• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر مجھے ایک بدعنوان اور ایک نااہل رہنما کے درمیان انتخاب کرنا پڑے تو میں سو فیصد ایک نااہل کا انتخاب کروں گا۔ کسی بھی رہنما کی بنیادی صف دیانت داری ہی ہوتی ہے لیکن بیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں یہ درست چوائس نہیں۔ ہمیں یہاں ایسے رہنمائوں کو تلاش کرنا ہے جو دیانت دار بھی ہوں اور ذہین بھی۔ موثر حکمرانی کے لئے ان دونوں خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔ تاریخ میں ہمارے کچھ حکمراں دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی تھے لیکن ان دونوں میں سے اکثر کسی ایک خوبی کا فقدان دکھائی دیا۔ ہمارے موجودہ وزیرِاعظم نے دو واضح لیکن مربوط موضوعات کو یک جان کرتے ہوئے اپنا سیاسی راستہ ہموار کیا ہے۔ یہ دونوں موضوعات بدعنوانی سے متعلق ہیں۔ پہلا، وہ اپنے سیاسی حریفوں پر بدعنوانی کا مسلسل الزام لگاتے رہتے ہیں۔ دوسرا، وہ اپنے لوگوں کو بتاتے نہیں تھکتے کہ اگر پاکستان میں ’’بے پناہ بدعنوانی‘‘ نہ ہوتی تو یہ ایک امیر ملک اورمثالی ریاست ہوتا، اور بسوں سے ہوائی جہازتک، اسکولوں سے اسپتالوں تک، گیس اور بجلی کی کمپنیوں اور پولیس تھانوں سے لے کر عدالتوں تک، ہر چیز بہترین انداز میں کام کر رہی ہوتی اگر اس میں بدعنوانی نہ ہوتی۔

پہلے وزیرِ اعظم عمران خان کے حریف سیاست دانوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ یہ الزامات کبھی بھی واضح اور دوٹوک نہیں رہے۔ پہلے ہم نے سنا کہ پنجاب اسمبلی کے موجودہ اسپیکر ایک ’’ڈاکو‘‘ ہیں لیکن یہ نہیں سنا کہ اُنھوں نے کون سے ’’ڈاکے‘‘ مارے ہیں۔ ہم نے بار ہا سنا کہ میاں نواز شریف نے بیرونی ممالک میں تین سو بلین چھپائے ہوئے ہیں (اُنھوں نے کبھی واضح نہیں بتایا کہ یہ رقم کس کرنسی میں ہے) لیکن ہمیں یہ کبھی پتہ نہیں چل سکا کہ نواز شریف نے کن مخصوص منصوبوں میں رشوت یا کک بیکس لی تھیں۔

شہباز شریف کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ اُنھوں نے اپنے ہر منصوبے میں بدعنوانی کی۔ نیب نے اُن کے خلاف تین کیسز کی تحقیقات کی ہے، صاف پانی، رمضان شوگر مل اور آشیانہ ہائوسنگ ا سکیم۔ اس پر ہائی کورٹ کا کیا کہنا ہے؟ اس نے شہباز شریف کو ان مقدمات سے بری کر دیا۔ یہ سب کچھ لوگوں کی نظروں کے سامنے ہوا ہے۔

سابق وزیر ِاعظم شاہد خاقان عباسی خوش قسمت ہیں کہ اُنہیں صرف ایل این جی اسکینڈل میں ملوث کیا گیا۔ اگرآپ پی ٹی آئی رہنمائوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ خاقان عباسی یقیناً قصوار ہیں لیکن اگر اُن سے پوچھیں کہ الزام دراصل ہے کیا تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔ بہرحال میں مسٹر عباسی کو خو ش قسمت قرار دیتا ہوں کہ جب ایک مرتبہ اُنہیں نیب ایل این جی کیس سے بری کردے گا تو اُن پر مزید کوئی الزام نہیں ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس طرح شفاف ہو کر نیب سے نکلیں گے گویا کہ اُنھوں نے پی ٹی آئی جوائن کر لی ہو۔ مطلب مکمل طور پرشفاف۔

