• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُکھ سُکھ ہی نہیں، حقوق، سہولتیں اور مواقع بھی آدھے آدھے ہونے چاہئیں

’’دیکھو تو ذرا! بیٹی کواکیلے کوچنگ سینٹر بھیج دیا، حالاں کہ سب کو پتا ہےآج کل ماحول کتنا خراب ہے… پڑوس کی لڑکی رات گئے نوکری سے واپس آتی ہے، پتا نہیں کیسے بے ضمیر والدین ہیں، جو جوان بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں…اسلم کی بیوی نے ملازمت کرلی ہے، تاکہ گھر چلانے میں شوہر کی مدد کرے اور بچّوں کوتعلیم دِلواسکے۔دیکھ لیں، ایسے بھی نکمّے شوہر ہوتے ہیں، جن کی تن خواہ پوری نہیں پڑتی، تو بیویوں کو کمانے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔‘‘بِلا شبہ ،زیر ِ نظر سطور ہمارے معاشرے کے مجموعی رویّے کی عکّاس ہیں۔ کہنے کو تو زمانہ بہت ترقّی کر چکا ، ہم اِکّیس وِیں صدی کے انیس وَیں سال میں قدم رکھ چُکے ، پوری دُنیا ٹیکنالوجی اور جدّت کے زیر ِ اثر ہے۔تاہم ، اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود ، آج بھی جہاں تبدیلی نظر نہیںآتی، وہ کچھ لوگوں کی فرسُودہ ، لغوسوچ ہے۔ اتنی بوسیدہ سوچ کہ لڑکیوں کی تعلیم کے توخلاف ہیں، مگر بیوی کا علاج کروانے کے لیے لیڈی ڈاکٹر ہی تلاش کرتے ہیں۔لیکن پانچوں اُنگلیاں کبھی برابر نہیں ہوتیں، جہاں معاشرے میں فرسُودہ سوچ کے حامل افراد کی کمی نہیں، وہیں ایسے لا تعداد افراد بھی موجود ہیں، جو اپنی بیٹیوں کے پَر نہیں کاٹتے، بلکہ اُنہیں اونچی اُڑان بھرنے کا بھر پور موقع فراہم کرتے ہیں۔ مشہور مثل ’’ایک کام یاب مَرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘ تو زبان ِزد ِ عام ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی تعلیم یافتہ اور کام یاب عورت کے پیچھے بھی اُس کے باپ، بھائی اور شوہر کا وہ غیر متزلز ل اعتماد اور یقین ہوتا ہے، جو اُسے زمانے کی تلخیوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ تب ہی تو آج کی عورت پُر اعتماد ، پُر جوش اور ہر فَن مولا ہے، گول روٹی بناسکتی ہے ، تو دفتر ی معاملات بھی بہ خُوبی سنبھالتی ہے، مگر پھر بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اور جب ہم ایک کام یاب عورت کی بات کرتے ہیں، تو اِس کاہر گزیہ مطلب نہیں کہ ہم صرف ملازمت پیشہ یا اعلیٰ عُہدوں پہ فائز خواتین کا ذکر کر رہے ہیں ، بلکہ ان میںوہ تمام خواتین بھی شامل ہیں، جو گھریلو ہیں، کیوں کہ ہمہ وقت گھریلو اُمورکی نگرانی بھی کسی کُل وقتی ملازمت سے کم نہیں۔

