• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوسف رضا گیلانی نے ایک اخباری خبرمیں ارشاد فرمایا ہے کہ ڈاکٹرطاہر القادری اندھیرے میں بلی تلاش کر رہے ہیں۔ حیرت ہے ابھی تک یوسف رضاگیلانی یہی سمجھ رہے ہیں کہ باہر اندھیرا ہے اور کالی بلی کسی کو دکھائی نہیں دے رہی۔ پتہ نہیں انہوں نے کیسی عینک لگا رکھی ہے کہ اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود بھی انہیں آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کے اجالے دکھائی نہیں دے پائے۔ حضور! عینک اتارئیے، زمانہ بدل چکا ہے کرپشن کرنے والی کالی بلی مسلسل میڈیا کے کیمروں کی زد میں ہے جن کی الیکٹرانک لہریں سیدھی عدالت گاہوں میں پہنچ رہی ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری تو اس یقین کے ساتھ وطن واپس آئے ہیں کہ وہ کرپشن کی کالی بلیوں کو اپنے انجام تک پہنچائیں گے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر یہ خواہش اور دعا ہر پاکستانی کے دل میں دھڑک رہی ہے کہ اللہ اس ملک کو ان کالی بلیوں سے محفوظ رکھے جنہوں نے انسانی خون پی پی کر بہروپ بدلنے کی” شکتی“ حاصل کر رکھی ہے۔ ویسے ایک بات کی داد موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو بھی دینا پڑے گی کہ انہوں نے اس محاورے کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ لوٹ کھسوٹ کی حکومتیں زیادہ دیر نہیں چلتیں۔ عطاالحق قاسمی نے چند سال پہلے کیا سچی بات کہی تھی:
لگتا ہے بہت دیر رکے گی میرے گھر میں
اس رات کی آنکھوں میں شناسائی بہت ہے
واقعی یہ رات بہت طویل تھی۔ پچھلے پانچ سال بہت لمبے تھے۔ ایسا لگتا ہے میرے دیس نے ان پانچ برسوں میں درد کے پچاس سال گزار دئیے ہیں۔ ہاں تکلیف میں رات کب گزرتی ہے مگر اب کچھ کچھ امید کی جھلک دکھائی دینے لگی ہے۔کہیں بہت دور دھندلا سا صبح کا تارا دمک رہا ہے۔ چلو جیسے تیسے رات گزری اس وقت یہ رات ہے تو اپنے آخری پہر میں۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر میں کانپ جاتا ہوں کہ خدانخواستہ میں جسے آخری پہر سمجھ رہا ہوں اگر یہ رات کا پہلا پہر ثابت ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ بہر حال میری تمام دعائیں اُس دھندلے سے صبح کیلئے ہیں جسے عمران خان کہتے ہیں۔
یہ اندھیرے کی بلیاں جو اس ملک کو تباہی کے آخری دھانے تک لے گئی ہیں، ان سے نجات کا ایک طریقہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سوچا ہے جسے میڈیا کے ایک بڑے حصے نے بری طرح مسترد کیا ہے۔ ممکن ہے ڈاکٹر طاہر القادری کا طریقہ درست نہ ہو مگر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ میڈیا کی زبان پر وہی الفاظ کیوں ہیں جو نون لیگ کی زبان سے ابل رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ کالم نگار جو میری طرح امید کی آخری شمع عمران خان کو سمجھتے ہیں وہ بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف بپا ہونے والی نون لیگ کی میڈیا مہم میں پوری طرح شریک ہیں۔ کیوں؟ ڈاکٹر طاہر القادری تو واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے سیاست میں حصہ نہیں لینا یعنی ان کی تمام تر سیاسی مہم جوئی اُس سیاسی پارٹی کیلئے ہے جو ملک کو کرپشن کی کالی بلیوں سے نجات دلانا چاہتی ہے اور وہ صرف تحریکِ انصاف ہے۔
نون لیگ کی میڈیا مہم اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ ایک اینکر پرسن نے ڈاکٹر طاہر القادری کو ایک مخصوص مسلک کا نمائندہ قرار دے کر ملک کو خانہ جنگی کا راستہ تک دکھانی کی کوشش کی ہے۔ ایک اور اینکر پرسن جسے تحریکِ طالبان کے ترجمان اکثر فون کرتے رہتے ہیں اس نے تو ڈاکٹر طاہر القادری کو ایک طرح موت سے ڈرانے کی بھی کوشش کی ہے ا للہ تعالی انہیں ہدایت دے۔ اس تناظر میں یوسف رضا گیلانی کا بیان بھی ایک طرح سے نون لیگ سے ہمدردیاں حاصل کرنے کا طریقہ کار محسوس ہوا ہے۔ ویسے یوسف رضا گیلانی کو بھی نون لیگ میں شامل ہو جانا چاہئے جہاں نواز شریف نے کئی اور ایسے ویسوں کو شامل کرلیا ہے وہاں یوسف رضا گیلانی کے نام کے ساتھ تو سابق وزیر اعظم کا لاحقہ بھی شامل ہے۔ مگر یہ طے ہے ان کے بیٹے کے خلاف کرپشن کے جو کیس ہیں ان میں اگر ان کے بیٹے کی مدد آصف زردار ی نہیں کر سکے تو نواز شریف بھی کچھ نہیں کر سکیں گے۔ پتہ ہے یہ لیڈر یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ میڈیاسے چھپ چھپا کر ہونے والی تمام ڈیلیں آخر میڈیا کے پاس پہنچ ہی جاتی ہیں۔
ویسے میں بچپن سے کالی بلیوں سے ڈرتا آ رہا ہوں اور یہی بے وقوفانہ خیالات رکھتا ہوں کہ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو وہ راستہ چھوڑ دینا چاہئے۔ مگر یہ کالی بلیاں جن کی تلاش میں ڈاکٹر طاہر القادری آئے ہوئے ہیں، یہ تو ایسی خطرناک اور خوفناک ہیں کہ جہاں سے گزر جاتی ہیں وہاں برسوں تک زمین سے کچھ نہیں اُگتا۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے یہ کالی بلیاں مل کر ڈاکٹر طاہر القادری کو زیر کر لیتی ہیں یا وہ اپنے کوئی بہت بڑی ”شکتی“ لے کر آئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کے پاس کوئی بڑی ”شکتی“ ضرور موجود ہے وگرنہ ”کالی بلیوں“ کوخوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے خیال میں یہ شکتی عوام کی شکتی ہے۔ یعنی عوامی طاقت ان کے ساتھ ہے۔ جب کہ کچھ لوگ اسے کسی اور ادارے کی قوت قرار دے رہے ہیں جہاں تک عوامی طاقت کی بات ہے تو اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہر پاکستانی جوعوام میں شامل ہے چاہے وہ کسی بھی ادارے میں کام کرتا ہے۔ اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کی بہتری کیلئے جسے چاہے اسے ووٹ دے یعنی اس کے ہاتھ بیعت کر لے۔
تازہ ترین