• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقلیتی ہندو برادری کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیان پر پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی منصب سے محرومی اس حقیقت کی مظہر ہے کہ چاند تارے والے قومی پرچم میں اقلیتوں کی نشاندہی کرنے والی سفید پٹی پاکستانی قوم کے لئے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنا اکثریت کی نشاندہی کرنے والا سبز رنگ۔ وزیراعظم عمران خان نے درست طور پر واضح کیا کہ اسلام میں اقلیتوں کے بارے میں ایسے ریمارکس کی گنجائش نہیں جبکہ پاکستان کا آئین بھی اقلیتوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیاض چوہان کو ایوان وزیر اعلیٰ میں طلب کرکے وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت کے شدید ردعمل سے آگاہ کیا گیا۔ فیاض چوہان کا اپنے استعفے کی تصدیق کرتے اور ہندو بھائیوں سے معذرت چاہتے ہوئے اگرچہ یہ کہنا تھا کہ انکی مخاطب ہندو کمیونٹی نہیں بلکہ نریندر مودی اور انکی ہاں میں ہاں ملانے والے تھے تاہم اس بات کو نہ تو نظرانداز کیا جانا چاہئے تھا، نہ نظرانداز کیا گیا کہ وفاقی یا صوبائی وزیر اطلاعات بلکہ ہر وزیر ہی اپنی متعلقہ حکومت کا ترجمان ہوتا ہے اس کا کام احتیاط ، سنجیدگی اور تدبر سے درست اطلاعات، وضاحتوں اور حکومتی موقف سے آگاہی دینا ہوتا ہے۔ فیاض چوہان کے ریمارکس پر پی ٹی آئی کے رہنمائوں نعیم الحق، اسد عمر، شیریں مزاری، ڈاکٹر رمیش کمار کے علاوہ دوسری پارٹیوں، اور سول سوسائٹی کا جو ردعمل سامنے آیا اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ہندو برادری سے جو معذرت کی اسے مدنظر رکھتے ہوئے بعض مبصرین درست طور پر بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ان الفاظ کی گونج سن رہے ہیں جو پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کہے گئے۔ 11؍اگست 1947ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی کے تاریخی اجلاس سے خطاب میں انکا واضح طور پر کہنا تھا کہ ’’آپ کا تعلق کسی مذہب، عقیدے یا مسلک سے ہو اسکا مملکت کے کاروبار سے تعلق نہیں‘‘۔ بابائے ملت جب قوم کو بتا رہے تھے کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے برابر کے شہری ہیں تو اس میں اس تلقین کا پہلو بھی کار فرما تھا کہ ہم سب کو ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال و احترام ہر دم ملحوظ رکھنا ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک فلاحی اسلامی ریاست کے تصور کو عملی شکل دینے کیلئے قیام پاکستان کی جو جدوجہد کی گئی اس میں بہت سے غیرمسلم بھی شامل تھے ان میں سے بعضوں نے برٹش انڈیا کے دوسرے حصوں سے ہجرت کرکے پاکستان میں شامل ہونے والے حصوں میں آنے کو ترجیح دی۔ آج وطن عزیز میں جس ریاست مدینہ کی مثالیں دی جارہی ہیں، اسکے میثاق میں مختلف ادیان سے تعلق کھنے والے قبیلوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی ضمانت دی گئی تھی۔ قرآن و سنت اسلامی ریاست میں حقوق کے تعین و تحفظ کے اعتبار سے مسلمانوں اور ذمیوں کو یکساں حیثیت ،بلکہ تحفظ کے لحاظ سے ذمیوں کو برتری دیتے ہیں۔ ابو دائود کتاب الجہاد کی ایک حدیث میں تو یہاں تک انتباہ ملتا ہے کہ جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا اس کے خلاف روز قیامت پیغمبر آخر الزماںؐ خود مستغیث ہوں گے۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی سمیت وطن عزیز کے کئی شہروں میں مختلف مذاہب اور مسالک میں باہمی روا داری و احترام کا کلچر پایا گیاتاہم بھارت کے مسلم کش فسادات کا ردعمل اور بعض بیرونی سازشوں کے اثرات انتہا پسندی، شدت پسندی اور درآمدہ دہشت گردی کا روپ دھار کر ملک کو نقصانات سے دوچار کرچکے ہیں۔ اب اعتدال پسندی، تحمل اور ترقی کے راستے کی طرف جو سفر بظاہر شروع ہوچکا ہے اسکی کلید آئین پاکستان، قائد اعظم کے افکار اور رواداری پر مبنی ان اعلیٰ اصولوں پر عملدرآمد میں مضمر ہے جنکی بناء پر کبھی غیرمسلم اقلیتیں اس امر پر فخر کرتی تھیں کہ وہ اسلامی ملک کا حصہ ہیں۔ یہ سفر جاری رہا تو بھارت سمیت بہت سے ملکوں میں اس کے مثبت اثرات محسوس کئے جائیں گے۔

تازہ ترین