بہر حال ،یہ بات مسلّمہ ہے کہ معاشرتی سوچ میں تبدیلی کے آثار اُسی وقت نمایاں ہوں گے، جب صنفی مساوات کے لیے مسلسل کوششیں کی جائیںگی۔2017ءکی مَردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 49 فی صد حصّہ خواتین پر مشتمل ہے، اس کے باوجود یہ طبقہ اپنے بنیادی حقوق تک سے محروم ہے۔ گرچہ آئین ِپاکستان میں حقوق ِ نسواں کے تحفّظ کی ضمانت دی گئی ہےاور اس حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں، مگر اِن پر عمل دَرآمد نہ ہونے کے باعث خواتین آج تک استحصال کا شکار ہیں ۔اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ صرف پاکستانی خواتین ہی حقو ق کی پامالی اور استحصال کا شکار نہیں ، بلکہ مغرب میں بھی کم و بیش ایسے ہی حالات ہیں۔وہاں بھی صنفی امتیاز کسی نہ کسی صُورت موجود ہے، تب ہی ہر سال8 مارچ کو مختلف تھیمز کے ساتھ باقاعدہ ’’عالمی یوم ِ خواتین‘‘ منایا جاتا ہے۔ در اصل8 مارچ 1907 ءکوامریکا کے شہر ،نیویارک میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں 10گھنٹے کام کرنے والی سیکڑوںخواتین نےاوقات ِکار میں کمی، اُجرت میں اضافےاورعدم مساوات کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ انہیں بھی مَردوں کے برابر حقوق دئیےجائیں، تو پولیس نے ان پر وحشیانہ تشدّد کیا، ان کے خلاف نہ صرف گُھڑسوار دَستوں نے کارروائی کی، بلکہ کئی خواتین کو گرفتار بھی کیا گیا، لیکن انہوں نے جَبری مشقّت کے خلاف تحریک اور احتجاجی مظاہرے جاری رکھے۔ اوراسی واقعے کے بعد سے یورپی ممالک میں ہر سال’’ عالمی کانفرنس برائے خواتین ‘‘کا انعقاد کیا جانے لگا ، جس میں خواتین کے اہم مسائل پر بات کی جاتی۔سب سے پہلے 1909 ء میں ’’سوشلسٹ پارٹی آف امریکا‘‘ نے عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظور کی اور پہلی بار اسی سال 28 فروری کو امریکا بھر میں خواتین کا دن منایا گیا۔اس کے بعدسے 1913 ء تک ہر سال فروری کے آخری اتوار کو عورتوں کا دن منایا جاتارہا۔1910ء میں کوپن ہیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس منعقدہوئی، جس میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کلارا زیٹکن نے دُنیا بھر میں ہر سال خواتین کا دن منانے کی تجویز پیش کی ،جسے کانفرنس میں شریک 17 ممالک کی 100 خواتین شرکا نے متّفقہ طور پر منظور کر لیا۔ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں مارچ 1911ء کو پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔پھر 1913 ء میں پہلی بار روس میں خواتین کا عالمی دن منایاگیااوراسی سال سے8 مارچ کوخواتین کے دن کے طور پر مخصوص کر دیا گیا۔’’عالمی یوم ِخواتین‘‘ کے پس ِمنظر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانیں کسی خاص خطّےسے وابستہ نہیں۔ مغربی ممالک خواتین کو اُن کے حقوق فراہم کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن وہاں بھی حقوق اور آزادی کے نام پر خواتین کو صرف مَردوں کےمدّ ِ مقابل ہی کھڑا کیا گیا ، جب کہ حقوق کا مقصد و مطلب مقابلہ نہیں ،’’مساوات‘‘ ہے۔ وطن ِ عزیز کی بات کی جائے، توا س کا شمار، اُن ممالک میں ہوتا ہے ،جہاں خواتین کے حقوق کی صورت ِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ’ ’گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018ء ‘ ‘میں پاکستان کواس حوالے سے 149 ممالک کی فہرست میں 148 ویںنمبر پر رکھا گیا ہے۔2006 ء سےہر سال شایع ہونے والی اِس رپورٹ میں دُنیابھر کے ممالک میںصنفی تفریق کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ہر ملک کی چار شعبوں میں (خواتین کے لیے اقتصادی مواقع کی فراہمی، تعلیمی کارکردگی، صحت اور سیاسی اختیارات کی فراہمی)کارکردگی کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔اِس رپورٹ کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک میں پاکستان آخری نمبر پر ہے۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر دُنیا نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے، تو مَرد اور عورت کے درمیان موجود محض تن خواہوں کے فرق کو پُرہونے میں 100 سال سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔یاد رہےبین الاقوامی سطح پربھی اعلیٰ عُہدوں پر فائزخواتین کی تعدادصرف35 فی صد ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس سال دُنیا بھر میںعالمی یوم ِ خواتین، ’’Balance for better‘‘ کے تھِیم کے تحت منایا جائے گا، کیوں کہ جب تک صنف ِ نازک اور صنف ِ قوی کو ہر اعتبار سےیَک ساں سہولتیں، مواقع حاصل نہیں ہوں گے،تب تک ایک ترقّی یافتہ معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔اِس حوالے سے ہم نے مُلک کی چند نام وَر خواتین سے بات چیت کر کے اُن کی رائے جاننے کی بھی کوشش کی، تو جواباً کچھ اس قسم کی آراء سامنے آئیں۔

معروف میزبان ،سابق رُکن صوبائی اسمبلی، مہتاب اکبر راشدی کا کہنا ہے کہ ’’صرف ہمارے یہاں ہی نہیں،مغرب میں بھی خواتین استحصال کا شکار ہیں۔ بہر حال، ہم مسلمان ہیں، اپنے مذہب ، اسلامی تعلیمات پر بہت فخر کرتے ہیں کہ اِسلام مساوات کا دَرس دیتا ہے، لیکن کچھ نام نہادوں نے اسے اپنے مفادات کے تابع کر لیا ہے۔ رسوم ورواج کو دین کا نام دے دیاگیا ہے۔اسی لیے ہماری خواتین برس ہا برس سےعدم مساوات کا شکار ہیں۔ پہلےلوگوں میں آگہی کا فقدان تھا، ابلاغ ِ کے ذرایع کم تھے ،بہت سی باتیں سامنے ہی نہیں آتی تھیں، لیکن اب جدید ٹیکنالوجی کا دَور ہے، توسب کچھ صاف صاف سامنے آجاتا ہے۔ انتخابات لڑنے ، اسمبلیوں میں جانے کے لیےبھی خواتین اپنی پارٹیوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔اُنہیں ٹکٹ دینے نہ دینے کا فیصلہ اہلیت پر نہیں، ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔جس جمہوریت پر ہم اتنے نازاں ہیں، اُس میں خواتین کی جدّو جہد کو سامنے ہی نہیں لایا جاتا۔لایا بھی جاتا ہے تو تب ،جب اُسے کیش کروانا ہوتا ہے، جیسے پولنگ ایجنٹس بنانے کے لیے، جلوس ،ریلیاں نکالنے کے لیے۔پھر جو خواتین اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہیں، قانون سازی میں اُن کی شمولیت برائے نام ہے۔قیام ِ پاکستان سے آج تک سندھ کی عورت کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،لیکن اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ نا سمجھ ، کم عقل ہے۔مائی بختاور ہی کی مثال لیجیے، وہ تعلیم یافتہ نہیںتھی، مگر ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک اَن پڑھ عورت میں بھی ظلم و جبر کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمّت ہوتی ہے، لیکن میرا سوال معاشرے سے ہے کہ وہ اُس کا ساتھ کیوں نہیں دیتا؟عورت کا سب سے بہترین رُوپ ماں کا ہے، تو اُسے چاہیے کہ وہ اس رُوپ میںاپنےبیٹےکو ایسی تربیت دے کہ وہ ہر عورت کی عزّت کرے، کبھی عورت کے حقوق پامال کرنے کا تصوّر بھی نہ کرے۔وہی معاشرے مہذّب کہلائے جانے کے لائق ہیں، جن میںخواتین کو مَردوں کے برابر حقوق ، عزّت، تحفّظ اور انصاف حاصل ہے۔آج کے دَور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ غیرت کے نام پرسرِ بازار لڑکی کو ماردیا جاتا ہے ۔یہ بیٹے اور بیٹی کے درمیان فرق کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ معاشرہ ترقّی نہیں کر پا رہا۔ اپنے گھروں میں دیکھ لیں، تعلیم کے میدان میں لڑکیاں، لڑکوں سے کہیں آگے ہیں۔کون سا شعبہ ہےجہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا رہیں۔مگر مَردوں کے اس معاشرے میں پھر بھی اُنہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ مغرب میں خواتین و مَرد دونوں مل کر نہ کمائیں، تو گھر نہیں چلتا۔ آج یہ تھیوری ہمارے معاشرے پر بھی لاگو ہوچکی ہے۔نیز، اب غیرت کے تصوّر کوبھی واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے،صرف اِک نعرۂ آزادی بَلند کرنے سے کچھ نہیں ہوگا ، عملی مظاہربھی ضروری ہیں۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے کئی قوانین وضع کیے گئے مگر اُن کا اطلاق بھی ہونا چاہیے اور صرف 8 مارچ ہی کو خواتین کے حقوق و مساوات کی بات نہیں کی جائے بلکہ ہر دِن اُن کاتحفّظ ہونا چاہیے۔‘‘

ممتاز ماہرِقانون، جسٹس (ر)ناصرہ جاوید اقبال نے اس حوالے سے کہا، ’’ایسا نہیں ہے کہ گزشتہ 60-70برسوں میں خواتین کی حالت تبدیل نہیںہوئی۔ اُن کے حالات میں بہتری آئی ہے اور ایسا صرف اس لیے ممکن ہواہے، کیوںکہ اُن کے حقوق کے لیے بات کی جاتی ہے۔ ہراساں کرنے کے خلاف بھی قانون بن چکا ہے، دیگر کئی قوانین بھی موجود ہیں اور اُن پر عمل در آمد بھی ہورہا ہے۔ لوگوں کی سوچ بھی بدلی ہے،مگر جب تک ہم مکمّل طور پر مساوات کے قائل نہیں ہوجاتے، ایک متوازن معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں۔‘‘

