• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے۔ کل صبح سویرے ایک مہربان کا فون آیا ۔فرمایا ڈاکٹر صاحب آپ نے کالم میں یہ عشق ستم لکھا ہے یہ کیا ہے ۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ صاحب میں نے تو کالم میں ایسا کوئی لفظ نہیں لکھا تھا اور نہ ہی اب تک چھپا ہوا کالم پڑھا ہے اس لئے تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ عشق ستم ہی ہوتا ہے ، ستم گر بھی ہوتا ہے اور خانہ خراب بھی ہوتا ہے ۔ آپ نے وہ مصرعہ سنا ہو گا عشق کا حاصل ، خانہ خرابی ۔ ان صاحب کا فون بند ہوا تو اپنا کالم پڑھنا شروع کیا تب راز کھلا کہ میں نے تو مشق ستم لکھا تھا لیکن کاتب یا کمپوزر نے مشق کو عشق سمجھا اور اسے عشق ستم بنا دیا ۔ میرے لئے یہ کوئی انہونی بات نہیں کی تھی کیونکہ میں اس مشق ستم کا عادی ہو چکا ہوں، اکثر کاتب میری غلطیاں درست کر دیتا ہے میں اسے بھی چھوٹے سے عشق کی علامت ہی سمجھتا ہوں کیونکہ میں اس شاعر سے بالکل متفق نہیں جس نے کہا تھا کہتے ہیں جسے عشق ،خلل ہے دماغ کا ۔ ممکن ہے شاعر دماغی خلل کا مریض ہو ورنہ میں نے تو زندگی میں ایسے ایسے عشق دیکھے ہیں جنہوں نے نہ صرف دنیا اور زندگی بدل ڈالی بلکہ تاریخ کے دھاروں کا رخ بھی موڑ دیا ۔ اسی لئے تو سمجھ دار لوگ عشق کو دو درجوں میں تقسیم کرتے ہیں (1)عشق مجازی (2) عشق حقیقی ۔ آپ چاہیں تو اس میں تیسری قسم کا بھی اضافہ کرلیں وہ ہے عشق دماغی جسے شاعر نے ”خلل ہے دماغ کا “ کہا تھا ۔ پہلی دونوں قسموں اور تیسری قسم میں نمایاں فرق یہ ہے کہ مجازی اور حقیقی عشق کا تعلق قلب یعنی دل سے ہوتا ہے جبکہ تیسری قسم کا تعلق صرف دماغ سے ہوتا ہے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دراصل عشق بنیادی طور پر دل کی بیماری ہے اس لئے اگر اس میں دل ملوث نہ ہو صرف دماغ کی پیداوار ہو تو پھر وہ اکثر دماغ کا خلل ہی بن جاتا ہے ۔
کہتے ہیں عشق حقیقی حب الٰہی اور عشق رسول پر مشتمل ہوتا ہے کیونکہ صرف یہی عشق پائیدار ہوتا ہے عاشق عشق کی آگ میں جلتا اور لذت حاصل کرتا ہے اور جوں جوں اسے قرب نصیب ہوتا ہے عشق کی آگ مزید تیز ہونا اور بھڑکنا شروع کر دیتی ہے ۔ عشق مجازی دنیا اور دنیا کے حسن سے عشق ہے جو غیر پائیدار اور وقتی ہوتا ہے ایک بار جناب غلام احمد پرویز مرحوم نے اس پر دلچسپ تبصرہ کیا تھا وہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے خطبے کے دوران کہا کہ اب معاشرے کی اقدار بدل گئی ہیں، خلوص اور محبت نام کی شے ناپید ہو گئی ہے کوئی شے خلاص نہیں رہی اب تو عاشق بھی اپنی محبوبہ کو کہتا ہے کہ کل باغ جناح میں ملیں گے اگر مطلع ابرآلود نہ ہوا تو۔مطلب یہ کہ اب مجازی عشق موسمی قسم کی شے ہوتی ہے مثلاً آج کل لاہور میں شدید سردی کی لہر آئی ہوئی ہے میں اس لہر کو قاتل عشق لہر کہتا ہوں کیونکہ اس نے باغات، سیرگاہیں اور پارکیں ویران کر دی ہیں ۔ ہمارے ایک دوست کالم نگار اس ضمن میں بڑے حقیقت پسند تھے ۔ جب بھی کسی شاعر و ادیب کے عشق کی افواہ سنتے فوراً نسخہ تجویز کر دیتے کہ ان کی شادی کر دو چند ہی ماہ بعد عشق کا جن غائب ہو جائے گا اور محبت کی دال جوتیوں میں بٹنے لگے گی ۔ یادش بخیر ۔ ایک روز میں اور پروفیسر مرزا منور مرحوم شاعر اسلام حفیظ جالندھری مرحوم کے ساتھ ان کے ماڈل ٹاؤن والے گھر سے نکلے ۔ میں ان دنوں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا اور مرزا منور صاحب اسی کالج میں پروفیسر تھے ۔ مرزا صاحب خالق ترانہ پاکستان کے کرائے دار بھی تھے ان کے گھر کی انیکسی میں رہتے تھے اس لئے حفیظ صاحب سے خوب ملاقاتیں رہتی تھیں ۔ سردی کا آغاز تھا اس طرح کے موسم میں دھوپ بہت اچھی لگتی ہے ۔ ہم بس سٹاپ کی طرف آ رہے تھے ۔ سڑک کے کنارے ایک نیم پاگل شخص میلے کچیلے پھٹے کپڑوں میں ملبوس، مٹی میں اٹا ہوا کھمبے کے ساتھ ٹیک لگائے دھوپ سے لطف اندوز ہو رہا تھا ہمارے آگے آگے چند بچے بستے لٹکائے شرارتیں کرتے سکول جا رہے تھے ۔ وہ بچے اس شخص کے پاس پہنچے تو نہ جانے ایک بچے کو کیا سوجھی اس نے سڑک سے چھوٹا سا کنکر لیکر اسے مار دیا ۔ وہ نیم پاگل غصے سے اٹھا مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ اب وہ اس بچے کو مارے گا لیکن اس نے غصے سے مٹھیاں بھینچی اور ہوا میں مکا لہراتے ہوئے کہا ”اوئے تیری شادی کرا دوں گا “ حفیظ صاحب نے سنا تو تڑپ گئے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا ”یہ پاگل اس صدی کا سب سے بڑا فلاسفر ہے اس نے بچے کو تھپڑ مارنے کی بجائے سب سے بڑی سزا سنا دی ہے ۔“ اس پر قہقہہ لگا اس دور میں ہم خوب ہنستے تھے کیونکہ نہ ابھی زردای صاحب صدر بنے تھے نہ بجلی، گیس اور زندگی کے دوسرے مسائل کا دور شروع ہوا تھا ۔ قہقہہ تھما تو مرزا صاحب نے چوٹ کی ”حفیظ صاحب آپ سے زیادہ کون اس فقرے کی درد سہہ سکتا ہے “ اس چوٹ کا پس منظر یہ تھا کہ ہمارے پیارے حفیظ صاحب دو شادیوں کا مزا چکھ چکے تھے اس چوٹ پہ حفیظ صاحب کھکھلا کر ہنسے اور کہا ” مرزا تو باز نہیں آتا “ پترا میں تو چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہوں ۔ تیرے لئے ایک ہی کافی ہے “ پھر کہنے لگے ”یار صفدر ابھی بچہ ہے اسکی دل شکنی کیوں کرتے ہو “
