• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راقم مختلف اوقات میں چھ سات مرتبہ ہندوستان جا چکا ہے۔ بکار سرکار کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں جانے اور لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بھارت کے ساتھ قربت اور محبت کی جو لگن ہمارے ہاں ہے سرحد پار اس کا عشر عشیر بھی موجود نہیں۔ یہ جو تھوڑی بہت گرم جوشی دکھائی دیتی ہے سکھوں کے دم قدم سے ہے جن کے بیشتر مذہبی مقامات پاکستان میں واقع ہیں۔ بھارتی حکومتوں اور میڈیا نے ایک تسلسل کے ساتھ پاکستان کا کچھ ایسا امیج پیش کیا کہ عوام الناس کو کچھ خاص دلچسپی پیدا نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں کے ادباء وشعراء فنکار، میڈیا، حتیٰ کہ اہل سیاست بھی بھارت کے دیوانے نکلے۔ رہے عام عوام تو ان بے چاروں نے ظاہر ہے انہی کے نقش قدم پر چلنا تھا۔ سو عام پاکستانی بھارت کے بارے میں سافٹ کارنر ہی نہیں رکھتا بہت کچھ جانتا بھی ہے۔ وہاں کے شہر، قصبے، تاریخی مقامات، اشیائے تجارت، فلمیں، ڈرامے، ٹی وی پروگرام کے بارے میں جس قدر جنرل نالج پاکستانیوں کی ہے، شاید ان کے اپنے لوگوں کا بھی نہ ہو۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے حوالے سے پڑھے لکھے بھارتیوں کا علم بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور ایسے بنیادی سوالات پوچھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بے شک مسائل موجود ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر بھارت کے پیدا کردہ ہیں۔ کشمیر، سیاچن، وولر بیراج، سرکریک اور حالیہ دنوں میں پانی کا مسئلہ، چند مثالیں ہیں۔ عشروں سے پاکستان انڈیا کی وکٹ پر کھیلتا آیا ہے۔ مذاکرات چلتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر چلتے ہیں اور پھر ٹوٹ جاتے ہیں اور اس لایعنی کھیل میں دو نسلیں کھپ گئیں حد تو یہ کہ انڈیا مذاکرات کے تسلسل کا بھی پاکستان پر احسان جتاتا ہے اور لنگڑے لولے بہانوں پر معطل کر دیتا ہے۔ نومبر 2008 کے ممبئی حملوں میں بھلا حکومت پاکستان کا کیا رول تھا؟ اگر چند سر پھروں نے کوئی کارروائی کی تو انڈیا پاکستان میں ہونے والی ایسی بیسیوں کارروائیوں میں ملوث ہے دہشت گردی کی اس واردات کے بعد پاک بھارت مذاکرات کا عمل دفعتاً رک گیا تھا جس کے اجراء کیلئے پاکستان تین برس تک سر پٹختا رہا۔ مذاکرات کے اس کھیل میں پاکستان کو ملنا تو کیا تھا تقریباً سبھی معاملات میں defensive پر چلا گیا۔ خاص طور پر کشمیر کے معاملے میں ہم مجرمانہ حد تک پیچھے ہٹ گئے اور بھارت کی خواہش پر مسائل کی فہرست میں اسے آخری نمبر پر رکھ دیا گیا۔ جسے سفارتی زبان میں بیک برنر کہتے ہیں۔
تعلقات انسانوں کے درمیان ہوں یا ریاستوں کے، برابری کی سطح پر ہوں تو ہی اچھے لگتے ہیں۔ بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھے ہوئے ہے۔ مذاکرات سفارت کاری کا بنیادی ٹول ہیں۔ حد ہے کہ بھارت مذاکرات کا بھی پاکستان پر احسان دھرتا ہے۔ بھارت کے حلیم اور وضعدار وزیر خارجہ سلمان خورشید بھی ایک حالیہ انٹرویو میں اس سوچ کا اعادہ کر چکے جب ان سے پوچھا گیا کہ ممبئی حملوں جیسی دہشت گردی کی کسی نئی واردات کی صورت میں پاک بھارت مذاکرات کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا وہ جاری رہیں گے؟ جواب ملا کہ اس سلسلے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ دو طرفہ تعلقات کو بڑھاوا دینے کے حوالے سے موصوف نے کہا کہ غلطیوں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ پیش قدمی احتیاط کے ساتھ کی جائے۔ پیس پراسیس کی رفتار پر خاص توجہ دینا ہو گی جو نہ اتنی تیز ہو کہ قابو سے باہر ہوجائے اور نہ اتنی سست کہ عوام مایوس ہو جائیں۔ یہ بھی کہا کہ وزیراعظم من موہن سنگھ کی جلد پاکستان یاترا کا کوئی امکان نہیں کیونکہ وزیراعظم نہیں چاہتے کہ آمدورفت بے نتیجہ رہے ان کا دورئہ اس وقت ہو گا جب تیاری مکمل ہو اور پاکستان کی طرف سے پیش قدمی ہو۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بھارت کا محتاط رویہ انٹلیکچوئل سطح پر بھی برابر دکھائی دیتا ہے۔ پچھلے دنوں ٹائمز آف انڈیا اور جنگ گروپ کے ”امن کی آشا“ پروگرام میں سابق بھارتی سفیر نریش چند رائے چتاونی دی تھی کہ تنازعات کو ایک طرف رکھ کر آگے کا کوئی نقشہ کیونکر تیار کیا جا سکتا ہے جبکہ سابق سیکرٹری خارجہ شیام مرن کا کہنا تھا کہ ماضی کو بہرصورت یاد رکھنا چاہئے۔ دونوں ملکوں کے مابین مسائل ہیں اور وہ تصادم کی راہ پر رہے ہیں۔ ٹریک ٹو ڈائیلاگ سمیت ماضی کی کاوشیں کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچ جائیں۔ لہٰذا پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فریقین کے مابین کوئی عظیم الشان پیشرفت ہو جائے گی تو خام خیالی ہے۔
یہ انڈین مائنڈ سیٹ کی ایک جھلک ہے جس کے ہمنوا زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو بھی بلا وجہ واری صدقے جانے کی ضرورت نہیں۔ بے شک تجارت کھول دیں، ویزے کی پابندیاں نرم کردیں اور پسندیدہ ترین قوم کا اسٹیٹس بھی دیدیں۔ مگر ذہن اور آنکھیں رکھیں۔ غیرضروری جذباتیت انسانوں کے درمیان تو چل جاتی ہے، بین الریاستی امور میں مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ پاکستان قیادت ہندیاترا کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ صدر زرداری ایک بار ہو آئے۔ دوسرے وزٹ کیلئے بھی بہانے کی تلاش میں ہیں۔ شاید کرکٹ میچ دیکھنے ہی چلے جائیں۔ موصوف کا یہ کھلا ڈھلا انداز اندرون ملک تو چل جاتا ہے مگر بیرون ملک احتیاط کی ضرورت ہے۔ انڈیا کے معاملے میں تو خاص طور پر مت بھولیں کہ وزیراعظم من موہن سنگھ ان کی پاکستان کے دورہ کی دعوت بڑی خوبصورتی سے رد کر چکے ہیں کہ ”آنا چاہتا ہوں، مگر ابھی وقت مناسب نہیں۔“ حالانکہ موصوف کا وطن مالوف ضلع چکوال کا نواحی گاؤں ”گاہ“ ہے اور ہم انہیں جذباتی کرنے کی ہر ممکن کوشش کر چکے۔ کبھی ان کے اسکول کی بات، کبھی گھر کی، کبھی ہمسایوں کی، تو کبھی ہم جماعتوں کی۔ ایک کلاس فیلو تو دہلی جا کر ”موہنے“ کو مل بھی آیا۔ ہم نے پرائمری اسکول گاہ میں درج ان کی تاریخ پیدائش کی عکسی نقول بھی انہیں پیش کی جس کے مطابق ان کی سالگرہ 26 ستمبر کو پڑتی ہے چند برس پیشتر موصوف جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد نیویارک سے وطن لوٹ رہے تھے کہ مذکورہ تاریخ راستے میں پڑ گئی۔ جہاز کے عملے نے سالگرہ کے کیک کا اہتمام کر لیا مگر غیرجذباتی وزیراعظم نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ جنم دن کا تو ماؤں کو پتہ ہوتا ہے اور میری ماں تو بچپن میں ہی مر گئی تھی۔
آخر میں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ تاریخ نے ایک موقع ضرور بخشا تھا، جو ہم اپنی نااہلی کی وجہ سے گنوا بیٹھے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 21 فروری 1999 کو بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں سوار ہو کر لاہور آئے تھے اور ہم منصب نواز شریف کے ساتھ لاہور ڈیکلریشن پر دستخط کئے تھے۔ واجپائی مینار پاکستان پر بھی گئے تھے اور اپنی معروف کویتا ”اب جنگ نہیں ہونے دیں گے“ سنائی تھی۔ مگر پرویز مشرف نامی شخص کو یہ سب ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ کارگل سمیت اس کے بعد جو ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔
تازہ ترین