• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرکٹ کی مخالفت میں بیشمار دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں مثال کے طور پر اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ کرکٹ ایک فرنگی کھیل ہے جسے انگریزوں نے سازشی ذہن کے تحت برصغیر میں متعارف کروایا مگرسچ پوچھئے تو کرکٹ ہمارا قومی نشہ ہے جسے ہم کسی قیمت پر ترک کرنے کو تیار نہیں۔ یہ لت کب اور کیسے لگی ؟اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ انہماک کی شدت بتاتی ہے کہ اس عِلت سے نجات پانے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ کرکٹ سے پاکستانی شائقین کی جذباتی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ قومی کھیل ہاکی کی زبوں حالی پر بات ہو تو بوریت ہونے لگتی ہے، کبڈی کے اکھاڑے اجڑ جانے کا نوحہ پڑھا جائے تو اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے لیکن کرکٹ اسٹیڈیم ویران ہونے کا ذکر چھڑ جائے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ یوں تو کرکٹ کا جادو خیبر سے کراچی تک پورے ملک میں سر چڑھ کر بولتا ہے لیکن زندہ دلان لاہور کو کرکٹ سے عشق ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2017ء میں جب پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہو رہا تھا تو انتہائی سخت سیکورٹی کے باعث قذافی اسٹیڈیم پہنچنا بہت دشوار تھا، کئی گھنٹوں کی تگ وتاز کے بعد لاہوری شائقین اسٹیڈیم میں داخل ہوتے تو ان پربیزاری کے بجائے سرشاری کی کیفیت طاری ہوتی۔ لیکن اس سال لاہورکے شائقین سے یہ خوشیاں چھین لی گئیں اور پی ایس ایل کے جو تین میچ یہاں ہونا تھے وہ بھی کراچی منتقل کر دیئے گئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بظاہر تو میچ کراچی منتقل کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے باعث لاہور میں لاجسٹکس کے مسائل ہو سکتے تھے لیکن یہ عذر نہایت نامعقول محسوس ہوتا ہے۔ 4مارچ سے لاہور ایئر پورٹ پر فلائٹ آپریشن بحال ہوچکا ہے اور نہ بھی ہوتا تو خصوصی انتظامات کے تحت کھلاڑیوں کو سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچایا جا سکتا تھا۔ پھر پی ایس ایل کے میچ کراچی منتقل کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں آپ کو پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے بند ہونے اور پھر کرکٹ کی بحالی کے پس منظر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔

مارچ 2009ء کو جب سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی تو دہشت گردوں نے لبرٹی کے قریب کھلاڑیوں کی بس پر فائرنگ کی جس سے نہ صر ف پولیس اہلکار شہید ہوئے بلکہ مہمان کھلاڑی بھی زخمی ہوئے۔ اس افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شبررضا رضوی نے 120صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ مرتب کی اور اسے پبلک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ سیکورٹی کے ذمہ دار پولیس افسر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ انکوائری رپورٹ میںلاہورکے ڈی آئی جی آپریشنز امجد جاوید سلیمی کو ’’فرض کی ادائیگی میںسنگین کوتاہی‘‘کا مرتکب قرار دیا گیا۔ جسٹس شبر رضارضوی نے لکھا کہ امجد جاوید سلیمی میںسچ کہنے کی جرات نہ تھی اور انہوں نے متضاد بیانات دیئے۔ وہ یہ نہ بتا سکے کہ سیکورٹی پر تعینات فورس طے شدہ وقت پر موجود تھی یا نہیں کیونکہ وہ خود موقع پر موجود ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا۔ جسٹس رضوی نے لکھا کہ امجد جاوید سلیمی فیلڈ/آپریشن ڈیوٹی کے لئے ان فِٹ ہیں۔ اس انکوائری رپورٹ کی روشنی میں غفلت کے مرتکب پولیس افسروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ ہوئی اور آج امجد جاوید سلیمی آئی جی پنجاب ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں جو سادگی اور درویشی کے اعتبار سے تو بہت اچھے انسان ہیں مگر انتظامی معاملات میں اپنی ناتجربہ کاری کا اعتراف کرتے ہوئے وہ خود کہہ چکے ہیں کہ ’’میں زیادہ ٹرینڈ نہیں ہوں نا‘‘۔ پنجاب حکومت توشاید حالات کی سنگینی کا اِدراک کئے بغیرپی ایس ایل کے لئےسیکورٹی فراہم کرنے کی یہ بھاری ذمہ داری اپنے نازک کندھوں پر اٹھانے کو تیار ہو جاتی مگرچونکہ وزیراعظم عمران خان کے پاس وزیراعلیٰ پنجاب کا اضافی چارج بھی ہے اس لئے انہیں مداخلت کرنا پڑی اور برملا کہنا پڑا کہ ’’ساڈے تے ناں رہنا‘‘۔ یہ فیصلہ ان خدشات کے پیش نظر کیا گیا کہ اگر خدانخواستہ لاہور میں کوئی ایسا ویسا واقعہ ہوگیا تو پنجاب میں ’’لاڈلوں‘‘کی حکومت خطرے میں پڑ جائے گی۔

