• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”میں صدق دل سے عہد کرتا ہوں کہ میں اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردوں گا۔میں اپنے اساتذہ کو وہ عزت و تکریم دوں گا جو ان کا حق ہے ۔میں اپنا کام ضمیر کے مطابق پروقار طریقے سے سر انجام دوں گا۔ مریض کی صحت میری پہلی ترجیح ہوگی۔میں اپنے مریض کے رازوں کا امین رہوں گا اور اس کی موت کے بعد بھی انہیں افشا نہیں کروں گا۔میں ،اپنے تمام اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے، شعبہ طب کی اعلیٰ روایات اور وقار کو برقرار رکھوں گا۔میرے ساتھی میرے بھائی اور بہن کی طرح ہوں گے۔میں اپنے فرض اور اپنے مریض کے درمیان عمر، بیماری، معذوری، عقیدے، نسل، جنس، قومیت، سیاسی وابستگی، جنسی ترجیحات، سماجی رتبے یا ایسے دیگر عوامل کی بنیاد پر امتیاز برتنے کی اجازت نہیں دوں گا۔میں انسانی زندگی کا انتہائی درجے احترام کروں گا۔میں اپنے شعبے کا علم، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی خلاف ورزیوں کے لئے استعمال نہیں کروں ،ممکنہ خطرات کی صورت میں بھی نہیں ۔میں یہ تمام وعدے آزادانہ طور پرحلفاًاپنی عزت کی قسم کھا تے ہوئے کر رہا ہوں۔“
یہ وہ جدید حلف نامہ ہے جو شعبہ طب سے وابستہ افراد(ڈاکٹرز وغیرہ) کے لئے 1948میں تشکیل دیا گیا۔ اصل حلف نامہ پانچویں صدی کے بابائے طب Hippocrat کے نام سے منسوب ہے جسے دنیا کی تاریخ کا قدیم ترین عہد نامہ بھی کہا جاتا ہے ۔لیکن جہنم میں گیا یہ عہد نامہ یا حلف یا جو بھی بے معنی نام آپ اسے دینا چاہیں۔اگر میں ڈاکٹر ہوں اور ینگ ہوں تو مجھ پر کسی قسم کے عہد نامے ،قانون ،قاعدے یا ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ”میں تے ٹبّر کھا جاواں پر ڈکار نہ لواں۔“ یقین نہیں آتا تو میر ی وہ ویڈیو فوٹیج نکال کر دیکھ لیں جس میں آپ کے شہر گوجرانوالہ کا یہ شہزادہ اپنے ہی ہسپتال کے ایم ایس کو کرسی سے اٹھا کر زمین پر پٹختا ہے اور پھر مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتا ہے ۔یار لوگوں کو وہ سین بھی بہت پسند آیا ہے جس میں پولیس والے اس شیر جوان کو گرفتار کر کے گاڑی میں بٹھا رہے ہیں ۔”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے !“
آپ میں سے جن احباب کو اب تک اس کالم کا سر پیر سمجھ نہیں آیا ان سے گذارش ہے کہ اپنا علاج کسی سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں تعینات ”ینگ ڈاکٹر“ سے کروا کے دیکھیں ،دو منٹ میں ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ۔قصہ ہے گوجرانوالہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا جہاں نام نہاد ینگ ڈاکٹرز کی تنظیم کے عہدے داروں نے بدمعاشی کی تاریخ رقم کردی ۔اپنے سرغنہ بلال کاشف کی معیت میں ڈاکٹروں کے اس گینگ نے ایم ایس کے دفتر پر دھاوا بولا، اسے گریبان سے پکڑ کر زمین پر پھینکا اور پھر اپنے اس سینئر ڈاکٹر کی مکوں اور ٹھڈوں سے تواضع کی ۔یہی نہیں بلکہ اس گینگ نے ان کیمرہ مینوں کی بھی دھلائی کر دی جو اس واقعے کی ویڈیو بنانے میں مشغول تھے ۔جب یہ مناظر ٹی وی چینلز نے نشر کئے تو عوام دم بخود رہ گئی ،انہیں یقین ہی نہیں آیا کہ کوئی ڈاکٹر اس قسم کی بدمعاشی بھی کر سکتا ہے۔ اگلے روز لاہور میں ان کے پیٹی بند بھائیوں نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں ان کے رنگ لیڈر حامد بٹ نے گوجرانوالہ کے گینگسٹرز کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کو دھمکی دی کہ انہیں خود کش بمبار بننے پر مجبور نہ کیا جائے ۔یہ سب دیکھنے کے بعد میں نے اپنے ایک نہایت شریف اور بے ضرر قسم کے ڈاکٹر دوست کو فون کیا تاکہ اس کا رد عمل معلوم کیا جا سکے ۔نہ جانے کیوں مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ میرا دوست یہ کہے گا کہ اس قسم کی بد معاشی کرنے والے ڈاکٹروں کا ہم سے کوئی تعلق نہیں یا ان ڈاکٹرز کا رویہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ الٹا میرے دوست نے اپنے کولیگ ڈاکٹرز کی بدمعاشی کا یہ جواز پیش کیا کہ گوجرانوالہ کے ہسپتا ل میں دو مہینے سے تنخواہیں نہیں دی گئیں تھی لہٰذا ایم ایس کو مارنا جائز تھا۔یہ تاویل بالکل ویسی ہی تھی جیسی خود کش بمباروں کے حمایتی ان کے عمل کا جواز تلاش کرتے وقت دیتے ہیں ۔میں نے مایوسی سے فون بند کر دیا۔
