• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کی تاریخی کشمکش سادہ نہیں، پیچیدگیوں کے پُر شور دریائوں اور نظریاتی آویزش کے آتش فشانوں سے بھری ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں کے دانشور عمر بھر اِس تاریخی کشمکش کے حوالے سے پورا سچ بولنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ دونوں طرف کے جن دانشوروں کو اس پسِ منظر میں سچائی کی مسند پہ بٹھایا جاتا ہے، وہ ’’سائڈ مار‘‘ کر ’’سچ‘‘ بولتے یا بولتی ہیں، بہرحال یہ بھی بے حد جرأت اور حوصلے کا ثبوت ہے۔ واقعہ یہ ہے اِن دونوں ممالک میں اتنی پیش رفت بھی جان ہتھیلی پہ رکھنے کے مترادف ہے، انتہاء پسندوں نے یہاں انسانیت کا توازن ختم کر دیا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا ماننا ہے ’’دونوں ممالک کے تصادم کی ہر قیمت دونوں ملکوں کی نوجوان نسلوں کو ادا کرنا پڑے گی‘‘ یہ درد و کرب بلاول بھٹو کا حصہ ہے، اُن لوگوں کا مسئلہ نہیں جنہیں انسانوں کی جلتی ہوئی چتائوں میں مفاداتی گلاب کے پھول کھلتے دکھائی دیں۔پاکستان نے اس بار بھارت کو اخلاقی اور سفارتی محاذ پر شکست و شرمندگی سے دوچار کیا، عالمی برادری نے بھارت کو انسان بننے کی تلقین اور تنبیہ کی، امریکہ کا بیان اپنی معنویت میں سرفہرست قرار دیا جا سکتا ہے۔ دل چاہتا ہے امریکہ اور پاکستان پر تھوڑی سی گفتگو ہو جائے۔

امریکہ اور ہم ایک دوسرے کے جہیز میں آئے ہوئے ہیں، قیامِ پاکستان کے تقریباً ایک سال بعد ہی امریکہ اور پاکستان نے ایک دوسرے کے جہیز میں یہ تبادلہ کر لیا تھا۔ 70برسوں میں کوئی گالی ایسی نہیں جسے پاکستانیوں نے امریکہ کے لئے استعمال نہیں کیا اور 70برس میں امریکہ کا کوئی ایسا مفاد نہیں جس میں پاکستان کا خون نہیں نچوڑا گیا اور پاکستانی عوام کے انسانی حقوق کے معاملے میں انسانیت دشمنی کا ثبوت نہیں دیا گیا۔ بہرحال پاکستان اور امریکہ تعلقات کے بہی کھاتے کی بیلنس شیٹ یہی ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے لئے پاکستان اور پاکستانیوں کو ذبح کرتا رہتا ہے۔ دونوں نے اس کاروبار میں کبھی ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کیا۔ بانیان پاکستان میں سے قیامِ ملک کے بعد کسی بانی کی امریکی سفیر سے ملاقات کا قصہ ہو، 1965ء کی جنگ ہو، فوجی جرنیلوں کی حکومتوں کے دورانئے ہوں، افغان جہاد ہو یا 9/11کے بعد کی دنیا اور اسامہ بن لادن کا افغانستان، امریکہ اور پاکستان دونوں نے جہد للبقاء کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا اپنا رویہ قائم رکھا یعنی امریکی اپنے فائدے کے لئے ہمیں برباد کرتے رہے اور ہم اپنے فوائد کی خاطر صرف گالم گلوچ اور لعنت ملامت کے ذریعہ غیرت مندانہ حملہ آوری میں مصروف رہے۔

