• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی دراندازی: پاکستان نے دفاعی اہلیت، اخلاقی برتری ثابت کردی

بھارتی دراندازی: پاکستان نے دفاعی اہلیت، اخلاقی برتری ثابت کردی
پاک فضائیہ کے شاہینوں کی جوابی کارروائی کا نشانہ بننے کے بعد آزاد کشمیر کی حدود میں گرنے والے بھارتی مِگ 21طیّارے کا ملبہ

27فروری کی صبح پاکستان ایئر فورس نے بھارت کے دو مِگ 21 نامی جنگی طیّاروں کو نشانہ بنایا۔ ان میں سے ایک آزاد اور دوسرا مقبوضہ کشمیر میں گرا۔ پاکستان نے آزادکشمیر کی حدود میں گرنے والے بھارتی لڑاکا طیّارے کے پائلٹ، وِنگ کمانڈر، ابھے نندن کو حراست میں لینے کے بعد یکم مارچ کو جذبۂ خیر سگالی کے تحت بھارت کے حوالے کر دیا۔ پاکستان ایئر فورس نے 26 فروری کو بھارتی میراج طیّاروں کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر، جسےہراعتبار سےایک بین الاقوامی جُرم بھی قرار دیا جا سکتا ہے، یہ جوابی کارروائی کی۔ پاک فضائیہ کی کارروائی سے ایک روز قبل بھارتی طیّاروں نے ردِ عمل کے خوف سے فرار ہوتے ہوئے بالا کوٹ کے قریب جابہ کے ایک غیر آباد مقام پر 4 بموں پر مشتمل اپنا پے لوڈ گرایا۔ پاک فضائیہ کی جانب سےدو بھارتی جنگی طیّارے تباہ کیے جانے کے بعد وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ’’ بھارت کو جواب دینا ہماری مجبوری تھی، کیوں کہ کوئی بھی مُلک کسی دوسرے مُلک کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کی سرحدوں میں داخل ہو کر کارروائی کرے یا خود ہی جج بن کر فیصلہ کرے۔ ہمارا مقصد بھارت کو یہ بتانا تھا کہ ہم جوابی کارروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘ اسی تقریر میں عمران خان نے ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں مل بیٹھ کر بات چیت سے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ موجودہ صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ بھارت عقل و حکمت سے کام لے، کیوں کہ جس قسم کے ہتھیار دونوں ممالک کے پاس ہیں، ان کی موجودگی میں ہم کسی غلط اندازے کے متحمّل نہیں ہو سکتے۔‘‘ وزیرِ اعظم پاکستان کا اشارہ اُن جوہری ہتھیاروں کی جانب تھا، جو جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے پڑوسی ممالک کے پاس ہیں۔ اس سے اگلے روز 28 فروری کو قومی اسمبلی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے گرفتار بھارتی پائلٹ کو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا، جو پاک، بھارت تنائو اور پڑوسی مُلک میں عنقریب ہونے والے انتخابات کے تناظر میں جذبۂ خیر سگالی کا غیر معمولی اظہار تھا۔ یاد رہے کہ بھارت میں انتخابات قریب آتے ہی پاکستان مخالف جذبات بھڑکانا اہمیت اختیارکرجاتاہے اورہر سیاسی جماعت اپنی انتخابی مُہم میں اسےہتھیارکےطورپر استعمال کرتی ہے۔ تاہم، اس مرتبہ بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی اور اُن کی جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس انتخابی حکمتِ عملی نے یوں انتہائی خوف ناک شکل اختیار کرلی کہ دونوں ممالک جنگ کےدہانےپرجاپہنچے۔ نیز،بھارتی اشتعال انگیزی پر پاکستان کے ردِ عمل سے پیدا ہونے والی شدید کشیدگی نے ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیا کو دُنیا کی نگاہوں کا مرکز بنا دیا۔ اس صورتِ حال پر عالمی طاقتوں اور دُنیا بَھر کے ممالک نے تشویش کا اظہار کیا۔ امریکا، چین، رُوس، برطانیہ، یورپی یونین اور اہم اسلامی ممالک نے دونوں ریاستوں پر زور دیا کہ وہ تحمّل کا مظاہرہ اور صورتِ حال کو معمول پر لانے کے کوشش کریں۔ علاوہ ازیں، اس ضمن میں اعلانیہ اور پس پردہ زبردست سفارتی کوششیں بھی جاری رہیں۔

بھارتی دراندازی: پاکستان نے دفاعی اہلیت، اخلاقی برتری ثابت کردی
گرفتار بھارتی پائلٹ، ابھے نندن کو واہگہ بارڈر سے اس کے مُلک لے جایا جا رہا ہے

حربی ماہرین کا ماننا ہے کہ 27 فروری کو پاک فضائیہ نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے مؤثر انداز میں اپنی جنگی و دفاعی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ کارروائی کی تفصیلات بتاتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان ادارے، انٹرسروسزپبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ’’اُس روز صبح ہی سے لائن آف کنٹرول پر بھارت کی اشتعال انگیزکارروائیاں جاری تھیں، جس کے پیشِ نظر پاک فضائیہ نے بھارتی فوجی تنصیبات اور انسانی جانوں کونقصان پہنچائےبغیر بعض مقامات کو ہدف بنانے کا فیصلہ کیا۔ پاک فضائیہ نے بھمبر گلی، کے جی ٹاپ اور ناریان کے علاقے میں انڈین آرمی کے ڈِپوز کو لاک کیا اورحفاظتی فاصلہ رکھتے ہوئے ہدف کو نشانہ بنایا۔ مجموعی طور پر4مقامات سے6اسٹرائیکس کی گئیں۔ پاک فضائیہ کی جانب سے اہداف کو نشانہ بنائےجانے کےبعد ایک مرتبہ پھر دو بھارتی طیّارے ایل او سی کی خلاف ورزی کرتےہوئےہماری جانب بڑھے،لیکن شاہینوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے انہیں تباہ کر دیا۔ ان میں سے ایک طیّارہ مقبوضہ اور دوسرا آزاد کشمیر میں گرا۔ پاک فوج نے بھارتی وِنگ کمانڈر اور جہاز کے پائلٹ، ابھے نندن کو حراست میں لیااور کےساتھ فوجی روایات اور انسانی اقدار کے مطابق سلوک کیاگیا۔‘‘ قبل ازیں،26 فروری کو تقریباً شب 3بجے بھارتی فضائیہ کےایک درجن میراج طیّاروں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں در انداذی کی۔ اس بارے میں پاک فوج کے ترجمان نے بتایا کہ ’’اُن کی فارمیشن 4سے5ناٹیکل میل کے اندر آئی، جنہیں پاکستان ایئر فورس نے چیلنج کیا۔ بھارتی طیّاروں نے جاتے ہوئے پے لوڈ ڈراپ کیا اور ان کے 4بم جابہ کے مقام پر گرے۔ جابہ، مظفرآباد سےتقریبا 40کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک غیر آباد علاقہ ہے، جہاں صرف 6،7مکانات ہیں۔ بم گرنے سے زمین پر گڑھے پڑ گئے اور چند درخت جڑ سے اُکھڑ گئے۔‘‘

بعض دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارتی طیّارے دریائے نیلم کے راستے آئے اور پاکستانی جنگی جہازوں کی للکار پر فوراً واپس چلے گئے اور اس واقعے کا دورانیہ 4منٹ سے بھی کم تھا۔ تاہم، بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس کے میراج طیّاروں نے کنٹرول لائن کے پار واقع جیشِ محمّد کا کیمپ تباہ کرنے کے ساتھ اُن کے 350جنگ جُو ہلاک کیے، مگر وہ تاحال اپنے اس مضحکہ خیز دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا۔ پاک فوج کے ترجمان، میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں بھارتی میڈیا کےاس دعوے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھارت نے حملہ نہیں، بلکہ در اندازی کی اور اب ہماری باری ہے۔ بھارت ہمیں کبھی سرپرائز نہیں دے سکتا، لیکن ہم بھارت کو سرپرائز کر سکتے ہیں۔ اس مرتبہ ہمارا جواب مختلف ہو گا۔ وقت اور جگہ کا تعیّن ہم خودکریں گے۔ بھارت ہمارےسرپرائز کا انتظار کرے۔‘‘ اور پھر اُس کے اگلے ہی روز 27فروری کو پاک فضائیہ نے بھارت کے دو جنگی طیّارے تباہ کر کے اُسے نہ صرف حیران بلکہ پریشان بھی کر دیا۔

