• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ جمہوری حکومت کے 5سال مکمل ہونے کے قریب پہنچ رہے تھے، الیکشن کمیشن کے سربراہ فخرالدین جی ابراہیم اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے سرگرم ہو چکے تھے ۔ بات چیت اب سیٹ اپ اور درمیانی مدت کے لئے نگران حکومت لانے کی بھی بہت زور شور سے بحث جاری تھی اور یہی لگ رہا تھا کہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں متفق ہو چکے ہیں اور اب سرکاری نوٹیفکیشن آیا اور جب آیا کہ اچانک علامہ طاہر القادری جن کا ایک ماہ سے تمام بڑے بڑے شہر بشمول کراچی میں پوسٹروں سے آگاہ کیا جارہا تھا کہ وہ پاکستان واپس لوٹ رہے ہیں اور ان کا نعرہ سیاست نہیں ریاست کو بچانے کی آخری کوشش کی جائے گی۔ تو اچانک ہر طرف بھونچال آگیا سیاستدانوں نے حمایت اور مخالفت میں زبردست بیان بازی شروع کر دی ۔ پھر لاہور کے بہت بڑے جلسے کے بعد تو میڈیا نے ان کا ٹرائل شروع کر دیا ۔ ان کے خلاف بہت سے اینکروں نے ٹی وی میڈیا پر اور کچھ نامور کالم نگاروں نے ان پر شکوک و شبہات کی یلغار کر دی اور ان کی ماضی کی سیاست کے حوالے سے اور موجودہ تقریروں ، پریس کانفرنسوں کے حوالے سے متضاد کالم بھی لکھ دیئے۔ کم ازکم ابھی تک میری نگاہ سے ایک کالم بھی ان کے حق میں نہیں لکھا گیا۔ پہلے تو عمران خان تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے اقدامات کی حمایت کر چکے تھے مگر جب انہوں نے نگران وزیراعظم نہ بننے کا اعلان کیا اور 14جنوری 2013ء کو اسلام آباد مارچ کا عندیہ دے دیا تو وہ اس لانگ مارچ سے پیچھے ہٹ گئے۔ البتہ ان کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے، مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی صاحبان نے ان سے خصوصی ملاقات کی اور مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ البتہ متحدہ قومی مومنٹ کے سربراہ نے طاہر القادری کی کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ لاہور کے جلسے میں بھرپور شرکت اور پھر کراچی میں 90 پر بلا کر ان کے حق میں بہت بڑا جلسہ کر کے ان کے 14جنوری کے لانگ مارچ کی نہ صرف توثیق کی بلکہ اپنے تمام کارکنوں ، عوام اور ہمدردوں کو بھرپور شرکت کرنے کا اعلان بھی کر دیا جس سے حکمران حلقوں میں زبردست کھلبلی مچ گئی،کیونکہ اسلام آباد کا گھیراوٴ حکومت کا گھیراوٴ سمجھا جاتا ہے جبکہ خود متحدہ قومی موومنٹ حکومت کی سب سے اہم حلیف ہے جو روز اول سے آصف علی زرداری کی بھرپور حمایت کرتی رہی ہے ۔ اس اچانک تبدیلی سے پی پی پی حلقے گومگوں میں پڑ گئے اور اس گتھی کو سلجھانے کے لئے وزیر داخلہ رحمن ملک جو گزشتہ 5سالوں میں لندن جا کر الطاف حسین کو منوانے میں بہت مشہور تھے اس موقع پر ناکام دکھائی دیئے اور قائد تحریک نے ان کو آخری خبریں آنے تک پاکستان واپس جانے تک علامہ پروفیسر طاہر القادری سے ملاقات کا مشورہ دیا ہے ۔ وہ جاکر ان سے14 جنوری2013ء کے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے بات چیت کریں۔ البتہ قائد تحریک نے حکومت سے نکلنے کی تردید بھی کر دی تاکہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی افواہیں جو گزشتہ ایک ہفتہ سے مخصوص حلقوں کی طرف سے پھیلائی جارہی تھیں ان کو لگام دی جا سکے اور ایم کیو ایم پر اس کا الزام بھی نہیں لگ سکے اور یہ بھی معلوم کیا جائے کہ علامہ طاہر القادری کس قسم کی اصلاحات چاہتے ہیں۔ کیا ان اصلاحات کی وجہ سے الیکشن کو ملتوی ہونے سے روکا جائے یا پھر الیکشن کو موٴخر کر دیا جائے۔ موجودہ الیکشن کے انعقاد کے لئے چیف الیکشن کمیشن کی تمام سفارشات خود حکومت بھی مان چکی ہے اور ان پر عملدرآمد کے احکامات بھی خصوصی طور پر جاری کر دیئے گئے ہیں ۔ دوسری طرف الیکشن کی نگرانی خود فوج کی طرف سے بھی مل چکی ہے تاکہ شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے تاکہ پوری دنیا کے سامنے عوام کھل کر اپنے اپنے نمائندوں کا چناوٴ کرسکیں اور دھاندلیوں سے پاک اصل نمائندے آئندہ اقتدار سنبھال کر اس ملک سے کرپشن ، دہشت گردی ، لاقانونیت کا خاتمہ کر سکیں۔ اتنے کم وقت میں کیا ایسا ممکن ہو سکے گا جبکہ مسلم لیگ (ن) کھل کر طاہر القادری کی آمد اور لانگ مارچ کی مخالفت کر رہی ہے ۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ الیکشن ملتوی کرانے کے لئے خود حکومت نے لانگ مارچ، سیاست نہیں ریاست کا نعرہ دیا، یہ درپردہ ایک چال ہے جس کی وجہ سے عوام کو سڑکوں پر لا کر امن وامان کی صورتحال کو بگاڑ کر جمہوریت دشمن عناصر کو کھلا موقع فراہم کیا جائے تاکہ حکومت کے 5سالہ کردار پر پردہ ڈالا جا سکے اور ایک تیر سے 2شکار کر کے الیکشن کو ملتوی کرانے کا پورا بہانہ حکومت کے ہاتھ آجائے مگر ایک طرف عوام جو موجودہ حکومت سے شاکی ہیں، عمران خان فیکٹر کو بروئے کار لانے کی اُمیدیں رکھتے ہیں اس اچانک تبدیلی سے پریشان ہیں اور خود موجودہ حکومت بھی پریشان ہے کہ کہیں مصر کی طرح یا لیبیا کی طرح عوام تحریر اسکوائر (جہاں سے مصری حکمران حسنی مبارک )کے خلاف شروع ہونے والی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی سے ہمکنار ہو کر 3دہائیوں سے زیادہ اور مضبوط ترین حکومت آناً فاناً ڈھیر ہو گئی ۔ کہیں یہی تاریخ پاکستان میں نہ دہرا دی جائے گی پھر عوام کا مستقبل کس کے ہاتھوں میں جائے گا یہ کسی کو نہیں معلوم۔ اس سونامی کے لئے میدان کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ3سالوں میں عوامی جلسوں سے تیار کیا تھا اور 5سال سے مسلم لیگ (ن) جو کھل کر فوج کے مقابلے میں پی پی پی کو پورا موقع دے چکی تھی اور اس کا صبر بھی عوام میں حالیہ الیکشن میں جیت کی صورت میں نظر آرہا تھا، وہ کیسے راتوں رات اس میدان کو ہاتھ سے جاتا دیکھ سکتے ہیں۔ آخری اُمید چیف جسٹس اور فوج بھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے حامی نہیں ہیں، تو پھر یہ لانگ مارچ کس کے اشاروں پر برپا کیا جارہا ہے ۔ اصلی اصلاحات تو عوامی نمائندوں ہی سے جمہوری تقاضوں کو پورا کر کے کی جا سکتی ہیں اور صرف شفاف الیکشن کی صورت میں عوام کی اُمیدوں اور آخری کوشش سے ہی ہو سکتی ہے ۔ عوام اس بات سے بھی خائف ہیں کہ اس لانگ مارچ کی آڑ میں ملک میں انارکی نہ پھیلے اور پولیس ، رینجرز کی ناکامی کی طرح فوج کے ہاتھوں سے بھی بات نکل جائے اور بلوچستان کی طرح بقایا ملک میں بھی افراتفری پھیل جائے لہٰذا اب تمام سیاستدانوں کو مل کر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے، پاکستان کی بقاء کے لئے انہیں مل بیٹھ کر بیان بازی بند کر کے آخری فیصلہ کرنا ہے اور ہر صورت میں صاف شفاف الیکشن کا سب نے مل کر انعقاد ممکن بنانا ہے اور الیکشن ملتوی کرانے کے ہر راستے بند کرنے چاہئیں اور اقتدار میں آنے والی جماعت پر چھوڑ دینا چاہئے ۔ البتہ اب عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے ووٹوں کا استعمال کرے تاکہ انہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے ۔اب خود قوم کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ فوج اور عدلیہ اس الیکشن کی نگران ہے اور وہ اپنے سچے اور حقیقی نمائندوں کو ہی چنیں جو ان کو اس دلدل سے نکال سکیں ۔کاش یہ الیکشن ہمارے ملک کی سیاہ راتوں کو روشن مستقبل میں تبدیل کر دے ۔
تازہ ترین