70برسوں میں ہم نے امریکہ کے لئے مغلظات آمیز مذمت اور 9/11کے بعد امریکہ کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کی نعرہ بازی کے جو مینار تعمیر کئے ان کی تعداد کا شمار اور بلندیوں کا اندازہ ممکنہ شماریات کی حدود میں نہیں آ سکتا، کیسا قہقہہ بار المیہ ہے کہ ان 70برسوں کے دوران میں امریکہ اور ہمارا دونوں کا کاروبار ہمیشہ ان خطوط پر ہی استوار رہا ہے، اس تسلسل میں ایک سینٹی میٹر کا فرق بھی رونما نہیں ہوا، ایک ہزار میل لمبی زبان درازی کی بات الگ ہے ورنہ معاملے کی اصل میں تو کرنل قذافی کی سطح کا واقعہ بھی موجود نہیں، جنہوں نے ایک بار امریکہ سے مخاطب ہو کر کم از کم یہ تو کہہ دیا تھا، ’’تم جو چاہو کر لو، ہم تمہارے سامنے جھکیں گے نہیں، اونٹنی کے دودھ اور کھجور کی چند گٹھلیوں پر گزارہ کر لیں گے۔‘‘ اونٹنی کے دودھ اور کھجور کی چند گٹھلیوں پر گزارہ کرنے کی جرأتِ اظہار کے بعد امریکہ نے قذافی کے خیموں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں ان کی معموم بچی نے جام شہادت نوش کیا۔ امریکہ کے خلاف مزاحم کردار کی یہ سب سے کم درجہ کی مثال ہے یا پھر وہ حریت پسند ہیں، جنہوں نے امریکی سامراج کے ساتھ لڑائی میں گم نام قبرستانوں کا مکین بننے کا انتخاب کیا یا آج کے سادہ دل مسلمان، جو تیاری، حکمت اور ہدف کے بغیر اپنے اپنے ملکوں کے ریاستی فیصلوں کے برعکس ذاتی سطح پر آگ اور خون کا کاروبار کر کے امریکہ کو جھکانا چاہتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان میں اس فصل کے سروں کو شمار کرنا ناممکن ہے، یہ اسی فصل کا تسلسل ہے جس کے بیج امریکہ کی سرپرستی میں ’’افغان جہاد‘‘ کی شکل میں بوئے گئے اور ’’ملحد روس‘‘ کی ملحقہ ریاستوں کی علیحدگی کو بلا کسی شرعی سند اور کائناتی اصول کے ’’خدا کی مرضی‘‘ قرار دینے والے آپس میں ایک دوسرے پر پل پڑے، خانہ کعبہ میں اٹھائی گئی قسمیں اور معاہدات بھی ان ہزاروں گردنوں کو ان کے اجسام پر قائم نہ رکھ سکے لہو کے فواروں نے افغانستان کی دھرتی پر ٹریجڈی کی حسرت ناک سرخیاں تخلیق کر دیں۔ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں اور گروپوں کے سربراہ قاضی حسین احمد مرحوم، مولوی فضل اللہ مرحوم، جنرل (ر)حمید گل مرحوم، مولانا فضل الرحمٰن، حافظ محمد سعید وغیرہ اور محفوظ رومانیت پسندی کے جذباتی لکھاریوں نے پاکستان میں امریکہ کے سلسلے میں المناک ترین درجہ کی مزاحیہ ترین کہانی لکھی۔ ہمیشہ یوں لگا امریکہ ہی ان کا وہ مرغوب موضوع ہے جس کے حوالے سے مذہبی اصطلاحات اور جوشیلے مذہبی الفاظ کے ذریعہ پاکستان کے سیدھے سادے مسلمانوں کو مصروف رکھا جا سکتا ہے جس کا مستقل عنوان امریکہ کے خلاف ’’کھڑے ہو جائو‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔

امریکہ 52ریاستوں پہ مشتمل ایک براعظم ہے جس میں 20لاکھ سے بھی شاید زیادہ تعداد میں پاکستانی اپنے خاندانوں، ملازمتوں اور ہزاروں سے لے کر لاکھوں ڈالر کے کاروباری مراکز اور جائیدادوں سمیت قیام پذیر ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان، امریکہ کے ساتھ پتہ نہیں کتنے تجارتی، دفاعی، سیاسی اور بین الاقوامی معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے اور پاکستان کے بین الاقوامی قرضوں کی دستیابی میں امریکہ کا مرکزی کردار ہے۔ ہر دور میں ہمارے ادارے امریکہ محکمہ دفاع پینٹاگان کے ساتھ ہر طرح کے دفاعی نیٹ ورک میں ایک دوسرے سے رابطے میں رہے اور رہتے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کی کھڑکیوں کے آگے آج بھی ہزاروں نہیں تو سینکڑوں پاکستانی امریکہ میں SETTLEہونے کا مقدر آزمانے کے لئے امریکی ویزہ کی خاطر سر تا پا انتظار کھڑے رہتے ہیں۔ کالم کی گنجائش ختم ہوئی، کیا اتنے حقائق گرہ کھولنے کے لئے کافی نہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین