• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”سال 2012 کا میڈیا مانیٹر“ کے عنوان سے 2جنوری کو نئے سال کے پہلے ”گریبان“ میں پاکستان میں سال2012 کے دوران اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی فرض شناسی کے ”جرم“ میں قتل کردیئے جانے والے 13صحافیوں کے ذکر کے دوران جہاں 6فروری 1933میں میرے ساتھ اس دنیامیں آنے والے ممتاز صحافی اورمیرے عزیز دوست شفقت تنویر مرزا مرحوم کے ساتھ ہونے والی وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کی زیادتی کاذکر کیاگیا تھا جو ان کے مرض الموت یعنی سرطان کی بیماری کے باوجود روا رکھی گئی تھی وہاں پاکستانی صحافت کے بہتر مستقبل کے لئے انتہائی مفید، کارآمد اور ممدو معاون آرکائیوز Archivies تیار کرنے کے سلسلے میں اپنی زندگی اور عمر بھر کی کمائی وقف کردینے والے بہت ہی پیارے دانشور محمد سلیم خواجہ عرف احمد سلیم کاحوالہ بھی دیا گیا تھا جن کا ہیپاٹائٹس سی کا مرض ڈیڑھ سال پہلے ان کے جگر کے کینسر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ جس موذی مرض کا علاج جگر کے ٹرانسپلانٹ کئے جانے کے علاوہ اور کوئی کسی کی سمجھ نہیں آسکتا۔ احمد سلیم کے اندرون ملک اوربیرون ملک دوستوں نے اس علاج کے لئے بھاری اخراجات جمع کرنے کی مہم شروع کی مگر میری دانست میں انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔
میرے اس کالم کی اشاعت کے بعد بعض مشترکہ دوستوں کے ذریعے پتہ چلا کہ خادم پنجاب میاں شہباز شریف کی حکومت پنجاب نے احمد سلیم کے جگر کی ٹرانسپلانٹیشن کے اخراجات کے لئے مطلوبہ رقم پچاس لاکھ روپے کا چیک صحت یابی کی دعاؤں کے ساتھ احمد سلیم کو بھیج دیا ہے۔ اس انتہائی قابل قدر کارخیر میں میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کی انسان دوستی اور علم دوستی کے بعد سب سے زیادہ فرض شناسی سنیٹر پرویزرشید کی دکھائی دیتی ہے۔اس سلسلہ میں احمد سلیم اور ان کے گھرانے کے لوگوں کے علاوہ پاکستان کے درائع ابلاغ اور علم وادب کے بہتر مستقبل کی خواہش رکھنے والے بھی وزیراعلیٰ پنجاب اورسنیٹرپرویزرشید شکرگزار ہیں اوردعا کرتے ہیں خدا احمد سلیم کو صحت کاملہ عطافرمائے اور انہیں ان کے ذرائع ابلاغ کی خدمت کرنے والے آرکائیوز کی تیاری کے مشن میں کامیاب کرے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے سال 2010 میں میرے ”برین ہیمبرج“ کے عارضے کے دوران بھی ایسی ہی انسان دوستی کا مظاہرہ فرمایا تھا جب شعیب بن عزیز نے انہیں میری بیماری کی اطلاع دی تھی۔
تازہ ترین