• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ،برسوں کے غوروفکر، مشاہدے اور تجربات سے وضع کردہ اخلاقی اصولوں کی پامالی، دلیل کی نفی، مکالمے سے انکار ا ور غلبہ پانے کی جبلت کا نام ہے ۔انسانیت کے اجتماعی عمرانی معاہدے کی تنسیخ کا یہ عمل اسی لئے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے بقائے باہمی کے ضوابط ہی فنا نہیں ہوتے ،تباہی و بربادی بھی لازم ٹھہرتی ہے ۔چنانچہ وہ قومیں جو انسانی بقا اور ترقی کی متمنی ہوتی ہیں باوجود قدرت رکھنے کے جنگ پر امن کو ترجیح دیتی ہیں ۔پاکستان کی طرف سے اس کا عملی مظاہرہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت ہوا جب بھارت کی جارحیت کا دندان شکن جواب بھی دیا جا چکا تھا ۔وزیر اعظم پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی اور جذبہ خیر سگالی کے طور پر بھارت کے گرفتار شدہ پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم کا مدبرانہ خطاب بلاشبہ پورے خطے کیلئے دعوت فکر تھا،انہوں نے برصغیر کی غربت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ترقی و خوشحالی کیلئے امن ضروری ہے ۔کشیدگی میں نہ پاکستان کا فائدہ ہے نہ بھارت کا، ہماری قیام امن کی کوششوں کو کمزوری پر محمول نہ کیا جائے کہ ہمارا ہیرو بہادر شاہ ظفر نہیں سلطان ٹیپو ہے جس نے غلامی کو نہ چُنا۔نریندر مودی کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کسی کو اس جانب نہ دھکیلیں کیونکہ میں جانتا ہوں پاک فوج اس وقت کتنی تیاری کے ساتھ کھڑی ہے، بھارتی طیارے گرانے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی امن کے داعی ہیں۔ افسوس کہ سیاسی بساط پر مات کھاتے چلے جانے والے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی عقل ٹھکانے نہیں آ سکی اور اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ سرحد پار دہشت گردوں کے کیمپ پر حملہ ’’پائلٹ پروجیکٹ‘‘ تھا ابھی تو ’’ریئل‘‘ کرنا ہے، ہمیں اپنی فوج کی صلاحیت پر بھروسہ ہے۔اس امر کا متعدد مرتبہ اعادہ ہو چکا کہ بھارتی سیاست میں کامیابی کا ایک اہم حربہ پاکستان اور اسلام دشمنی ہے اور اس وقت بھی یہی حربہ آزمایا جا رہا ہے لیکن اس قدر بھونڈے انداز میں کہ خدانخواستہ کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے ۔صد شکر کہ مودی کی ہرزہ سرائیوں ،دروغ گوئیوں اور دھمکیوں کے مقابل ہمارے وزیر اعظم کا لہجہ انتہائی حکمت آمیزاور مدبرانہ ہے، بھارت کے دو طیارے مار گرائے جانے کے بعد انہوں نے جو نشری خطاب کیا اس کے اثرات بھارت کی حزب اختلاف ہی نہیں دانشوروں اور سنجیدہ حلقوں پر بھی مرتب ہوئے۔ بھارت سے یہ آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں کہ مودی سیاسی مقاصد کیلئے فوج کو استعمال کرکے بھارت کو کسی مصیبت میں ڈالنے سے گریز کریں۔اِس کے بر خلاف بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا بیان سراہا گیا جس میں معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا عندیہ شامل تھا لیکن مودی شاید اپنی سیاست کیلئے بھارت کو دائو پر لگانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے اہم ممالک دونوں ملکوں کو مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن مودی کی بدھی میں یہ بات نہیں آ رہی کہ دو ایٹمی قوتوں کے تصادم کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے ۔بھارت یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ہونے و ا لی تمام لڑائیوں کا اختتام مذاکرات کی میز پر ہی ہوا تھا تو کیا یہ بہتر نہیں کہ کوئی جو کھم اٹھانے اور خرابی بسیار سے پہلے ہی وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے امن مذاکرات کی دعوت پر غور کر لیا جائے، قیام امن کے لئے پاکستان کے اخلاص کا اس سے بڑا مظہر اور کیا ہو گا کہ اس نے گرفتار شدہ بھارتی پائلٹ کو جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ وہ ایک جنگی قیدی تھا جس پر مقدمہ بنتا تھا، بھارت کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں اور پاکستان کے اس اقدام کا جواب خیر سگالی سے ہی دینا چاہئے۔بھارت کے پرامن عوام اور عالمی برادری کا فریضہ ہے کہ مودی کے شغف جنگجوئی کو لگام دے ورنہ اس کی ہٹ دھرمی بھارت کو وہ دن دکھا سکتی ہے جو اس کے گمان میں بھی نہیں ۔پاکستانی وزیر اعظم کی کشادہ دلی پر صاد کرتے ہوئے بھارت امن کو موقع دینے کی راہ استوار کرے، اسی میں سب کی بھلائی ہے، ورنہ بھارت ’’نمونہ‘‘ تو دیکھ ہی چکا ہے ۔

تازہ ترین