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ عشق ستم گر بھی ہوتا ہے اور خانہ خراب بھی ، یہ دماغ کا خلل بھی ہو سکتا ہے اور ایک سچا حقیقی اور سچا جذبہ بھی ، عام طور پر ساس بہو کی چپقلش کے بارے میں لاکھوں کہانیاں مشہور ہیں جن پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ امریکہ کا ایک مشہور صدر روز ویلٹ تھا اسی کی بیگم 1884ء میں فوت ہوئی تو اسی روز صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کی والدہ بھی فوت ہو گئی ۔ دراصل بات یہ ہے کہ انسان کا کیا بھروسہ، اولاد آدم پر کوئی ایک اصول اپلائی نہیں کیا جاسکتا ۔ آج سے چند دہائیاں قبل سرگودھا کے مین بازار میں ایک شخص گھومتا پھرتا نظر آتا تھا اس شخص کو لٹھے کے پھٹنے کی آواز سے عشق تھا اس زمانے میں لٹھا بہت پاپولر کپڑا ہوتا تھا وہ شخص کپڑے کی دکانوں کے ارد گرد پھرتا رہتا جہاں دکاندار لٹھا پھاڑتا وہ وہیں بیٹھ جاتا اور آواز کی لذت کے سمندر میں بہہ جاتا ۔ جس روز عشق زیادہ زور مارتا ، وہ خود لٹھا کے، چند گز خرید لیتا اور آواز سننے کے لئے اسے پھاڑ پھاڑ کر ”لیروں“ میں بدل دیتا ، پھر ”لیروں“ کو پھاڑنے لگتا ۔ اس کا عشق ستم گر اور خانہ خراب تھا ۔ سرگودھا ہی میں ہم نے ایک عشق خانہ آباد بھی دیکھا۔سرخضر حیات ٹوانہ سابق وزیر اعظم پنجاب کے علاقے کا ایک زمیندار شادی برات کے عشق میں مبتلا تھا میں اس کے نام پتے سے واقف ہوں لیکن اسے راز ہی رہنے دوں گا ۔ اس نے اپنے عشق کے مرض کا انوکھا علاج دریافت کیا تھا وہ ہر سال اپنی اکلوتی بیگم کو میکے بھجوا دیتا اورپھر کچھ دنوں بعد بینڈ باجے اور برات کے ساتھ دولہا بن کر گھوڑے پر بیٹھ کر سسرال جاتا اور اپنی ہی بیوی کو ڈولی میں بٹھا کر واپس لاتا ۔ علاقے کے غریبوں کو اس شادی کا انتظار رہتا کیونکہ انہیں ولیمے کے دن پلاؤ اور زردہ ملتا تھا وہ اس روز لہک لہک کر گاتے ”ویر میرا گھوڑی چڑھیا “
عشق حقیقی کا ایک چھوٹا درجہ علم و تحقیق سے عشق ہے جس نے انسانی زندگی پر لاکھوں انعامات اور دنیاوی نعمتوں کی بارش کی ہے نامور سائنس دان ایڈیسن بجلی کے بلب کا خالق تھا جب تقریباً اس کی دوہزار کوششیں اور تجربات ناکام ہوئے تو دوستوں نے طعنے دینے اور طنزیں کرنی شروع کر دیں۔ اس کا عشق سچا تھا وہ جواب میں کہتا میں دوہزار ایسے طریقے جانتا ہوں جن سے بلب نہیں بن سکتا ۔پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اس نے اگلے تجربے میں خلاء (VACUUM)پیدا کر دیا ۔ تجربہ کامیاب ہوا بلب بن گیا دنیا جگمگا اٹھی ، عشق سچا نہ ہوتا تو ایڈیسن ہمت ہار دیتا اسی لئے لوگ اس طرح کے خیال کو الہام کہتے ہیں جو انسانی زندگی کی تاریکی کو روشنی میں بدلتا، سہولتیں بہم پہنچاتا، غلامی سے آزادی حاصل کرکے قوموں کے مقدر بدلتا، ترقی کے عمل کی راہیں کھولتا اور انسانی زندگی کو بلندیوں پر لے جاتا ہے ۔ حسن دولت، شہرت ، کرسی اور اقتدار کا عشق محض ہوس ہوتا ہے ۔ البتہ اگر یہ جذبہ قومی خدمت، انسانی علاج اور معاشرتی ترقی کا باعث بنے تو عشق کی ہی ایک قسم کہلائے گا اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن کالم کا دامن محدود ہے ۔ فی الحال تھوڑے لکھنے کو بہت سمجھیں۔
تازہ ترین