• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشکول کی شکل تبدیل کردینے سےنیشنل فنانس کمیشن ( این ایف سی ) ایوارڈکا مسئلہ حل ہوگا، خساروں میں کمی آئے گی اور نہ ہی قرضوں کے اَنبارمیں۔ حکومتوں کا سارا زور ترسیلات ِزر یا مزید قرضوں پر رہا ہے۔ اِس تناظر میں موجودہ حکومت کا قصور بس اتنا ہےکہ اِن کے پاس قطرے میں دجلہ دیکھنےوالے ناپید ہیں۔ مسائل اور قرضوں کی دَلدل میں پھنسے مُلک کو مصنوعی معیشت دھکیلنے والے افراد کی نہیں، بلکہ کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے، جو اپنی قوّت ِارادی اور بصیرت کے بَل بُوتے پر کسی بھی کام کو کا م یابی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیّت رکھتے ہوں۔ جمہوریت کےعَلم بردار، جاگیردار کرپشن کے ذریعے عوام کو مزید عذابوں سے دوچار کرتے رہیں گے۔ اکثر لوگ بھارت اور مغربی ممالک کی جمہوریت کی مثال دیتے اور اُنہیں سراہتے ہیں، لیکن جب فلسطین اور کشمیر کے حرّیت پسند حقِ خودارادی کا مطالبہ کرتے، اُس کے لیے جدّوجہد کرتے ہیں، تو مثالی جمہوریت کے یہی عَلم بردار اور محافظ انہیں خاک و خُون میں نہلا دیتے ہیں۔ فلسفی اور ریاضی دان، برٹرنڈرسل نے ایک جگہ لکھا کہ ’’جمہوریّت میں تاجروں اورصنعت کاروں کو لُوٹنےکی آزادی حاصل ہے، جب کہ محنت کَشوں کو بھوکوں مرنے کی آزادی‘‘۔ جب عوام چہرے نہیں، نظام بدلنے والوں کو منتخب کریں گے، تو پھر اُن کے مسائل بھی حل ہوں گے اور حقیقی جمہوریت کا تصوّر بھی بحال ہوگا۔ موجودہ پارلیمانی یا صدارتی جمہوریت میں، کسی شہری یا کسی لکھاری کا اس زُعم ِبے جا میں مبتلا ہوجانا کہ اصل حاکم مَیں ہوں اور اپنے ووٹ سے اپنی مرضی کی حکومت لا سکتا ہوں، ایساہی ہے کہ مرغ باد ِنما یہ سمجھے کہ ہوا اُس کی وجہ سے چل رہی ہے۔

کبھی سوچا ہے کہ پاکستان، قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود غریب کیوں ہے؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پَس ماندہ اور محکوم ملکوں کی صنعتی ترقّی روک کر اِن کا خام مال، پانی کے مول حاصل کرنا اور اپنی مصنوعات و مشینری، اِن کو مہنگے داموں فروخت کرنا، جدید سامراجی لوٹ کھسوٹ کا سب سے اَہم طریقہ ہے۔ قابل ِغور بات ہے کہ بڑے سرمایہ دار ممالک میں بھی دولت کی نا منصفانہ تقسیم ہوتی ہے، چوں کہ اِن ملکوں میں دولت زیادہ ہے، اس لیے عام آدمی کو سہولتیں میسّر ہیں اور بہ ظاہر سب ٹھیک لگتا ہے۔ 2009ء میں دنیا کے پچیس امیر ترین ممالک کے بارے میں اقوام ِمتّحدہ کی ایک تجزیاتی رپورٹ سامنےآئی،جس کےمطابق ’’سماجی عدم مساوات کے اعتبار سے برطانیہ چوتھے نمبر پر تھا۔ برطانیہ کی کُل آمدنی کا 42 فی صد، مُلک کےپانچ فی صد امیر ترین افراد کو ملتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ شہر کے امیر ترین دس فی صد لوگوں کے پاس اوسطاً9 لاکھ 33ہزار 563پائونڈز کے اثاثوں کا ارتکاز ہے۔ اس کے مقابلے میں اسی شہر کے غریب ترین دس فی صد افراد، اوسطاً تین ہزار چار سو بیس پائونڈز کے اثاثوں کے مالک ہیں۔‘‘ یہ اعدادوشمار حال ہی میں بی بی سی پر شیفیلڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر، ڈینیل ڈولنگ کی کتاب، ’’بے انصافی: عدم مساوات جاری کیوں؟‘‘ کے بارے میں گفتگو کے دوران سامنے آئے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے قرض دار مُلکوں میں اشرافیہ، جو عالمی سامراج کے حاشیہ بردار اور وکیل بھی ہیں، وہ دو نمبر معیشت کو لُوٹ کر اب بند گلی میں لے آئے ہیں، لیکن لُوٹنے والوں کا محاسبہ یا احتساب ’’ڈالر جمہوریت‘‘ نہیں کرسکتی۔

