• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی طیارے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ کے علاقے ’’جابہ‘‘ تک پہنچنے کے بعد دُم دبا کر بھاگ نکلے۔ میری طرح بیشتر پاکستانی سخت تلملاہٹ کا شکار تھے۔ دل میں ایک کسک اور خلش سی تھی کہ بھارت کو سبق سکھانے کیلئے اُن میں سے ایک آدھ طیارہ ہم مار گرانے میں کامیاب ہو جاتے۔ چند احباب یہ عذر فراہم کرتے رہے کہ بھارتی جنگی جہازوں کے پاکستان میں قیام کا دورانیہ چار منٹ تھا اس لئے انہیں نشانہ بنانا ممکن نہ تھا۔ میری رائے مگر یہ تھی کہ 24نومبر2015ء کو ترکی کی مسلح افواج نے شام سے ملحق سرحد سے داخل ہونے والے روسی طیارے کو محض 17سیکنڈ میں زمین بوس کر دیا تھا تو ہماری باصلاحیت فضائیہ بھی بھارتی طیارے کو دھول چٹا سکتی تھی۔ بعض دوست یہ تاویل پیش کر رہے تھے کہ اس حکمت اور دور اندیشی کا پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا۔ اگر ہم طیارہ تباہ کرنے کی کوشش کرتے تو ممکنہ طور پر اس کا ملبہ بھارت میں جا گرتا اور ہمیں لینے کے دینے پڑ جاتے، اب ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر یہ معاملہ اٹھائیں گے اور بھارت کے جارحانہ طرزعمل کی شکایت کریں گے۔ میں چونکہ دیہاتی پسِ منظر کا حامل ہوں اس لئے میرے سامنے گائوں میں ہونے والی لڑائیوں کی فلم چلنے لگی۔ گائوں میں اگر کوئی اوباش دست درازی پہ اتر آئے تو کورٹ کچہری جانے سے پہلے موقع پر ہی حساب کتاب بے باق کر دیا جاتا ہے لیکن دھیمے مزاج کے مہذب لوگ لڑنے کے بجائے تھانے جا کر رپٹ لکھواتے ہیںمگر خلق خدا کے نزدیک ڈرپوک اور کمزور کہلاتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ہم بحیثیت ملک بھی جواب دینے کے بجائے محض شکایت لگانے پر اکتفا کریں گے تو کہیں شنوائی نہ ہو گی۔ جب افواجِ پاکستان کی طرف سے بھارت کو ’’سرپرائز‘‘دینے کی بات کی گئی تو تب بھی تشفی نہ ہوئی کیونکہ ان حالات میں کسی قسم کی مہم جوئی خطرے سے خالی نہیں اور اگر حالات موافق ہونے کا انتظار کیا جاتا تو ردعمل کی افادیت و اہمیت ہی ختم ہو جاتی۔ انہی خدشات میں رات بسر ہوئی۔ منگل اور بدھ کی درمیانی رات تمام ہوئی تو صبح سویرے ہی خبر مل گئی کہ افواجِ پاکستان نے نہ صرف سرحد کے پار 6بھارتی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے بلکہ دو بھارتی طیاروں کو بھی مار گرایا ہے اور اس کے علاوہ دو بھارتی پائلٹ بھی گرفتار کر لئے گئے ہیں۔