اس سے قبل جب 2017ء میں پی ایس ایل سیزن ٹو کا فائنل لاہور میں کروانے کا اعلان کیا گیا تو اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے عمران خان نے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ ’’پی ایس ایل فائنل لاہور میں کروانا پاگل پن ہے‘‘۔ پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے پیٹھ دکھانے اور ڈر جانے کے بجائے یہ چیلنج قبول کیا اور پھر قذافی اسٹیڈیم میںنہ صرف میدان سجا، بلکہ کھیل جمااور سیٹی بھی بجی۔ اس ’’پاگل پن‘‘کے بعد سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں نے پاکستان کادورہ کیا۔ پی ایس ایل تھری میں دو میچ لاہور میں ہوئے جبکہ حسب وعدہ فائنل میچ کراچی میں کھیلا گیا۔ اگر پی سی بی حکام وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے تو شہبازشریف اور نجم سیٹھی کو ضرور پی ایس ایل فور کی افتتاحی تقریب میںمدعو کرتے کیونکہ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کا کریڈٹ ان دو افراد کو جاتا ہے۔ بہر حال قصہ مختصر یہ کہ اب جبکہ پی ایس ایل سیزن فور کے8میچ پاکستان میں ہونا تھے اور یہ سب کراچی منتقل کر دیئے گئے تو وزیراعلیٰ سندھ مُراد علی شاہ کو کہنا پڑا کہ ہم نے تو ایک آدھ میچ مانگا تھالیکن اس بار تو سارے میچ کراچی منتقل کر دیئے گئے۔

قوموں کی زندگی میں پاگل پن کی بہت اہمیت ہوا کرتی ہے بلکہ ارسطو تو کہتا ہے کہ آج تک کوئی ایسا شہ دماغ نہیں دیکھا گیا جس میں پاگل پن کی آمیزش نہ ہو۔ یہ پاگل پن اور جنون ہی تھا کہ ہم اپنے سے کئی گنا بڑے ملک بھارت کے رعب و دبدبے میں نہ آئے اور آئو دیکھا نہ تائو، بھارتی طیارہ مارگرایا۔ عمران خان تو خود فاسٹ بائولر ہیں اور بطور کرکٹر یہی پاگل پن ان کی پہچان بنا، جس سے وہ آج دور بھاگ رہے ہیں۔ لاہوریوں نے کپتان کا یہ پاگل پن کرکٹ کے میدان میں کئی بار دیکھا ہے اورسیاست میں آنے کے بعد بھی عمران خان کی سیاسی جدوجہد کو پاگل پن کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ عمران خان الیکشن سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اس بار ـ’’نون‘‘کا مقابلہ ’’جنون‘‘ سے ہے۔ لوگوں کو توقع تھی کہ عمران خان کے وزیراعظم بن جانے سے کسی اور شعبے میںبہتری آئے یا نہ آئے کم ازکم پاکستان کرکٹ کا تابناک ماضی ضرور لوٹ آئے گا لیکن پی ایس ایل فورکے میچ لاہور سے کراچی منتقل کرنے سے پاگل پن کی حد تک کرکٹ سے لگائو رکھنے والے شائقین کو مایوسی ہوئی ہے اور لاہوری قلندر بجھے بجھے سے دکھائی دے رہے ہیں۔ کرکٹ کے حیرت زدہ شائقین یہی سوچ رہے ہیں کہ عمران خان کا جنون کہاں گیا ؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین