• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گروہی جنون اور ہیجان ہر دور میں انسانیت کش رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں قومی اور مذہبی جنون کی ہیں، جن میں آج تک کروڑوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور یہ وہ ہیجان ہے جس کے جراثیم ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس نوع کا جنون پس ماندگی سے لے کر ترقی کی بالائی منازل پر پہنچی ہوئی قوموں میں بلا تفریق پیدا ہو سکتا ہے۔ یورپ کی دو بڑی جنگیں قومی جنون کی لپیٹ میں آکر لڑی گئیں جن میں کئی کروڑ انسان مارے گئے۔ یہ جنون یورپ کی ہی خصوصیت نہیں ہے بلکہ ہم خود بھی اس کا شکار رہے ہیں۔ جب مشرقی پاکستان میں مسلمان بنگالیوں کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی تو مغربی پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں قومی جنون اپنے عروج پر تھا۔ آج بھی جب کمزور قومیتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد ہوتی ہے تو ملک کے غالب حصوں میں قومی جنون طوفانی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہندوستان میں پاکستان کے خلاف اسی طرح کا جنون ہر سو پھیلا ہوا ہے۔ اور اگر غور کریں تو کشمیریوں پر ظلم و تشدد قومی حمیت کے نام پر ہی ہو رہا ہے۔ اگر قومی جنون میں مذہبی ہیجان کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ بھی انسانی تباہی کا باعث بنتا رہا ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں صرف پنجاب میں لاکھوں بے گناہ افراد مذہب کے نام پر قتل کر دئیے گئے تھے اور ’آدمی‘ کو ’انسان‘ بننے کے لئے جن منفی خصوصیات سے نجات حاصل کرنا پڑتی ہے اس میں اولیت قومی اور مذہبی جنون کو حاصل ہے۔

ویسے تو کہا جا سکتا ہے کہ منطق اور سائنس نے بہت زیادہ ترقی کر لی تو تو متذکرہ جنون کا خاتمہ ہو جانا چاہئے تھا لیکن بیسویں صدی کا یورپ اور آج کا برصغیر اس امر کی واضح مثالیں ہیں کہ غیر عقلی انسان کش رویے کسی بھی وقت پیدا ہو سکتے ہیں۔ یورپ میں ہٹلر اور مسولینی کے قومی جنون کا مشہور فلسفی اور سماجی نفسیات دان ایرک فرام (Eric Fromm) نے جو تجزیہ کیا ہے وہ ہماری آج کی صورت حال پر بھی روشنی ڈال سکتا ہے۔ ایرک فرام نے جرمنی کے معاشرے کا تاریخی تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب مشینی پیداوار کی آمد اور صنعتی ترقی کے باعث خود کفیل دیہی سماج کا خاتمہ ہوا تو اس سے مشترکہ سماجی بے یقینی نے جنم لیا۔

خود کفیل دیہات میں ہر فرد کا کردار نسل در نسل مقرر تھا اور ناقابل تبدیل تھا مثلاً لوہار کے بیٹے کو لوہار ہی بننا ہوتا تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ معاشرے کی ذمہ داری تھی کہ وہ لوہار کو پالے اور اس کے لئے ضروریات زندگی فراہم کرے لیکن جب مشین اور صنعت نے آبائی پیشوں کا خاتمہ کر کے فرد کو آزاد کر دیا کہ وہ کچھ بھی بن سکتا ہے (لوہار کا بیٹا اعلیٰ سرکاری افسر بھی بن سکتا ہے) تو اس کے ساتھ ہی اسے پالنے کی ذمہ داری کو بھی ترک کردیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ فرد کچھ بھی بن سکتا ہے لیکن وہ بھوکا بھی مر سکتا ہے۔ اس غیر یقینی سماجی صورت حال میں فرد کی شناخت کا بحران پیدا ہو گیا جس سے ہٹلر اور مسولینی کے فاشی رویے پیدا ہوئے۔ یعنی ہٹلر اور مسولینی نے اپنے عوام کو یہ یقین دلا دیا کہ اگر وہ اپنی شناخت ان کے نام سے کریں گے تو اس کے جواب میں ان کے مستقبل کی ضمانت دے دی جائے گی۔ جرمن اور اطالوی عوام نے آمروں کو بطور ’باپ‘ قبول کر لیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔

ہندوستان میں بھی قومی اور مذہبی جنون کا ماخذ وہی بنیادی تبدیلی ہے جو دیہی پیداواری ذرائع میں تبدیلی کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا جنم بھی اسی کی دہائی میں ہوا جب ہندوستانی معاشرے میں صدیوں سے قائم خود کفیل دیہی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوا تھا۔ جوں جوں دیہی معاشرے نیست و نابود ہوتے گئے ویسے ہی ہندوستان میں قومی اور مذہبی جنون بڑھتا گیا۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی وہی معجون بیچ رہے ہیں جو ہٹلر اور مسولینی بیچا کرتے تھے۔ جس طرح ہٹلر جرمنوں کو پاک بنانے کے لئے یہودیوں کا قتل عام کر رہے تھے ویسے ہی مودی ہندوستان کو مسلمانوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمان بہت آسان نشانہ ہیں کیونکہ دنیا کی بڑی طاقتیں مسلم کشی کے خلاف آواز اٹھا کر مودی سرکار کو ناراض کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان سب صورتوں میں کمزوروں کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مودی سرکار اور ہندوستانی میڈیا پاکستان کے خلاف جس طرح کا جنون ظاہر کرتا ہے وہ چین کے بارے میں نہیں ہے حالانکہ چین ان کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ یہ اس پنجابی محاورے کے مصداق ہے کہ ’’کمزور پر غصہ آتا ہی جاتا ہے اور طاقتور کے سامنے غصہ ہے کہ آتا ہی نہیں‘‘ لیکن معاملہ کسی ملک یا قوم کا ہو۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ منفی قومی اور مذہبی جذبات سے نجات حاصل کی جائے اور ہر انسان کو ایک زندہ ہستی کے طور پر لیا جائے۔ بظاہر یہ کام آسان نظر آتا ہے لیکن تاریخی شہادتیں بتاتی ہیں کہ ایسے رویوں پر قابو پانا بہت دشوار ہے یہ وہ مشکل راستہ ہے جس پر چلنے کی صوفیااور بھگت تبلیغ کرتے رہے ہیں۔

پنجاب کے عظیم شاعر وارث شاہ جب اپنے ہیرو رانجھا کو ’آدمی‘ سے ’انسان‘ بنانے کی منازل سے گزار رہے تھے تو بہت سے مراحل سے گزرنے کے بعد وہ اس قابل ہوا کہ کہہ سکا

’’جیہڑا وطن تے ذات ول دھیان رکھے، دنیادار ہے اوہ درویش کیہا‘‘

(جو قوم اور ذات کو اہمیت دے، وہ دنیادار ہے اور درویش کہلانے کے لائق نہیں ہے)۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین