• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی حملہ کے جواب میں پاک فوج کی کارروائی پر جس طرح پاکستانی قوم متحد ہوئی ہے ۔یقیناً یہ قابل ستائش ہے۔ کاش یہ جذبہ صرف جنگی کارروائی تک محدود نہ رہے بلکہ یہ یکجہتی پاکستان کی ترقی کے لیے بھی ہو۔ آج ہمارے نوجوان جس طرح سوشل میڈیاپہ پاکستان کی بھارت پر برتری ثابت کررہے ہیں۔ بالکل اسی طرح یہ متحد ہوکر عہد کریں اور ثابت کریں کہ یہ تعلیم، ٹیکنالوجی، زراعت، صنعت، ثقافت، کھیل الغرض ہر میدان میں متحدہوکر بھارت پر اپنی سبقت اور برتری ثابت کریں۔ کیونکہ صرف زبانی تکرار وہ نتائج نہیں لاسکتی جو کہ مضبوط حکمت عملی اور قوت ارادی لاسکتی ہے۔ہماری فوج اسی لیے کامیاب ہے کہ وہ عملی میدان میں بہت آگے ہے۔ بھارت کی طرح دشمن کو صرف للکارتی نہیں ہے۔ لہذا اب وقت ہے فوج کہ شانہ بشانہ چلنے کا۔ آیئے! اپنے ملک سے سچی محبت کریں صرف بھارت کی دشمنی میں نہیں۔ بلکہ صرف اور صرف ملک کو " اپنایئے" (own)۔ اس کو اپنی ملکیت سمجھیے جیسے اپنی ذاتی چیزوں کی فکر اورحفاظت کرتے ہیں اس کی بھی کیجئے۔ کیا ہم میں سے کوئی اپنے گھر میں تھوکتا ہے؟ کیا اپنے گھر میں کہیں بھی کچرا پھینکتاہے؟ کیا اپنے گھر میں شامیانہ لگانے کے لیے زمین میں سوراخ کرتا ہے؟ کیا گھر کا کچرا اپنے گھر کی نالیوں میں ڈالتا ہے؟ نہیں نہیں! کیوں نہیں کرتے یہ سب؟ اسی لیے نہ کہ سب کومعلوم ہے کہ ان سے ہمارا گھرا گندہ ہوگا، فرش خراب ہوجائے گا، نالیاں بند ہوجائیں گی تو پھر گھر میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔ جب یہ سب کچھ اپنے گھر کے لیے سوچتے ہیں تو کیا اپنی گلی، محلے، سڑک، روڈ، شہر ، صوبے اور ملک کے لیے نہیں سوچ سکتے؟ کیا یہ سب ہمارا اپنا نہیں ہے؟ ذرا ساسوچ کو بدلیں اور متحد ہوں کہ اب سڑک پہ چلتے ہوئے یاراستے میں کوئی نہیں تھوکے گا، ورنہ ہم خود جرمانہ لیں گے، فلیٹوں اور اسپتالوں کی سڑھیوں پہ چڑھتے یااترتے ہوئے کوئی بھی کونے میں " پان کی پیک" نہیں تھوکے گا۔ بلدیاتی اداروں کی مدد کرکے پبلک باتھ رومز کے قیام کویقینی بنایا جائے گا اور ان کی صفائی ستھرائی کا منظم بندوبست کیا جائے گا تاکہ سڑک کے کنارے اورپارکوں میں سرعام فراغت کا اہتمام نہ ہورہاہو۔ کچرا ایک گھر سے نکل کر کسی دوسرے گھرکے باہر نہیں پھینکا جائے گا، کسی بھی قسم کی تقریب ہو شامیانہ باندھتے ہوئے سڑک پہ کیل نہ ٹھوکی جائے گی بلکہ درختوں، کھمبوں اور داخلی دروازوں سے باندھا جائے گا۔ یہ کام صرف حکومت پہ ڈال کر ہم بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ جب اپنے گلی، محلے، شہر ، صوبے کو آپ اپنائیں گے تو پھر یقیناً ان کی ترقی اور Developmentکی بھی فکر ہوگی۔ اس کے لیے اگر ہم نوجوان ہیں تو ہمیں صرف ڈگری حاصل کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی فکر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنا ہے کہ ہم ایسا کیا پڑھیں کہ ہمارے ملک کو بھی اس سے فائدہ ہو۔ خود اچھا پڑھیں، خود معیار تعلیم کو بڑھائیں، سائنس کے میدان میںزیادہ سے زیادہ آئیں۔ تحقیق کریں اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھیں۔کب تک دوسروں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے" اترائیں " گے اب ملک کو " اترانے" کا موقع دیں۔ سائنس کے علوم میں مہارت حاصل کرکے جدید تحقیق کے ذریعہ نئی ایجادات(invention)یا پھر ایجاد کی ہوئی چیزوں میں جدت (Innovation)پیدا کرکے اپنے ملک کی دنیا میں پہچان بنایئے۔ اپنی ثقافت کو زیادہ سے زیادہ عام کیجئے۔ نہ کہ نقالی کرتے ہوئے اپنی پہچان ہی بھول جایئے۔ کیونکہ قوم وہی زندہ رہتیں ہیں جو معاشی، سائنسی اور ثقافتی طور پر آگے ہوتی ہیں۔ صرف سوشل میڈیا میں آگے ہونے سے نہیں۔ ذراسوچئے اور عمل کیجئے۔ملک کو بدنام کرکے عالمی اعزاز لینے سے بہتر نہیں ہے کہ ملک کا نام روشن کرکے اعزاز حاصل کیا جائے۔

تازہ ترین