اوپر بیان کردہ واقعات کے محرّکات پر نظر ڈالی جائے، تو دراصل14فروری کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع، پلواما میں ہونے والے خود کُش حملے میں 44بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاک، بھارت تعلقات شدید کشیدہ ہوئے۔ واقعے کی ذمّے داری جیشِ محمد نامی تنظیم نے فوری طور پر قبول کر لی، جب کہ فوجی اہل کاروں کی ہلاکت کے بعد بھارت میں غم و غصّے کی شدید لہر دوڑ گئی۔ اس موقعے پر بھارت کی سیاسی قیادت، میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین کے غیر ذمّے دارانہ رویّے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بھارت پر جنگی جنون سوار ہوگیا اور ہر طرف سے پاکستان کو سبق سکھانے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ تاہم، پاکستان نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اس دوران سعودی عرب کے ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان پاکستان اور بھارت کےدورے پرتھے۔ شہزادے کی پاکستان سے رخصتی کےبعدوزیرِ اعظم، عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر بھارت، پلواما واقعے میں کسی پاکستانی کے ملوّث ہونے کا ثبوت فراہم کرے، تو ہم اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی پاکستانی وزیرِ اعظم نے بھارت کو یہ انتباہ بھی کیا کہ ’’حملے کی صورت میں پاکستان سوچے گا نہیں، بلکہ فوری جواب دے گا۔‘‘ یہ ایک اچّھی پیش کش تھی، لیکن بھارتی قیادت نے اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور پھر 26فروری کو پاکستان میں در اندازی کا واقعہ پیش آیا۔ 28فروری کو بھارت کی فوجی قیادت نے اپنی پریس کانفرنس میں دوسری مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ بھارتی فضائیہ نے پاکستان کا ایف 16طیّارہ مار گرایا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ دوسری مرتبہ یہ دعویٰ کرنے کا مقصد امریکا کو یہ بتلانا تھا کہ پاکستان اس کی جانب سے فراہم کیے گئے ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال کر رہا ہے، لہٰذا اس پر عاید پابندی قائم رہے، جب کہ پاک فوج کے ترجمان پہلے ہی کہہ چُکے تھے کہ پاکستان ایئر فورس کی جوابی کارروائی میں ایف 16طیّاروں نے حصّہ نہیں لیا۔ علاوہ ازیں، ماہرین نے بھارتی فوج کے اس دعوے کو باطل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوجی حُکّام نے میڈیا کو جہاز گرنے کا مقام دکھایا اور نہ ہی ملبہ، بلکہ اس کی بہ جائے میزائل کا ایک ٹکڑا ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا، جو ان کے مطابق تباہ ہونے والے طیّارے سے فائر کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق، یہ ثبوت ناکافی ہے اور اسے صرف بھارتی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے پیش کیا گیا، تاکہ وہ اپنی فوجی قیادت کے دعوے کو سچ مان لیں۔ علاوہ ازیں، اسے اپنے جارح مزاج میڈیا کو مطمئن کرنے، پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کو ہوا دینے اور سُبکی سے بچنے یا فیس سیونگ کی ایک بھونڈی کوشش بھی قرار دیا جارہا ہے۔

بھارتی دراندازی: پاکستان نے دفاعی اہلیت، اخلاقی برتری ثابت کردی
بھارتی وزیراعظم، نریندر مودی                                                              پاکستانی وزیراعظم، عمران خان

پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی اس غیر معمولی کشیدگی نے اقوامِ عالم میں بھی تشویش کی لہر دوڑا دی اور اوپر تلے رُونما ہونے والے ان واقعات کی تپش امریکا، چین، رُوس، برطانیہ اور یورپی یونین جیسی عالمی طاقتوں اور اسلامی ممالک تک نے محسوس کی۔ ماضی کی طرح ان تمام ممالک نے دونوں ریاستوں کو تحمّل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ اس کا پہلا سبب تو یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ گرچہ کوئی بھی مُلک ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا تصّور تک نہیں کر سکتا، لیکن بھارت کےجنگی جنون کو دیکھتے ہوئے عالمی برادری کی جانب سے پیش بندی ضروری تھی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے ویت نام کے دارالحکومت، ہنوئی میں شمالی کورین رہنما، کِم جونگ اُن سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں پاک، بھارت تنائو کم کرنے کے لیے اپنی کوششوں کا ذکر ضروری سمجھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بہت جلد ایک اچھی خبر سامنے آئے گی اور پھرچند گھنٹوں بعد ہی عمران خان نے بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا، جسے بھارت نےجذبۂ خیر سگالی کی بہ جائے خوف کے زیرِ اثر کیا جانے والا عمل قرار دیا۔ تاہم،ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی پائلٹ کی واپسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان قیامِ امن کے لیے کوشاں ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی امریکا نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ تاہم، اس مرتبہ شاید کچھ تاخیر ہو گئی۔ اس سارے عرصے میں امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو اپنے پاکستانی و بھارتی ہم منصبوں بالترتیب شاہ محمود قریشی اور سُشما سوراج سے مستقل رابطے میں رہے۔ انہوں نے کشیدگی کا آغاز ہوتے ہی دونوں ممالک کو کوئی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کی ہدایت کی کہ جس سے معاملات مزید خراب ہوں۔ چین نے بھی روزِ اوّل ہی سے پاکستان اور بھارت سے رابطہ قائم رکھا اور فریقین کو پُر امن ذرایع پر انحصارکا مشورہ دیا۔ رُوسی صدر، ولادی میر پیوٹن کی نریندر مودی سے گفتگو کے فوراً بعد رُوسی حُکّام نے یہ بیان جاری کیا کہ رُوسی صدر دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی بُحرانی کیفیت کے خاتمے کے لیے پُر امید ہیں، جب کہ رُوسی وزیرِ خارجہ پہلے ہی مذاکرات میں مدد کی پیش کش کر چُکے تھے۔ برطانوی وزیرِ خارجہ، جیریمی ہَنٹ نے شاہ محمود قریشی سے تنائو پر تفصیلی بات چیت کی اور دونوں ممالک کو بات چیت سے کشیدگی کم کرنے کا مشورہ دیا۔ تُرک صدر، رجب طیّب اردوان کے عمران خان سے ٹیلی فونک رابطے کے بعد اُن کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان کشیدگی پر تبادلۂ خیال ہوا۔ نیز، اس سلسلے میں پاکستان اور تُرکی کے درمیان رابطے جاری ہیں۔ متّحدہ عرب امارت کے ولی عہد اور وزیرِ اعظم، محمدبن زید النّہان نے دونوں ممالک کے وزرائے اعظم سے گفتگو کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے معاملات سُلجھانے کا مشورہ دیا۔ قبل ازیں، سعودی ولی عہد اور وزیرِ خارجہ، عادل الجبیر نے اپنے دورۂ پاکستان و بھارت کے دوران کشیدگی کم کروانے کی کوشش کی۔

بھارتی دراندازی: پاکستان نے دفاعی اہلیت، اخلاقی برتری ثابت کردی
پاکستان ایئر فورس کی کام یاب کارروائی کے بعد میجر جنرل،آصف غفور پریس کانفرنس کر رہے ہیں

دفاعی ماہرین اس اَمر کی جانب خصوصی توجّہ دلاتے ہیں کہ آج عالمی برادری کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور شدّت پسندی ہے۔ نئی دہلی ہمیشہ اسلام آباد کو دفاعی پوزیشن پر لانے اور پوری دُنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے کہ پاکستان میں شدّت پسندوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں، لیکن اس مرتبہ وزیرِ اعظم، عمران خان نے اپنی تقاریر میں بھارت کو یہ پیش کش کی کہ پاکستان دہشت گردی سمیت ہر مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا بالکل دُرست ہے کہ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا مُلک ہے۔ اب تک اس کے 70,000سے زاید شہری دہشت گردی کا نشانہ بن چُکے ہیں اور اربوں ڈالرز کا معاشی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے جاری جنگ کے نتیجے میں، جس میں کئی فوجی افسران اور سپاہی شہید ہوئے، پاک فوج اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں کام یاب ہوئی ، لہٰذا وہ کیسے اس خوف ناک عمل کو دُہرانے کی اجازت دے سکتی ہے۔ نیز، آج پوری دُنیا ہی پاک فوج کو دہشت گردوں کے خلاف سب سے مؤثر کارروائی کرنے والی فورس تسلیم کر چُکی ہے۔ سو، ایسے میں بھارت کی جانب سے پرانے الزامات کو دُہرانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ماہرین کا ماننا ہےکہ بھارت کےپالیسی ساز ابھی تک 20برس پُرانی سوچ سے نہیں نکلے۔ وہ یہ سمجھنے پر آمادہ نہیں یا یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اب پاکستانی قوم کی سوچ بالکل بدل چُکی ہے اور وہ مسلسل شدّت پسندی و دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت،ماہرین اور دانش ور اس اَمر کو صرف محسوس ہی کرلیں، تو بھارت کے لیے پاکستان سے مذاکرات کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ پھر بھارت اس بات پر بھی مُصر ہے کہ پاکستان میں اختیارات کا منبع اسٹیبلشمینٹ ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زاید عرصے سے جمہوریت قائم ہے اور اس عرصے میں ہر حکومت ہی نےتمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔ اگر بھارت، پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات کا سبب اسٹیبلشمینٹ کو گردانتا ہے، تو اِسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوری ممالک میں اس قسم کے اختلافات معمول کا حصّہ ہوتے ہیں اور خود بھارت کو بھی اس وقت کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ اس وقت پاکستانی حکومت ہی فیصلہ کُن طاقت ہے، لہٰذا بھارت کو بے بنیاد مفروضوں کا سہارا لے کر مذاکرات ٹالنے کی کوشش ترک کردینی چاہیے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاک، بھارت تنائو کا بنیادی سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام حقِ خود ارادیت مانگتے رہے، لیکن بھارت نے پوری دُنیا کے سامنے ہامی بھرنے کے باوجود انہیں یہ حق نہیں دیا۔ آج کشمیری 8لاکھ بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آچُکے ہیں اور آزادی کی خاطر کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ ہیں۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی بھارت کے لیے آزمایش بن چُکی ہے۔ بھارت خود کو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کشمیریوں کو اُن کے بنیادی جمہوری حق سے محروم رکھے۔ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی بھارت کےاِس دعوے پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ دوسری جانب بھارت گزشتہ کئی برسوں سے اقتصادی ترقّی کو اپنی پالیسی کا محور قرار دیتا آ رہا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے بھی اس کی تیز رفتارنمو کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن اس کا سہرا بھارتی عوام کے سَر بھی جاتا ہے، جو اپنے مُلک کو غُربت و جہالت کی دلدل سے نکالنے کےخواہش مند ہیں۔ اگر بھارت اپنی ترقّی کی رفتار مزید بڑھانا چاہتا ہے، تو اسے اپنی تمام تر توجّہ معیشت پر مرکوز کرنا ہوگی۔ اگر بھارت تیزی سے ترقّی کرنے والے چین سمیت دیگر ایشیائی ممالک ہی پر نظر دوڑائے، تو اسے پتا چلے گا کہ انہوں نے پہلے دوسرے ممالک سے اپنے تنازعات پُر امن انداز میں سُلجھائے اور پھر اقتصادی ترقّی کے سفر پر گام زن ہوئے۔ گرچہ بھارت 1962ء کی سائنو، انڈیا جنگ کو نظر انداز کر کے چین کے ساتھ تجارت کررہاہے،لیکن کیامسئلہ کشمیرکی موجودگی میں اس پورے خطّے کی خوش حالی ممکن ہے؟ کیا 8لاکھ فوج کے بَل پر کشمیریوں کو کُچلنا اور اس مَد میں سالانہ اربوں روپے کا زیاں قابلِ فہم ہے؟ واضح رہے کہ جلد یا بہ دیر مسئلہ کشمیر حل ہونا ہی ہے اور وہ بھی عوامی امنگوں کے مطابق، کیوں کہ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ اس مسئلے کو ٹال کر اپنے عوام کی خوش حالی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، بھارت کے لیے کسی طور مناسب نہیں اور یہ بات تمام بھارتی طبقات کو سمجھنا ہوگی۔ چُوں کہ مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں، کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت، اس لیے تینوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔ آج کشمیری شہری بندوق اور جیلوں کے خوف سےآزاد ہوچُکے ہیں اور ہر آن آزادی کا مطالبہ کر رہےہیں۔ یہ بھارتی قیادت کے لیے انتہائی تشویش ناک صورتِ حال ہے، لیکن وہ اس کا سامنا کرنے کی بہ جائے آنکھیں چُرا رہی ہے۔