عدالتوں سے بری ہونا ایک بات لیکن یہ بے بنیاد الزامات اور دروغ گوئی نقصان پہنچائے بغیر نہیں رہتے۔ دوسرے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان بدعنوانی کا راگ الاپتے ہوئے ہمیشہ سے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی ہے۔ اگر ہم صرف بدعنوانی پر قابو پالیں تو ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ وہ آن ریکارڈ کہتے رہے ہیں کہ جب وہ ایک مرتبہ تمام لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں گے تو ایک عشرہ تک کوئی ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی اورتمام اشیا کی قیمتیں نیچے آجائیں گی۔

اگر آپ کسی یوگی کے پاس جائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اُس کے پاس ہر مسئلے کا حل مراقبہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسئلۂ لوڈ شیڈنگ ہے یا اسلام آباد میں اچھی نہاری کی عدم دستیابی۔ اُس کے پاس حل ایک ہی ہو گا۔ مزید مراقبہ کریں۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی فکر ی شمع بھی اسی تیل سے روشن ہے۔ ہر مسئلے کا فی البدیہہ حل یہ ہے کہ اپوزیشن پر بدعنوانی کا الزام عائد کر دیں۔ مسلم لیگ (ن) اتنے بھاری قرضے کیوں لے رہی تھی؟ کیونکہ وہ بدعنوان تھی۔ پی ٹی آئی مزید قرضے کیوں لے رہی ہے؟ مسلم لیگ(ن) دور میں گیس اور بجلی مہنگی کیوں تھیں؟ کیونکہ مسلم لیگ (ن) بدعنوان تھی۔ پی ٹی آئی دور میں گیس اور بجلی مہنگی کیوں ہیں؟ کیونکہ مسلم لیگ (ن) بدعنوان تھی۔ لاہو ر میٹرو بس منصوبہ اتنا مہنگا کیوں تھا؟ کیونکہ مسلم لیگ (ن) بدعنوان تھی۔ پشاور میٹرو بس منصوبہ اتنا مہنگا کیوں ہے؟ کیونکہ مسلم لیگ (ن) بدعنوان تھی۔

کیا وزیرِاعظم کے نزدیک پاکستان اس لئےغریب نہیں کہ یہاں تعلیم کی کمی ہے یا ہم رٹا لگا کر سبق یاد کرنے کو تعلیم سمجھتے ہیں یا ہمارے ہاں خواتین معیشت میں عملی طور پر شریک نہیں ہیں، یا ہم نائن الیون کے بعد سے حالتِ جنگ میں ہیں یا ہمارے معاشی مرکز کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال ابتر تھی یا ہمارے لیگل سسٹم اور قانون نافذکرنے والے ادارے کمزور ہیں اور ان میں کئی عشروں سے اصلاحات نہیں لائی گئی ہیں یا ہمارے ہاں نسلی، لسانی اور مسلکی بنیادوں پر تفریق کی بہت سے لکیریں موجود ہیں وغیرہ۔ نہیں، پاکستان کے تمام مسائل کا سبب بدعنوانی ہے۔یقیناً کوئی بھی بدعنوانی کا جواز پیش نہیں کر رہا لیکن کیا ہمارے ملک کے تمام مسائل کا حل اسی ایک جادو کی چھڑی گھمانے میں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہمیں ان پیچیدہ مسائل کا ادراک نہیں ہو گا، ہم ان کے حل کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔ بدعنوانی ایک مسئلہ ہے مگر واحد مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں اور بہت سے افراد جن پر غلط الزامات لگائے گئے تھے، وہ عدالتوں سے بری ہو جائیں گے۔

لوگوں کو اس خوش فہمی میں رکھنا کہ صرف بدعنوانی کاخاتمہ ہوتے ہی تمام مسائل یک لخت غائب ہو جائیں گے، ایک خطرناک نفسیاتی الجھن کی طرح ہمارا پیر تسمہ پا بن چکا ہے۔ پاکستان کو ترقی کے لئے اس فکری دلدل سے نکلنا ہو گا۔ قوم کودکھائی گئی سنہری شاہراہ پر پہلے ہی دلدلی گھڑے نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ خوش فہمی کی رنگین عینک اتارنے میںہی دانائی ہو گی۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین