• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک برطانیہ پلٹ دوست نے میر پور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان کا قصہ سنایا جو اسے لندن سے برمنگھم جاتے ٹرین میں ملا اور علیک سلیک کے بعد اس نوجوان نے پاکستانیوں اور کشمیریوں میں ذات برادری کے تعصبات اور دھڑے بندی پر لیکچر دینا شروع کردیا کہ یہی ہماری تباہی اور پسماندگی کی اصل وجہ ہے۔ برمنگھم پہنچے، الوداعی کلمات کہے اور ایک دوسرے سے بچھڑنے لگے تو میں نے پوچھا ”اگلے ماہ کاؤنٹی کے الیکشن میں ووٹ کنزرویٹو امیدوار کر دو گے یا لیبر پارٹی کو۔“ نوجوان نے کندھے اچکائے اور بولا ”برادری جو فیصلہ کرے گی، وہ سر آنکھوں پر۔“
پاکستان میں ذات برادری، سیاسی دھڑے بندی اور زبان، نسل، مسلک اور علاقائی منافرتوں کو ہماری سیاسی اشرافیہ نے ابھارا، سیاسی اور انتخابی نظام کا حصہ بنایا اور اقتدار کے ایوانوں، قومی وسائل پر قابض ہو کر تباہی مچا دی۔ پانچ سال کے دوران اودھم مچا، ادارے لٹے، سماجی تانا بانا بکھرا، حکمرانوں کی نالائقی اور تابعدار انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے نیوکلیئر ریاست بنانا ری پبلک میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔
شمالی وزیرستان میں رٹ آف سٹیٹ کی بات روزانہ ہوتی ہے پشاور کے نواح سے دو درجن خاصہ داروں کے اغوا، بے دردی سے قتل اور روزانہ چوکیوں پر حملوں کا ذکر کوئی نہیں کرتا، کراچی اور بلوچستان میں رٹ آف سٹیٹ کی جو مٹی پلید ہو رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے صرف کراچی اور بلوچستان کیا پورا ملک ہی قاتلوں، دہشت گردوں، ڈاکوؤں، لٹیروں، منشیات فروشوں، ذخیرہ اندوزوں، قبضہ گروپوں اور مختلف مافیاز کے رحم و کرم پر ہے وہ عوام کو لوٹنے والے، وہی قانون ساز اور انہی کے چاچے مامے مختلف اداروں میں بیٹھے ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کے ذمہ دار ۔ سیاں بنے کوتوال اب ڈرکاہے کا۔
پانچ سال میں حکومت اور اپوزیشن نے سوائے لوٹ مار، دولت سمیٹنے، اثاثے بڑھانے، باری باری کا کھیل کھیلنے اور بیان بازی کے ذریعے عوام کی آنکھو ں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ کسی کو نہ تو بجلی اور گیس کی بندش سے عوامی تکلیف کا احساس ہوا نہ خود کشیوں، خود سوزیوں پر ترس آیا، وقت پرعام انتخابات کرانے کے دعویداروں نے بلدیاتی انتخابات تین سال تک نہ کرانے کی کوئی وجہ بیان کی نہ سیاسی و انتخابی عمل میں مخصوص اجارہ دار، عوام دشمن اور جرائم پیشہ مافیاز کی روک تھام کے لئے کوئی تدبیر سوچی، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ انتخابی نظام اور وقت پر عام انتخابات چند خاندانوں کو راس ہیں کہ سب بڑے چھوٹے، بھانجے، بھتیجے ایوان اقتدار میں داخل ہو کر خوب لوٹ مار کر سکتے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات سے سیاسی جماعتوں کے عام کارکنوں کو آگے بڑھنے اور قومی معاملات میں رائے دینے کے علاوہ عوام کے مسائل حل کرنے کا موقع ملتا ہے جو ان مگرمچھوں کو پسند نہیں۔
عوامی مسائل سے مجرمانہ غفلت، ان کے جذبات و احساسات سے ظالمانہ لاتعلقی اور قومی وجود کو درپیش خطرات سے سنگدلانہ چشمی پوشی کے سبب ملک میں سیاسی خلا پیدا ہوا جس کو 23 دسمبر کے جلسے میں عوامی ہجوم نے پُر کرنے کی کوشش کی تو سارے بچھو، سانپ، سپنولیے، مگرمچھ، نیولے اور دیگر حشرات الارض ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر شور و غوغا پر اترآئے، گزشتہ روز سینٹ اور پنجاب اسمبلی میں عوام میں مقبولیت کے دعویدار سیاسی داؤد پیچ کے ماہرین اور عوام کے نبض شناس سیاستدانوں کی بوکھلاہٹ دیکھ کر یوں لگا جیسے ان کی چوری پکڑی گئی اور یہ علامہ طاہر القادری سے نہیں اس منظر سے خوفزدہ ہیں جو 14 جنوری کو اسلام آباد میں ابھرتا نظر آتا ہے۔
غریبوں کے محلے اجاڑ کر بڑے شہروں میں اپنے محلات بسانے والوں کو اس صورتحال سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔ لاکھوں لوگ وفاقی دارالحکومت میں جمع ہو کر صرف تقریر نہیں سنیں گے بلکہ اس معاشی و سماجی تفریق کا مشاہدہ کریں گے جو اس نظام نے غریب اور امیر کے درمیان پیدا کردی ہے۔ انہیں جہازی سائز کی گاڑیاں دیکھ کر میلوں پیدل چلنے کی اذیت کا احساس ہوگا اور پارکوں، چوکوں، سڑکوں کے ارد گرد برقی قمقمے دیکھ کر اپنے گھرو ں میں بجھا مٹی کا دیا اور گیس کا چولہا یاد آئے گا۔ بدمعاش اشرافیہ کا یہ خوف بھی بجا ہے کہ ان کے مخلص، اثیار پیشہ، لاٹھی گولی کھانے والے جانثار کارکن عوام کا جم غفیر دیکھ کر کہیں بدک نہ جائیں کہ ہمارے حقوق کی جدوجہد کرنے والے عوام کے جذبات و احساسات کا علم اگر مفاد پرست اور مراعات یافتہ قیادت کو نہیں تو کم از کم ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ ڈھول بجتا دیکھ کر کوئی ملنگ دھمال ڈالنے سے نہیں رک سکتا اور زندہ باد ، مردہ با د کے نعرے سن کر کوئی سچا سیاسی ورکر گھر میں نہیں بیٹھ سکتا جبکہ اسے یہ یقین بھی ہو کہ تبدیلی کا وقت یہی ہے ورنہ کبھی نہیں۔
اور تو اور مک مکا کے اس کھیل میں عمران خان کو گھسیٹنے کی کوششیں بھی ہونے لگی ہیں۔ بجا کہ مراعات یافتہ طبقات کے خلاف اس نتیجہ خیز جنگ کے موقع پر خان تذبذب کا شکارہے مگر وہ عوام اور تبدیلی کے خواہش مند نوجوانوں کو فراموش نہیں کرسکتا جو موروثی سیاست اور خاندانی قیادت کے جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور کسی قیمت پر ”سٹیٹس کو“ کی قوتوں کوتقویت نہیں پہنچاسکتے۔تاہم عمران خان کے بعض ساتھی ذات برداری،دھڑے بندی کی قباحتیں گنوانے، عوام کے جذبات اور نوجوانوں کی خواہشات کو بجا و برحق قرار دینے اور اس وقت کو تبدیلی کے لئے موزوں سمجھنے کے باوجود میرپور کے نوجوان کی طرح برادری کے فیصلے پر ”آمناو صدقنا“ کہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مفاد پرست مراعات یافتہ ، عوام دشمن جو نکوں کی برادری، جس نے ملک کا بیڑا غرق اور عوام کا جینا محال کردیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود قریشی اور تبدیلی کے علمبردار نوجوان کیا عوامی جذبات سے واقف نہیں؟ اور خان کو سمجھانے سے قاصر ہیں۔ #
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
تازہ ترین