• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے دو جنگجو بھارتی طیاروں کے پاک فضائیہ کے ہاتھوں مار گرائے جانے اور ایک پائلٹ کی گرفتاری کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے نئی دہلی کو دہشت گردی سمیت تمام مسائل پر بات چیت کی ایک بار پھر جو دعوت دی، اسے بجا طور پر جنگی ہیجان کو نچلی سطح پر لانے اور جنوبی ایشیا کو امن، ترقی و خوشحالی کی برکتوں سے بہرہ ور کرنے کی مخلصانہ پاکستانی خواہش کا مظہر کہا جا سکتا ہے۔ پیر اور منگل کی درمیانی رات بھارتی ائیر فورس کی مظفر آباد سیکٹر سے دراندزی کی کوشش میں ناکامی اور اپنا گولہ بارود چیڑ کے جنگل میں گرا کر بھارتی طیاروں کے فرار کے باوجود جیشِ محمد کے خیالی کیمپ اور 350دہشت گردوں کی ہلاکت کے دعوے کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان میں اشعار پڑھ پڑھ کر تقریر کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کو تقویت دینے کے لئے جو لہجہ اختیار کیا، وزیراعظم عمران خان کا نشری خطاب اس کے برعکس نپا تلا اور تدبر و بصیرت کا حامل تھا۔ عمران خان کے خطاب کو ایسے منظرنامے میں امن کی پھوار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس میں ایک طرف خود بھارتی اپوزیشن کی 21پارٹیوں کا اعلامیہ نریندر مودی پر فوج کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ دوسری جانب عالمی افق پر تشویش کے بادل دیکھنے والے دنیا بھر کے میڈیا میں بھارت کی طرف سے آنے والی آوازیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ تیسری طرف روس، فرانس، امریکہ، برطانیہ اور چین سمیت عالمی برادری پاک بھارت کشیدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے تحمل و بات چیت کی ضرورت اجاگر کر رہی ہے اور ماسکو کی طرف سے ثالثی کی پیش کش بھی سامنے آچکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے درست طور پر نشاندہی کی کہ پاکستان اور بھارت جس طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہیں ان کی موجودگی میں وہ اندازے کی کسی غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کو اس معاملے میں تحقیقات کیلئے اپنی پیشکش کا حوالہ دیا۔ جبکہ قبل ازیں بھی وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی سر زمین پر باہر سے آکر دہشت گردی کی جائے یا اس سر زمین کو کسی اور جگہ دہشت گردی کیلئے استعمال کیا جائے،دونوں صورتیں پاکستان کے مفاد کے خلاف ہیں۔ اگرچہ نئی دہلی کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ اس پیش کش سے فائدہ اٹھا کر اپنے اور خطے کے عوام کو محفوظ، باہمی تعاون پر مبنی اور خوشحالی کی راہ پر رواں دواں مستقبل دینے کے لئے آگے بڑھتا۔ مگر مودی سرکار کو شاید یہ غلط فہمی تھی کہ پاکستان اس کی مہم جوئی کا موثر جواب نہ دے سکے گا۔ اس بات کو اس بنا پر ایک حد تک حقیقت کے قریب کہا جا سکتا ہے کہ 26؍فروری کو مظفرآباد سیکٹر کی طرف سے کی گئی بھارتی فضائی خلاف ورزی کا اسلام آباد کی طرف سے فوری طور پر جواب نہ دیئے جانے میں بھارت کو جانی نقصانات سے بچانے کا پہلو مضمر تھا۔ مگر جواب نہ دیا جاتا تو نئی دہلی کے حوصلے مزید بڑھ سکتے تھے لہٰذا اگلے روز دو بھارتی طیاروں کو عین اس وقت نشانہ بنا لیا گیا جب وہ پاکستانی حدود میں تھے۔ اس کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی طرف سے چین میں جو بیان دیا گیا وہ اس اعتبار سے حوصلہ افزا ہے کہ اس میں نئی دہلی کی طرف سے مزید کشیدگی نہ بڑھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ تاہم مبصرین بھارتیہ جتنا پارٹی کی طرف سے آنے والے دیگر بیانات، مقبوضہ کشمیر میں قابض فوجوں کی بڑھتی ہوئی بربریت اور کنٹرول لائن پر جاری جھڑپوں کے تناظر میں پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر سمیت جن خدشات کا اظہار کررہے ہیں وہ یقیناً پیش نظر رکھے جا رہے ہوں گے۔ نئی دہلی کے حکمرانوں کو یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان اور بھارت دونوں نیوکلیائی ممالک ہیں۔ یہاں جنگ ہوئی تو صرف خطے کے لئے نہیں پوری دنیا کے لئے تباہی کے منہ کھول دے گی۔ اس سے بچائو کا راستہ بہر طور نکالا جانا چاہئے۔ صورت حال ایسی بن چکی ہے جس میں معاملات کی درستی کے لئے عالمی برادری کا متحرک کردار ناگزیر محسوس ہو رہا ہے۔

تازہ ترین