• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتا، اُس کے پیٹ میں رہ رہ کر یہ مروڑ اٹھتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان اپنا ایک الگ وطن حاصل کرنے میں کیوں کامیاب ہوئے۔ گائو ماتا کے دو ٹکڑے ہونے کا سوچ کر اُن کے دل ہمارے لئے نفرت سے بھر جاتے ہیں۔ اُن کی نفرت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر یہ نیپال اور بھوٹان کی طرح اُن کے قدموں میں بیٹھنے کی بجائے اُن کے برابر میں کرسی ڈال کر پوری شان سے بیٹھتا ہے۔ یہ خود کو چوہدری اور پاکستان کو کمی کمین (اُس کی ایسی کی تیسی ) سمجھتا ہے، یہ احمقانہ قسم کے غرور میں مبتلا ہے اور یوں اُس نے خود یہ طے کر لیا ہے کہ پاکستان کو اِس کے سامنے کیسے بیٹھنا چاہئے، کیا کرنا چاہیے اور کیا سوچنا چاہئے۔

ہمیں علم ہے کہ حجم میں، ہتھیاروں میں، افرادی قوت میں، فوج کی نفری میں اور معیشت میں ہمارا اُن سے کوئی مقابلہ نہیں، وہ ہم سے بہت آگے ہیں لیکن اُسے کسی احمق نے یہ بتایا ہے کہ اگر مادی طور پر تم سے کوئی برتر ہے تو اُس کے سامنے کمتر بن کر رہو۔ ہم تو بھارت کے ساتھ دوستوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں اور اُس کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ باہمی تنازعات پر امن طریقے سے حل کیے جائیں۔ اس صورت میں برابری کے تعلقات برادری کے محبت بھرے تعلقات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی عوام بہت باشعور ہیں۔

آپ اُن میں جنگی جنون پیدا کرنے کی کوشش بھی کریں تو وہ اُس کے جھانسے میں نہیں آتے۔ چنانچہ اِس قماش کے افراد اور جماعتوں کو ہمارے عوام نے کبھی پذیرائی نہیں بخشی کیونکہ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ جنگ میں دونوں ملک تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ایٹمی جنگ کا تو نام بھی نہیں لینا چاہیے۔ زمینی جنگ کی صورت میں بھی دونوں ملکوں کے غریب عوام غربت کی اس سطح کو چھونے لگیں گے، جس پر موت کو ترجیح دی جا سکتی ہے۔ 

پاکستان نے تو ایٹم بم بنایا ہی اس لئے تھا کہ زمینی جنگ بھی جھڑپوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ چنانچہ اُس کے بعد سے الحمدللہ کسی بڑی جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اِس کے لئے ذوالفقارعلی بھٹو، محمد نواز شریف، ایٹمی سائنسدانوں اور اس پروگرام کی حفاظت اور راز داری رکھنے والی ایجنسیوں اور فوج کا شکریہ بھی ہم پر واجب ہے اور میں یہ بات پورے یقین سے کہتا ہوں کہ بھارت اپنی تمام تر بڑھکوں اور بھارتی میڈیا اپنی تمام خباثتوں کے باوجود پاکستان سے ایسا پنگا کبھی نہیں لے گا جو دونوں ملکوں کو خاکم بدہن خاکستر بنا کر رکھ دے۔

بھارت نے دو تین روز پیشتر پاکستانی عوام کو بھڑکانے کے لئے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بمبار بھیجے تھے مگر وہ اپنے اناڑی پن کی وجہ سے کوئی نقصان کئے بغیر اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے مگر نقصان کے بہت بڑے بڑے دعوے کئے جن کا بھانڈا انٹرنیشنل میڈیا نے بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا۔ تاہم اگلے ہی روز ہمارے شاہین اُن پر اُس وقت جھپٹے جب وہ ایک بار پھر ہماری فضائی حدود میں کسی بڑے نقصان کی نیت سے داخل ہوئے اور اُن کے دو جہاز مار گرائے، صرف یہی نہیں ایک پائلٹ کو بھی گرفتار کر لئے۔ مجھے اس امر کی خصوصاً بے حد خوشی ہے کہ خود کو سپر پاور سمجھنے والے بھارتی یہ جان گئے کہ پاکستان، پاکستان ہے بھوٹان یا نیپال نہیں۔

دوسری خوشی اِس بات کی ہے کہ پوری اپوزیشن اور حکومت نے باہمی تمام اختلافات بھول کر قومی یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ تاہم اِس امر کی کسی کو امید نہیں تھی کہ پاکستان اگلے ہی روز بھارتی پائلٹ کو رہا کر کے بھارت واپس بھیجنے کا اعلان کرے گا۔ کچھ لوگوں کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ایک بار پھر پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان جنگ کے دائرے کو وسیع نہیں کرنا چاہتا۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور ہم قیام امن کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں گے۔ مجھے انصار عباسی کی اس بات سے اتفاق ہے کہ عمران خان نے پاک بھارت تنازع میں خود کو مدبر سیاستدان ثابت کیا۔ وہ مودی سے بات کے لئے تیار ہیں تو اپوزیشن رہنماؤں سے بات میں کیا حرج ہے؟

میں آخر میں پی ٹی آئی کے دوستوں سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر نواز شریف نے اِس تدبر کا مظاہرہ کیا ہوتا تو اُنہوں نے ’’مودی کا جو یار ہے ،غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔ اُنہیں جان لینا چاہئے کہ پاکستان کا کوئی سیاستدان غدار نہیں ہے بلکہ اُنکی حکومت سے پاکستان کو پہلے بھی فائدہ ہوا ہے اور اِس موقع پر تو اُن کی مشاورت سے مزید فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ بس ایک بات اور عمران مودی سے فون پر بات کرنے کی کافی کوشش کر چکے ہیں، مزید کوشش نہ کریں اب اُس کے فون کا انتظار نہ کریں۔

تازہ ترین