سرمایہ دارانہ نظام کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ٹیکسوں کے بغیر نہیں چلتا اور ہمارے مُلک میں ٹیکسوں کا نظام نہایت ہی بوسیدہ اور استحصالی ہے۔ اُمرا، ٹیکس ادا نہیں کرتے یا اُن سے لیا نہیں جاتا اور بجلی، گیس، پانی، اشیائےخورونوش، ملبوسات، خریداری وغیرہ پر عوام کو جو بالواسطہ جبری سیلزٹیکس اداکرناپڑتا ہے،2012ء سےزیادہ ترتاجروں اور صنعت کاروں نے اُسے بھی چوری کرلیا اور 450ارب روپے خزانے میں جمع نہیں کروائے۔ گزشتہ حکومتوں نے اُن سےکہابھی نہیں کہ سیلز ٹیکس کی مَد میں ملنے والی رقم تو جمع کرواؤ۔ موجودہ حکومت نےاُس ٹیکس کا 50فی صدیہ سوچ کر معاف کردیا کہ شاید اب یہ لوگ ٹیکس ادا کردیں، مگراس کے باوجود صاحبِ حیثیت، 200ارب روپے جمع کروانے سے گریزاں ہیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ شاید 50فی صد معاف کرنے کے بعد یہ رقم ادا کردیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ ریونیو اکٹھا کرتے ہیں، لہٰذا انہیں این ایف سی ایوارڈ میں بڑاحصّہ ملنا چاہیے۔ زرعی ٹیکس کوئی نہیں دیتا، دوسری جانب، تاجر اور صنعت کار، عوام سےسیلز ٹیکس لے کر 70فی صد خود ہضم کرجاتے ہیں۔ کراچی واٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ پانی کے بقایا جات 36ارب روپے ہیں، جن میں سے29ارب روپے حکومت اور سرکاری اداروں پر واجب الادا ہیں، ایسی صورت ِ حال میں غریب عوام، حکومت سے کیا اُمّیدیں وابستہ کریں۔ حال ہی میں وزیر ِ خزانہ، اسد عُمر کی زیر ِقیادت 9ویں این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس منعقدہوا،جس میں وزیر ِخزانہ نے تجویز دی کہ صوبے، ِانٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کی بات چیت میں شریک ہوں، کیوں کہ 18وِیں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس زیادہ اختیارات ہیں، اِسی لیے آئی ایم ایف کے ساتھ محصولاتی اہداف مقرر کرنے میں آسانی ہوگی۔ آخرکار اجلاس میں طے ہوا کہ چھے ورکنگ گروپ تشکیل دیئے جائیں، جو این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں سفارشات پیش کریں۔ جس میں (i)مائیکرو اکنامک فریم ورک اور بینچ مارکیٹنگ کا طریقۂ کار بتائیں۔ (ii)عمودی تقسیم کرنے کا پول تشکیل دیں۔ (iii)اسی کے ساتھ اُفقی تقسیم کا پول بھی بنائیں۔ (iv)براہ ِراست منتقلی کا طریقہ کار طے کریں۔ (v)ٹیکس کے طریقۂ کار کو سادہ بنائیں۔ (vi)فاٹا اور کے پی کے کے مسائل بھی دیکھیں۔ ان سفارشات نے آئی ایم ایف کے پروگرام کو واہمے کا شکار کردیا ہے۔ تاہم، وزیر ِاعظم کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بارے میں سیاسی مشکلات کو پیش ِنظر رکھ کر آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج پر غور کرنے کے ساتھ اسے ’’ری وِزٹ‘‘ کرنے پربھی زور دے رہے ہیں، کیوں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کا بنیادی خیال یہ ہے کہ بھوکے رہو اور ادائی کرو۔ اسد عمر نے کم اَزکم، این ایف سی ایوارڈ کے ساتھ ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی بات چیت میں صوبوں کو شامل کرنےکی اچھی تجویز تودی۔ تاہم، موجودہ بات چیت میں وفاق کے حصّے کو کم کیاگیاہے،مگرجوشعبےاٹھارویں ترمیم کےبعد صوبوں کے حوالے کیے گئے تھے، اُن کے بجٹ میں کٹوتی نہیں کی گئی۔ایک طرف گردشی قرضے 1400ارب روپے کےہیں، تودوسری جانب تمام پاور کی ڈیسکو کمپنیاں(بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں) ایک عرصے سے نقصان پر چلائی جارہی ہیں، تیسری جانب سی پیک کے 60ارب ڈالرز کے قرضوں میں پاکستان کو ایک ڈالر نہیں ملا۔ چین جو کچھ بنا رہا ہے، وہ بتا دیتا ہے کہ اتنے ڈالرز خرچ ہوگئے ہیں اور پاکستان قرض اور سود جتنا بھی بنے گا، نقد دے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنے ڈالرز کہاں سے آئیں گے۔ 100ارب ڈالرز کے دیگر قرضہ جات الگ ہیں۔ پاکستان اسٹیل مِلز، پی آئی اے اور ریلوے کے نقصانات کے علاوہ گیس چوری بھی عروج پر ہے، تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ وفاقی حکومت صوبائی سرپلس ہی کو استعمال کر کے اٹھارویں ترمیم کے بعد اپنا خسارہ پورا کرے گی، اس بحران کو کرپٹ افردا اپنے بچائو کے لیےاستعمال کررہے ہیں، جو ملک کےلیےکسی صُورت بہتر نہیں۔ صوبۂ سندھ کے وزیر ِاعلیٰ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سیلز ٹیکس صوبے ہی لےسکتےہیں، لیکن وفاق اپنے آپ کو محتاج نہیں ہونے دے گا۔ اس لیے دانش مندانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ فاٹا کے بارے میں وفاق کا موقف بھی دُرست ہےکہ این ایف سی کے حوالے سے فاٹا کا حصّہ صرف کے پی کے کو نہ دیا جائے۔ نظام ِ ٹیکس کو بہتر بنانا انتہائی ضروری ہے۔ مناسب اِنکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس وصول کیا جائے۔ بےشمار ریستوران، ملز مالکان، اربوں روپے کمارے ہیں، مگر ٹیکس ہضم کرجاتے ہیں۔ عالمی بینک سے 56ارب روپے (400ملین ڈالرز) لےکرٹیکس سسٹم درآمد کرنا بےسود ہوگا۔ پاکستان میں انتہائی قابل ماہرین ِٹیکس موجود ہیں، صرف قانون پرسختی سےعمل کروانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں امیر طبقےپرٹیکسوں اوریوٹیلیٹی بلزکابوجھ کم اورغریب پر زیادہ ہے، اسے کم کیا جاناچاہیے۔

سندھ حکومت کاتجزیہ جس تناظر میں کیا جارہا ہے، اِس میں این ایف سی ایوارڈ اور اٹھاروِیں ترمیم ہی کو عمل میں لایا جائے، تو غریبوں کے دن بدل سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا ٹیکس گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ(جی ڈی پی) تناسب 12.6فی صد ہے،جو عالمی بینک کے مطابق 23 فی صد ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوجائے، تو این ایف سی ایوارڈ بھی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن مال داروں سے ٹیکس لینا، حکومتوں کے لیےہمیشہ ہی دردِسر رہا ہے۔ سروسز سیکٹر، جی ڈی پی کا 56فی صدہے اور یہ شعبہ 1/2فی صد ٹیکس، باالفاظ دیگر 0.5 فی صدٹیکس ادا کرتا ہے، جو عوام پر ظلم کے مترادف ہے۔ سیلز ٹیکس سے گیارہ فی صد حاصل ہوتا ہے، جب کہ عوام سے لیا ہوا ٹیکس بھی چوری ہوجاتا ہے، تو پھر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب آمدنی کے ذرایع چوری ہوجاتے ہیں، تو این ایف سی ایوارڈ میں انصاف کیوں مانگا جارہا ہے؟

تازہ ترین