مسولینی نے کہا تھا، جنگ مرد کیلئے اتنی ہی تکلیف دہ ہے جتنا عورت کیلئے عملِ زچگی۔ میں کبھی جنگ کا پُرجوش حامی نہیں رہا اور ہمیشہ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی وکالت کرتا رہا ہوں۔ آج بھی میری رائے یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنے کے بجائے غربت اور جہالت کے خلاف لڑنا چاہئےلیکن یہ دو طرفہ عمل ہے، ہم ون وے ٹریفک نہیں چلا سکتے۔ البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ جنگ عظیم سوئم کن ہتھیاروں کے ساتھ لڑی جائے گی مگر ایک بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جنگ عظیم چہارم لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اب اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ ہوئی تو یہ کوئی روایتی لڑائی نہیں ہو گی بلکہ چوتھی عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی اور خدانخواستہ فتح کا جشن منانے والا کوئی نہ ہو گا لیکن جنگ کو روکنے کا طریقہ ہی یہی تھا کہ ہم بھارت کو بھرپور جواب دے کر یہ ثابت کرتے کہ ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ اگر پاکستان کی طرف سے اس موقع پر تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا جاتا تو یہ کمزوری اور پیٹھ دکھانے کے مترادف ہوتا اور ایسی صورت میں دوبارہ جارحیت اور پھر جنگ کے امکانات بڑھ جاتے۔ ہاں البتہ ہمیں اس بات پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ جب وقت قیام آتا ہے تو ہم سجدے میں کیوں گر جاتے ہیں اور جب لچک دکھانے اور دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا موقع ہوتا ہے تو ہم اپنی انا کے خول میں کیوں بند ہو جاتے ہیں؟ مثال کے طور پر چند ماہ قبل جب مودی کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی یا پھر کرتارپور کاریڈور کھول کر مثبت پیغام دیا گیا تو یہ درست موقع نہیں تھا ایسی فراخدالانہ پیشکش کا۔ بھارت میں اس سال چنائو ہے اور اسی لئے سرحدوں پر تنائو ہے۔ مودی سرکار اپنے سیاسی عزائم کے تحت کبھی بھی کوئی مثبت جواب نہیں دے گی۔

پاکستان کے بارے میں کبھی یہ تاثر تھا کہ یہ گھٹنوں تک شدت پسندی اور انتہا پسندی میں جکڑا ہوا ہے اور یہ تاثر غلط بھی نہیں تھا جبکہ بھارت کا تشخص ایک روشن خیال اور سیکولر ریاست کے طور پر موجود تھا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اب صورتحال یکسر اُلٹ گئی ہے۔ پاکستان بتدریج شدت پسندی کے گڑھے سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ نریندرمودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت شدت پسندی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور ریاست ہی نہیں بھارتی میڈیا کی جانب سے بھی انتہا پسندانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کا اظہار ہو رہا ہے۔ جب بھی پاکستان اور بھارت آمنے سامنے آتے ہیں تو ناصحین ڈراتے ہیں کہ بھارت بہت بڑا ملک ہے، آپ کا بھارت سے کوئی موازنہ نہیں، آپ کی معیشت بھارتی منڈی کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے کسی سومو پہلوان کے سامنے کوئی کم سن بچہ کھڑا ہو۔ یہ باتیں اعداد وشمار کے اعتبار سے درست ہیں لیکن میری رائے یہ ہے کہ یہی کمزوری دراصل ہماری طاقت ہے اور بھارت کی یہی طاقت حقیقت میں اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ معاشی ترقی کے میدان میں زقندیں بھرتا اور آگے بڑھتا بھارت جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بھارتی سرکار اور بھارتی میڈیا کا جنگی جنون سیاسی شعبدےبازی کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر عملاً جنگ شروع کرنے کی حماقت کبھی نہیں کی جائے گی۔ پاکستان اور بھارت حالیہ کشیدگی کے بعد ایک خوفناک جنگ کے دہانے پر ضرور کھڑے ہیں لیکن جمع خاطر رکھیں، یہ جنگ کبھی نہیں ہو گی کیونکہ جرمن نژاد امریکی خاتون فلاسفر ہنہ ارندت کے مطابق جنگ کا شمار تعیشات میں ہوتا ہے۔ اس لئے محض چند اقوام ہی اس کی متحمل ہو سکتی ہیں مگر پاکستان اور بھارت دونوں کسی جنگ کو افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور آخر کار یہ کہنا پڑے گا ’’وار،چھوڑ نہ یار!‘‘

تازہ ترین