• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اکثر دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ طاہر القادری کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ نہیں لیکن حافظ حسین احمد کا دعویٰ ہے کہ طاہر القادری کے جھنڈے میں ڈنڈا فوج کاہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ طاہر القادری کا ایجنڈا وہی ہے جواس سے پہلے عمران خان اور الطاف حسین کا تھا یعنی یہ کہ اس سے پہلے الطاف حسین اورعمران خان کے جھنڈے میں بھی ڈنڈا فوج ہی کارہاہے۔ فوج کے ڈنڈے والی بات بھی خوب ہے۔ دیکھا جائے تو تقریباً ہر سیاسی جماعت پر اس طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) جواس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سب سے بڑی تحریک کی دعویدار ہے ایک زمانے تک اس پر بھی یہ الزام رہا کہ اس کے جھنڈے میں ڈنڈا فوج کاہے اوراس الزام میں سچائی بھی تھی اس لئے کہ اس بات سے تو انکار نہیں کیاجاسکتاکہ نواز شریف صاحب پر نظر عنایت سب سے پہلے جنرل غلام جیلانی کی پڑی اور انہوں نے اپنے ڈنڈے سے ہانک کر ان کوضیا الحق کی جماعت میں شامل کرالیا۔ ایک زمانے تک نوازشریف صاحب اسی ڈنڈے کے سہارے کھڑے رہے اور ان کے قد کاٹھ میں اضافے کی بنیادی وجہ یہی ڈنڈا بنی۔ یہ ا وربات کہ اپنے قد کاٹھ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اور ضیا الحق کے اچانک ہلاک ہونے یا کردیئے جانے کے سبب ان کو اندازہ ہوا کہ اب انہیں اپنے جھنڈے ہی سے یہ ڈنڈا نکال دیناچاہئے۔ سووہ اپنا جھنڈاالگ کرنے کے سفر پر چل پڑے۔ اس سفر میں انہیں خاصی مشکلات کاسامنا رہا۔ دوبار وزیراعظم بنائے گئے اور ہٹائے گئے۔ اس دوران ان کے ساتھیوں نے اپنے ڈنڈے کے ساتھ فوج اور عدالتوں دونوں کو ٹھیک کردینے کی کوشش میں ناکامی کا سامنا کیا اوراقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فوج نے اس دوران شاید سبق یہ سیکھا کہ بہتری یہی ہے کہ مشرف جیسے آدمی کو جھنڈا دے کر چوہدری پرویز الٰہی ، شجاعت حسین، الطاف حسین، آفتاب شیرپاؤ، فیصل حیات جیسے لوگوں کوہانک کر خود حکومت کی جائے۔اس کوشش میں خاصی کامیابی بھی ہوئی اورنوبرس تک پرویزمشرف نے ڈنڈے کے زورپر ملک کو تابع رکھا۔ غلطی ان سے اس وقت ہوئی جب اس نے اسی ڈنڈے سے عدلیہ اور میڈیاکو ہانکنے کی کوشش کی۔ یہ توبھلا ہو چیف جسٹس صاحب کا کہ انہوں نے پرویز مشرف کے ڈنڈے کا وار روک دیالیکن اس وقت تک فوج نے یہ کامیابی ضرور حاصل کی کہ این آر او سائن کروالیااوریوں کسی حد تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے جھنڈوں کے لئے فوج کے ڈنڈے کا سہارا لیا۔ پیپلزپارٹی نے تو اپنی بقا کیلئے اپنے جھنڈے سے فوج کے ڈنڈے کوالگ نہیں کیا لیکن (ن) لیگ بہرحال اس سے چھٹکارا پانے میں جٹی ہے۔ فوج کوایسے میں نئے جھنڈوں کی ضرورت ہے اوراسی وجہ سے حافظ حسین احمدکاشکوہ ہے کہ اب یہ جھنڈے طاہر القادری اور عمران خان کی جماعت سے ہیں۔حافظ حسین احمد کوویسے اس معاملے میں زیادہ گلہ سے پرہیز کرناچاہئے کیونکہ بقول بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں کے خود ان کی پارٹی کے جھنڈے میں بھی ڈنڈا فوج ہی کاہے۔ ایسا نہ ہوتاتومولانا فضل الرحمن صاحب اکثراوقات اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرتے نظر نہ آتے۔ اسی اثر کی وجہ سے ہے کہ ضیا الحق کا دور ہو یا مشرف کا ان کی جماعت ہمیشہ حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بہت سی مذہبی جماعتیں جو اس بات پر مصر ہیں کہ ان کے جھنڈے آزاد ہیں اپنے آپ کو بچانے یا ترقی دینے کیلئے فوج کے ڈنڈے کا سہارہ لیتی رہی ہیں۔ ان ہی میں سے حافظ حسین احمد کی جماعت بھی ہے ۔ ایم ایم اے کی تحریک ہو یا بینظیرمخالف اتحاد یاپھرمشرف کو سترھویں ترمیم کے ذریعے سہارادینے کاعمل حافظ حسین احمد کی جماعت نے اپنے جھنڈے کے لئے فوج کے ڈنڈے کا استعمال کیا۔ اب اگلے چند ماہ میں الیکشن کی آمد آمد ہے اور اسی کی وجہ سے یہ سرگوشیاں یا شکایتیں ہیں کہ فوج اس بارکس جھنڈے کا سہارا بنے گی یایہ کہ فوج ان کے جھنڈے کے لئے ڈنڈا کیوں نہیں دے رہی۔ طاہر القادری صاحب کے لانگ مارچ سے لے کر عبوری حکومت بننے تک بلکہ اس کے بعد ہونے والے الیکشن تک یہ سوال ، سرگوشیاں یونہی گردش کرتی رہیں گی اور اب فہمیدہ ریاض کی ایک نظم کی چند لائنیں:
”وہ جن کے ساتھ دھوکہ ہوا“
ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا
چھین لیا گیا جو کچھ ہمارے پاس تھا
دیدہ دلیری سے چرا لیا گیا
اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی!
کہ چرایا جارہا ہے ہمارا مال
رنگ روپ ہمارا، ساری طاقت
ہاضمہ ، یادداشت
چرا لئے گئے ہمارے دانت اور بال تک
کس کے در پر فریاد کریں؟
نہ قاضی ہے نہ اس کے عمال
کہ چرائی جاچکی ہے ہماری بینائی اورسماعت
اور ویرانے میں اجڑے پجڑے کھڑے ہیں
اس حالت میں…کہ پہچانے تک نہیں جاسکتے
”ارے! کیا تم وہی ہو“ لوگ کہتے ہیں
جب ہم دہائی دیں تو ان کے پتھر دلوں پر اثر تک نہیں ہوتا
تازہ ترین