تاہم، اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی پاکستان سے بات چیت پر آمادہ نہیں اور دلیل یہ پیش کی جا رہی ہے کہ ماضی میں ایسی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد یہ ممکن نہیں۔ بھارتی حکومت مذاکرات کو اُڑی، پٹھان کوٹ اور پلواما سمیت دہشت گردی کے دوسرے واقعات میں ملوّث عناصر کو پاکستان کی جانب سے سزا دیے جانے سے مشروط کرتی ہے، جو نہایت غیر منطقی بات ہے۔ پاکستان مجرموں کو سزا دینے سے انکاری نہیں، مگر وہ ٹھوس ثبوت مانگ رہا ہے، جیسا کہ پلواما واقعے کے دو ہفتے بعد فراہم کیے گئے، لیکن کیا اس کے بغیر تعمیری بات چیت کا اغاز یا اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوسکتی۔ گرچہ ماضی میں تعلقات کی بحالی کے لیے ’’پیپل ٹوپیپل کانٹیکٹ‘‘ اور ’’ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘‘ جیسے طریقے آزمائے گئے، لیکن ان دونوں طریقوں کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ان کی سمت اعلیٰ قیادت طے کرے، وگرنہ دونوں اطراف سے جو بھی یہ قدم اُٹھائے گا، اُسے غدّاری کے سرٹیفکیٹس تھما دیے جائیں گے اور اس بد اعتمادی کی فضا میں تویہ کوشش ناممکن ہے۔ اگر دونوں ممالک کے ذرایع ابلاغ کی بات کی جائے، تو بھارتی میڈیا کا انداز انتہائی جارحانہ ہے۔ وہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اخلاقیات کی تمام سرحدیں پار کرچُکا ہے۔ چیخ و پُکار اس کی عادت بن چُکی ہے اور شاید اس کی خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی کچھ اسی قسم کا میڈیا فروغ پائے۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر اختلافِ رائے رکھنے والوں پہ پِل پڑنے کےنتائج بھارتی میڈیا کے معاندانہ رویّے کی صُورت ہمارے سامنے ہیں۔ یاد رہے کہ میڈیا کا کام اطلاعات اور حقائق پہنچانا ہوتا ہے۔ گرچہ بعض اوقات مفادات یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے خبر اپنی اصل رُوح کے ساتھ قارئین و ناظرین تک نہیں پہنچ پاتی، لیکن دھمکی آمیز رویّہ اپنانا، دوسرے کی رائے سُننا تک گوارا نہ کرنا اور سخت گیری کا مظاہرہ کرنا، کسی بھی مُلک کے میڈیا کو زیب نہیں دیتا اور اسے کسی طور بھی ایک ذمّے دار اور سنجیدہ میڈیا نہیں کہا جا سکتا۔

پاکستان اور بھارت کےدرمیان جنگ و جدل اور مذاکرات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ تاہم، اس موقعے پر دونوں ممالک کو کشیدگی کی فضا سے نکالنے کے لیے بین الاقوامی برادری کا کردار ایک اچّھی پیش رفت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرنیشنل کمیونٹی کو اس بات کا اندازہ ہوچُکا ہے کہ پاک، بھارت کشیدگی آگے چل کر علاقائی و عالمی امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، لیکن درحقیقت جنوبی ایشیا کے ان دونوں بڑے ممالک کو خود مذاکرات کا آغاز کرنا اور انہیں نتیجہ خیز بنانا ہو گا۔ لیاقت، نہرو پیکٹ سے لے کر نواز، مودی مذاکرات تک دونوں ممالک کے مابین رابطوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس دوران نہ صرف دونوں جانب کی اعلیٰ قیادت ایک دوسرے کا اعتمادحاصل کرنے میں کام یاب رہی، بلکہ عوامی سطح پر بھی روابط استوار ہوئے۔ دونوں ممالک کے درمیان روابط اور قیامِ امن کے لیے کوشاں افراد اور اداروں کو غدّار قرار دینے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا دُنیا بَھر میں امن و آشتی کے لیے سعی کرنے والے اپنے مُلک سے غدّاری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آزادی کے 72برس بعد بھی پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت اور اہلِ دانش یہ سمجھنےسےقاصر ہیں کہ اگردو طرفہ اور علاقائی تنازعات باہمی افہام و تفہیم سے طے کر لیے جائیں، تو اِسی میں پورے خطّے کی بھلائی ہے، کیوں کہ ہماری ان کوتاہیوں ہی کی وجہ سےبیرونی طاقتوں کو پورے جنوبی ایشیا پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کا موقع ملتا ہے۔

تازہ ترین