کو ایک مظلوم عورت ثابت کرنے کی بہ جائے اپنی قربانیوں کے ذریعے خود کو جدوجہد کے استعارے کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔

س :اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف این جی اوز انسانی حقوق کے لیے جگہ جگہ آواز بلند کرتی نظر آتی ہیں، لیکن کیا کبھی کسی این جی او نے کشمیری خواتین کے لیے بھی آواز اٹھائی اور اگر ایسا کیا، تو اس کے کیا نتائج سامنے آئے؟

ج: پاکستان اور آزاد کشمیر کی این جی اوز ظلم و ستم کی شکار کشمیری خواتین اور بچّوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں اور میراان سے مستقل رابطہ رہتا ہے، لیکن یہ سب کافی نہیں۔ ان این جی اوز کو ایک جنگ زدہ علاقے کے بچّوں اور خواتین کی حالتِ زار پر ریسرچ کرنے اور اسے مختلف سیمینارز میں مؤثر انداز میںاُجاگر کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ آج اقوامِ عالم خواتین کی اہمیت جان چُکی ہیں اور اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ صنفِ نازک کو مساوی حقوق اور اختیار دیے بغیر طویل المدّت ترقّی و خوش حالی ممکن نہیں۔

س :مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ، محبوبہ مفتی نے ایک خاتون ہونے کے ناتے مجبور و مقہور کشمیری خواتین کے لیے کیا خدمات انجام دیں؟

ج: مُجھ سمیت کوئی بھی کشمیری مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں ہونے والے ڈھونگی انتخابات کو تسلیم نہیں کرتا، کیوں کہ اس غیر جمہوری طریقے سے جو اسمبلی اور حکومت وجود میں آتی ہے، وہ اقتدار کے بُھوکے افراد پر مشتمل ہوتی ہے اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پُتلی حکومت، چاہے اس کی قیادت محبوبہ مفتی یا عُمر عبداللہ سمیت کسی فردکے بھی پاس ہو، بھارتی حکومت کی ایما پر صرف ڈریکولائی قوانین اور بھارتی فوج کے مظالم کو تحفّظ فراہم کرتی ہے ۔ کٹھ پُتلی حکومت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ بھارتی فوج کس طرح کشمیری عوام کے گھروں، دُکانوں ، فصلوں کو جلا رہی ہے ، کس طرح ان پر گولیوں، چَھرّوں، فاسفورس شیلز کی برسات کر رہی ہے اور نہ وہ ان ظالمانہ کارروائیوں پر فوج سے کوئی باز پُرس کرتی ہے۔ ایسے سیاست دان کشمیریوں کے لہو کی قیمت پر پارلیمنٹ اور اقتدار تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔

س :حالیہ پلوامہ واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خواتین پر ظلم و ستم کے واقعات میں کتنا اضافہ ہوا؟

ج :پلوامہ واقعے کے بعد نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریّت میں اضافہ ہوا، بلکہ بھارت میں موجود کشمیری مسلمانوں پر بھی تشدّد کیا جا رہا ہے، انہیں ستایا جارہا ہے اور ان کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی اور مودی سرکار اپنی نفرت انگیز تقاریرو بیانات کے ذریعے مذہبی منافرت کو بڑھاوا دے رہی ہے، جس سے خود بھارت کو نقصان پہنچے گا، کیوں کہ اس کے نتیجے میں دُنیا بَھر میں بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے اور دُنیا پر یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ کشمیری قوم دُنیا کی مظلوم ترین قوم ہے، جسے 8لاکھ ظالم بھارتی افواج نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ دوسری جانب پلوامہ واقعے کے بعد بھارتی فوج نے کشمیری مائوں کو یہ کہہ کر دھمکانا شروع کر دیا ہے کہ وہ اپنے بچّوں کو جدوجہدِ آزادی سے دُور رکھیں، ورنہ انہیں خوف ناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مَیں سمجھتی ہوں کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اقوامِ متّحدہ ،کشمیر میں دہائیوں سے جاری مظالم کو روکے اور کشمیریوں کو اُن کا آزادی کا پیدایشی حق دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

س :عالمی یومِ خواتین پر صنفِ نازک کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: مَیں نے اقوامِ متّحدہ کے خواتین سے متعلق آرٹیکل پر کافی تحقیق ہے۔ اس میں یہ مذکور ہے کہ دُنیا میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی تب تک پوری دُنیا ترقّی کی شاہ راہ پر گام زن ہو سکتی ہے کہ جب تک عورت کو مساوی طور پر آزادی و خود مختاری حاصل نہیں ہوتی، کیوں کہ جب تک عورت کو فیصلہ سازی کا اختیار نہیں ملتا، اس وقت تک دُنیا میں طویل المدّت سلامتی، استحکام اور خوش حالی نہیں آسکتی اور اس کا سبب یہ ہے کہ دُنیا میں عورت کی آبادی کا تناسب زیادہ ہے۔ مَیں خواتین کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر انہیں فیصلہ سازی کا اختیار نہیں دیا جاتا، تو وہ اپنا ایک الگ پلیٹ فارم بنائیں اور اس کے ذریعے پوری دُنیا میں اپنا کردار ادا کریں۔ خواتین چاہے جہاں کہیں بھی ہو، انہیں اپنی ایک منفرد شناخت ضرور بنانی چاہیے اور حالات و واقعات پر اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہیے۔ خود مختار خواتین کم زور، ڈری سہمی اور غیر تعلیم یافتہ عورتوں کی ہمّت افزائی کریںاور اُن کی آواز اور سہارا بنیں۔ اگر خواتین متّحد ہوں گی، تو دُنیا بَھر میں اُن کی شنوائی ہو گی، کیوں کہ اتحاد بہت بڑی طاقت ہے۔ میں خواتین سے درخواست کرتی ہوں کہ اگر کوئی عورت بلندی کی منازل طے کر رہی ہے، تو اس کے راستے میں روڑے اٹکانے کی بہ جائے اُس کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ اسی طرح مَیں کام یاب خواتین کو بھی یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ اگر وہ محروم عورتوں کے لیے صدائے احتجاج بلند کریں اور اُنہیں حقوق دلوانے کے لیے آگے آئیں، تو یہی یہ ان کی اصل کام یابی ہو گی اور اس سے انہیں دِلی طمانیت بھی حاصل ہو گی۔

تازہ ترین