اگر تھانے میں تھرڈ ڈگری کا استعمال قانونی طور پر جائز ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ حقدار یہ ینگ ڈاکٹرز ہوتے ۔ان ڈاکٹرز میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو ایف ایس سی میں مطلوبہ نمبر لینے میں فیل رہے چنانچہ انہیں کنگ ایڈورڈ یا ایسے ہی کسی دوسرے ڈھنگ کے کالج میں داخلہ نہ مل سکا۔یہاں سے ناکام ہو کر انہوں نے چین اور روس کی وسط ایشائی ریاستوں کا رخ کیا اور من کی مراد پائی۔ یہ ”میڈان چائنا ڈاکٹرز “ہیں،جس قسم کا دو نمبر مال چین تیار کرتا ہے ویسے ہی یہ دو نمبر ڈاکٹر ہیں۔انہیں بدمعاشی کی لت اس وقت پڑی جب پنجاب حکومت نے ان کی ہڑتال کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے اور ان کا سروس سٹرکچر کا مطالبہ منظور کر لیا ۔یہ مطالبہ ان مذاکرات کے نتیجے میں منظور کیا گیا جو حکومت پنجاب کی اعلیٰ قیادت اور ڈاکٹرز کے درمیان ہوئے ۔ان مذاکرات کے بعد نہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہر گریڈ میں ڈاکٹرز کی سینکڑوں نئی آسامیوں کی منظوری دے دی بلکہ اب ہر تین چار ماہ ان کے بورڈ کا اجلاس ہوتا ہے جن میں ڈاکٹرز کو اگلے گریڈ میں ترقی دی جاتی ہے ۔اس کے بعد سروس سٹرکچر کا معاملہ بند ہو گیا اور بظاہر مسئلہ حل ہوگیا مگرحقیقت میں ان ینگ ڈاکٹرز کو بدمعاشی کا چسکا پڑ گیا ۔وہ دو نمبر ڈاکٹر جو پہلے سیکشن افسر کے کمرے میں جانے سے گھبراتے تھے ،اب ایم ایس کے کمرے کا دروازہ ٹھوکر مار کر کھولتے ہیں، اسے دھمکاتے ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر کسی ڈاکٹر کی غیر حاضری نہیں لگائی جائے گی ، ایڈہاک ڈاکٹرز کے کنٹریکٹ میں ان کے خواہش کے مطابق توسیع کی جائے گی اور ہسپتال کے انتظامی معاملات ان کی منشا کے تحت چلائے جائیں گے۔ گوجرانوالہ میں بھی یہی ہوا۔جس قسم کی بدمعاشی کی روایت ان ینگ ڈاکٹرز نے ڈال دی ہے، وہ دن دور نہیں جب ہماری پنجابی فلمیں گجروں کی بجائے ڈاکٹرز پر بنیں گی جیسے ”ڈاکٹر دا کھڑاک“ ،”جگا تے ڈاکٹر“ وغیرہ وغیرہ۔
ڈاکٹرز اگر سروس سٹرکچر ملنے کے بعد بھی اپنے آ پ کو مظلو م ہی سمجھتے ہیں تو ان کے لئے بہتر ہے کہ نجی شعبے میں جائیں جو 70%فیصد پر مشتمل ہے ۔اگر انہیں اپنی قابلیت کا اتنا ہی زعم ہے تو لعنت بھیجیں نوکری پر اور اپنی پریکٹس کریں۔لیکن یہ دو نمبر ڈاکٹر بڑے سیانے ہیں ،انہیں اپنی اوقات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ان کا کیا مول لگنا ہے ۔ان ڈاکٹرز کا حال پولیس کے سپاہیوں یا خاصہ داروں سے بد تر نہیں ہے جو دہشت گردی کی اس جنگ میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں اور اس لئے ہڑتال نہیں کر سکتے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی پولیس یا فوج نہیں ہوتی جو نوکری سے فارغ ہونے کی صورت میں انہیں کھپا لے۔دنیا میں کہیں بھی ریاست کو اپنی ملازمت کی شرائط یوں ڈکٹیٹ نہیں کروائی جاتیں جیسے یہ نام نہاد ینگ ڈاکٹرز کروانا چاہتے ہیں ۔اس وقت میڈیا ،سول سوسائٹی ،قانون ساز ادارے غرض سب ہی ڈاکٹرز کی اس بدمعاشی سے تنگ آئے ہوئے ہیں لہٰذا حکومت کے لئے یہ نادر موقع ہے کہ ان بدمعاش عناصر کا سر کچل دے ،تمام بدمعاش ڈاکٹرز کو نوکری سے فارغ کرے اور نئی بھرتیاں کرے۔ بیروزگاری بھی کم ہوگی اور ریاست کی رٹ بھی بحال ہوگی۔ ورنہ آج ہسپتال بند ہوئے ہیں تو کل سکول بند ہو جائیں گے ،اس تالہ بندی کو بند کرنا ہوگا۔
تازہ ترین