آرٹ کی دُنیا کا معروف نام، سابق پرنسپل آف نیشنل کالج آف آرٹس ،سلیمہ ہاشمی کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ’’ہمارے مُلک میں کچھ ’’بیلنس‘‘ ہے اور نہ ’’بَیٹر‘‘۔ خواتین کو سہولتیں فراہم کرنے، مساوی حقوق دینے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے، مگر مسئلہ یہ ہےیہاں قانون سازی ہو بھی جائے، تو اُس پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔بِلا شبہ ہمارےیہاں عورت، مَرد کے مقابل کم تَر ہے،اگر ایسا نہ ہوتا ، تو غیرت کے نام پر اتنی عورتیں قتل نہ کی جاتیں۔ مساوات ہوگی ، تب ہی معاشرہ اس قابل ہوگا کہ اِس کا شمار تہذیب یافتہ معاشروںمیں ہو سکے، لیکن فی الحال یہاں تہذیب کا ارتقا نہیں ہورہا۔پاکستانی عورت ،بالخصوص ’’گرل چائلڈ‘‘ پر آفریں ہے، جو سخت مشکلات ،مواقع کی عدم فراہمی ،نفرت و جنونیت کے اس ماحول میں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل کوشش کر رہی ہے۔‘‘

جماعت ِ اسلامی کی رہنما،سابق رکن قومی اسمبلی، اسلامی نظریاتی کاؤنسل، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا’’اللہ تعالیٰ نے جو دین ہمارے پاس بھیجا ،وہ مساوات پر مبنی ہے۔ اُس نے مَرد و عورت کے حقوق کا باقاعدہ تعیّن کیا۔ جنّت، دوزخ دونوں کے لیے ایک ہی بنائیں۔ اسلام سے زیادہ مساوات تو کسی مذہب میں ہے ہی نہیں۔ قرآن کا مطالعہ کریں، تو پتا چلتا ہے کہ بے شک مَرد و زن کے فرائض الگ، مگر حقوق یک ساںہیں۔ تاہم، ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھناچاہیے کہ خواتین کے حقوق کی بات کرنے کا مقصد اُنہیں مَردوں کے مدّ ِ مقابل کھڑا کرنا نہیں ۔ ہمیں مَرد نُما عورتیں نہیں چاہئیں، عورت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود میں وقار بخشا ہے۔ مَر دو زن برابر ضرورہیں، مگر ایک جیسے نہیں اور یہی دونوںا صناف کا حُسن ہے۔خواتین کو اُن کے حقوق، احترام، تحفّظ، محبّت ضرور ملنی چاہیےاورمیں ذاتی طور پرخواتین کی خُود مختاری پہ بھر پور یقین رکھتی ہوں،کیوں کہ مجھے یہ تحفّظ و اعتماد میرے والد اور شوہر سے ملا ہے۔‘‘

ممتاز سماجی کار کُن ، عورت فاؤنڈیشن کی روح ِ رواں، مہناز رحمٰن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’بیلنس فار بَیٹر ‘‘، بہت ہی اچھی تھِیم ہے، مساوات تو ہر لحاظ سے اَہم اور ضروری ہے۔ہمارے ہاں کچھ لوگ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہوئے انتہا پر چلے جاتے ہیں،تو مَرد و زَن ایک دُوسرے کے دُشمن نہیں ہیں۔دَر حقیقت توازن کی بات کرنی چاہیے، کیوں کہ اسی میںزندگی کا حُسن ہے۔ مَرد ،عورت دونوں انسان ہیں اور بہ حیثیت انسان دونوں کے حقوق برابر ہیں۔ کسی ایک کے ساتھ بھی نا انصافی ہوگی، تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوگا، یعنی ایسا نہ ہو کہ لڑکوں کو تو اعلیٰ تعلیم دلوائی جا ئےاور لڑکیوں کو بنیادی تعلیم تک سے محروم رکھا جائے۔ مَردوں کے لیے ہر سہولت میّسر ہو اور خواتین کے حصّے میں بچا کھچا آئے۔ ایسے معاشروں میں انارکی اوراضطراب ہی پیدا ہوتا ہے۔ عدم مساوات کا رویّہ چاہے کسی کے بھی ساتھ اپنایاجائے،وہ ظُلم کے مترادف ہےاور ہم ظالم کا ساتھ کبھی نہیں دے سکتے۔‘‘

تازہ ترین