• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امن و استحکام کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کی ناگزیر ضرورت ہے لہٰذا جب دو ملکوں کے درمیان کسی تنازع کے باعث کشیدگی بڑھتی ہے اور وہ باہمی بات چیت سے اسے دور کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے تو مہذب دنیا کا یہ معروف طریقہ ہے کہ دوسرے ممالک ثالثی کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، لیکن حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں مودی حکومت نہ تو باہمی مذاکرات کے لیے پاکستان کی پے درپے پیشکشوں کو قبول کرنے پر تیار ہوئی اور نہ دوسرے ملکوں کی ثالثی کی پیشکشوں پر اس کا ردعمل مثبت ہے۔ پاکستان کی پیشکشوں پر اس کے منفی ردعمل کے باعث عالمی سطح پر یہ احساس بڑی شدت سے ابھرا کہ جب مودی سرکار حکومت پاکستان کی دعوت قبول نہیں کر رہی ہے تو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑک اٹھنے کے خدشات کی روک تھام کے لیے اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ لہٰذا پچھلے تین چار دنوں میں بڑی عالمی طاقتوں سمیت متعدد ممالک نے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اس مقصد کے لیے بنفس نفیس بھارت اور پاکستان کے دورے کا پروگرام بنایا جبکہ روسی وزیر خارجہ نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی باقاعدہ پیشکش کی جسے پاکستان کے وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قبول کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن مودی حکومت کے منفی رویے کی وجہ سے ایک طرف سعودی وزیر خارجہ اپنا پروگرام مؤخر کرنے پر مجبور ہوئے اور دوسری طرف روس کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کو ماسکو میں تعینات بھارتی سفیر ونکاتش ورما نے انتہائی کھردرے لب و لہجے کے ساتھ مسترد کر دیا۔ روس یا کسی دوسرے ملک کی جانب سے ثالثی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اول تو روس سمیت کسی بھی ملک نے تنازع کے حل کے لیے ثالثی کی کوئی پیشکش کی ہی نہیں اور اگر کی بھی ہے تو قبول نہیں کریں گے۔ حقائق کے بالکل برعکس انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان اور بھارت کے دمیان صورت حال پہلے ہی تیزی سے مستحکم ہو رہی ہے اور کشیدگی کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے بھارت کے عملی رویے کے بالکل منافی یہ بات بھی کہی کہ بھارت کشیدگی نہیں چاہتا اور اپنی اس خواہش کا اظہار وہ پہلے ہی کر چکا ہے جبکہ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مودی سرکار کے حکم پر بحیرہ عرب میں اسکورپین سب میرین تعینات کر دی گئی ہیں۔ دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج مسلسل گولہ باری میں مصروف ہے جس کے جواب میں پاکستانی افواج بھی بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں، نتیجتاً کشیدگی میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور خطے میں باقاعدہ جنگ چھڑنے کا خطرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ واضح شواہد کے مطابق نریندر مودی جنگ پر صرف اس لیے کمربستہ ہیں کیونکہ وہ جنگ کو اپنی انتخابی کامیابی کے لیے لازمی سمجھتے ہیں۔ ثالثی کی تازہ ترین پیشکش گزشتہ روز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کی ہے لیکن مودی سرکار کی ہٹ دھرمی کے باعث ایسی کسی بھی کوشش کی کامیابی محال نظر آتی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے کشمیری عوام کی غیر متزلزل حمایت کا عزم دہرایا ہے اور تنازع کشمیر کو پاک بھارت کشیدگی کا بنیادی سبب قرار دیتے ہوئے جنوبی ایشیا میں امن کے لیے اس قضیے کے منصفانہ تصفیے کو ناگزیر بتایا ہے۔ قرارداد میں کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے۔ یہ قرارداد بلاشبہ خیر مقدم کے لائق ہے، تاہم مودی حکومت کی جانب سے خطے کو جنگ کے شعلوں میں جھونکنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ او آئی سی اور پوری عالمی برادری ایسے مؤثر سیاسی، سفارتی اور اقتصادی اقدامات عمل میں لائے جو بھارت کو پاکستان سے براہ راست مذاکرات کرنے یا کسی تیسرے ملک کی ثالثی قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے حوالے سے نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ علاقائی اور عالمی امن و استحکام کا یقینی بنایا جانا اس کے بغیر ممکن نہیں۔

تازہ ترین