• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر ابھی تک الطاف بھائی نے اپنا ڈرون حملہ نہیں کیا ہے تو پھر قوم کھانا پینا چھوڑ کر انتظار میں بیٹھی ہو گی کہ کیا ہونے والا ہے اور اگر وہ سیاسی ڈرون چل چکا ہے تو یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ اس کا ہائی ویلیو ٹارگٹ کون تھا اور Collateral نقصان یعنی باقی کون کون گناہ گار یا بے گناہ اس کی زد میں آ کر شہید یا مجروح ہوا۔ جس طرح الطاف بھائی نے سسپنس پیدا کیا ہے اس سے تو لگتا ہے ان کا ہدف کوئی واقعی بہت اونچی پوزیشن والا ٹارگٹ ہی ہو سکتا ہے ورنہ ایسے وقت جب الطاف بھائی ساری کشتیاں دریا میں اتار کر علامہ قادری کے لانگ مارچ میں شامل ہو چکے ہیں اگر ان کا ڈرون کا حملہ بیکار گیا تو بہت بھد ہو گی۔ مگر ان کے اصل ڈرون کے انتظار میں جو چھوٹے چھوٹے ڈرون وہ چلا چکے ہیں ان کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ایک اعلان انہوں نے اپنے تمام ناراض یا سزا یافتہ ورکروں کو ایک عام معافی دے کر کیا ہے۔ سزا یافتہ کا مطلب کوئی جیل کی سزا نہیں مگر یہ وہ لوگ ہیں جنہیں متحدہ نے Ground کر رکھا ہے کیونکہ انہوں نے کہیں کسی طرح متحدہ کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تھی اور ان کے علاقہ انچارج نے انہیں گھر بٹھا دیا تھا۔ کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو خود ناراضی کی وجہ سے ہاتھ پیر چھوڑ کر اپنی معمول کی ڈیوٹی نہیں دے رہے تھے۔ اب ان سب کو دوبارہ Recall کر لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ الطاف بھائی نے اپنے دستوں کو مکمل الرٹ کر دیا ہے اور ایک بڑے معرکے کی پوری تیاری جاری ہے۔ اب اگر ان کا ڈرون ٹھیک نشانے پر لگ گیا اور ہائی ویلیو ٹارگٹ تباہ ہو گیا تو کیا کہنے وگرنہ اعلان جنگ ہوتے ہی تمام جنگجو اپنی اپنی پوزیشنوں پر تیار ہوں گے۔ ایک اور قابل ذکر بیان الطاف بھائی نے یہ دیا کہ اب ملک کو سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے اور پوری قوم کو متحد ہونا ہو گا۔ یہ تو سب کو یاد ہو گا کہ حال ہی میں ہماری مسلح افواج نے اپنی گرین بک میں بھی یہی تبدیلی کی ہے اور خارجی خطرے کے بجائے ملک کے داخلی خطروں کو زیادہ اہم قرار دیا ہے، تو اس ایک موضوع پر تو الطاف بھائی اور ہماری افواج اب ایک ہی موقف رکھتے ہیں۔ علامہ قادری کے ساتھ جس سرعت اور آسانی کے ساتھ ان کے سُر و تال ملی ہے وہ بھی قابل دید ہے۔ قادری صاحب کہتے ہیں انہوں نے کبھی الطاف بھائی کو نہیں دیکھا لیکن اب دن میں دو دفعہ فون پر بات ہو جاتی ہے مگر جس موضوع پر ابھی زیادہ روشنی نہیں ڈالی گئی وہ کراچی میں لانگ مارچ ہے یعنی علامہ صاحب تو پنجاب سے اپنے لاکھوں پرستاروں کو لے کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے اور متحدہ ان کے ساتھ شامل ہو گی مگر کراچی میں بھی ایک Mini-Islamabad تو بن ہی گیا ہے جس کی حدود اربعہ ساحل سمندر سے باربی کیو ہوٹل تک تو پھیلا ہوا ہے اور اگر ایک لانگ مارچ کی شاخ الطاف بھائی کے تمام Recalled troops کے ساتھ اس چھوٹے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیتی ہے تو وہاں کے مکینوں کا کیا ہو گا کیونکہ اطلاع یہی ہے کہ جو بھی اسلام آباد میں خطرہ محسوس کرتا ہے وہ ساحل سمندر کے پاس بہت محفوظ ہو جاتا ہے تو علامہ قادری کو متحدہ کی ضرورت اسلام آباد میں کم اور کراچی کے کلفٹن کے علاقے میں زیادہ ہے۔ مزید اس پر بات ابھی نہیں ہو سکتی مگر جو بات ہر جگہ ہو رہی ہے اور صورتحال کھل کر سامنے نہیں آ رہی وہ اس موضوع سے منسلک ہے یعنی PPP کی بنائی ہوئی عبوری حکومت اور ایک تمام لوگوں کی مشاورت سے بنائی گئی عبوری حکومت کے ایجنڈے میں فرق کیا ہو گا۔ اگر صرف الیکشن ہی کرانا ہے تو وہ کام تو فخرو بھائی، فوج اور دوسرے ادارے مل کر پوری طرح صاف اور شفاف کرا ہی سکتے ہیں تو پھر ایک عبوری حکومت کے لئے اتنے لمبے چوڑے لاکھوں کے مجمعوں اور لانگ مارچ کی کیا ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ پھر عبوری حکومت کے ایجنڈے کا ہے کہ کیا وہ صرف انتخاب کے لئے آئے گی یا باقی دوسرے کام بھی شروع کرے گی یعنی اصلاحات، احتساب، چوروں اور ڈاکوؤں کو پکڑنا، ملکی معیشت کو ٹھیک کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اگر اصلاحات شروع کی گئیں تو کیا آئین میں ترامیم ضروری ہوں گی،کیا صرف قانون تبدیل کرنے ہوں گے۔ جو صدر یا گورنر ایک آرڈیننس جاری کر کے بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ میں نے یہ بھی سنا کہ شاید کوئی3 یا 4 دن کیلئے ایک ایسی آئینی کارروائی کر دی جائے جیسی جنرل مشرف نے کی تھی یعنی آئین کو دو چار دن کے لئے چھٹی پر بھیج کر کام مکمل کر لیا جائے اور پھر گاڑی کو دوبارہ پٹڑی پر دھکا دیدیا جائے۔ گو یہ کام مشکل ضرور ہے مگر صورتحال اگر بالکل بے قابو ہو گئی تو داخلی فرنٹ کو جن لوگوں نے حال ہی میں ملک کا سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے انہیں کوئی قدم تو اٹھانا ہی پڑے گا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان اپنے اصلی کام میں مکمل ناکام ہو گئے ہیں مگر وہ اس ناکامی کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں۔ جو مسئلے موجود ہی نہیں تھے مثلاً تیل، گیس، CNG کی قلت، اداروں کا Collapse جن میں سارے ادارے آتے ہیں بشمول PIA، ریلوے، اسٹیل مل وغیرہ۔ امن عامہ کی صورتحال، دہشت گردی یہ سب سیاستدانوں نے حل کرنے کی بجائے کوئی توجہ ہی نہیں دی اور دی بھی تو لوٹ مار کرنے پر اب CNG والوں کا بیان ہی پڑھ لیں، فرماتے ہیں ایک اسپتال کے ڈاکٹر صاحب نے یہ مسئلہ بنایا ہے اور ان کو جب تک کابینہ سے نکالا نہیں جاتا کوئی پیشرفت نہیں ہو سکتی۔ ان پہاڑوں جیسی ناکامیوں کو حکومت اور پارلیمینٹ اس نعرے کے پیچھے چھپانا چاہتی ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔ آپ کی ناکامی جمہوریت اور سیاسی نظام کیلئے خطرہ تو ہو سکتی ہے مگر کوئی یہ سب بربادی روکنے کی کوشش کرے تو وہ خطرہ کیسے بن گیا۔ ذرا سوچئے اگر سپریم کورٹ وہ نہ کرتی جو اس نے اب تک کیا تو ملک کا کیا حال ہوتا۔ ملک کی ہر فیکٹری اور صنعت کرائے پر چڑھ چکی ہوتی۔ بڑے بڑے ادارے جیسے PIA، ریلوے اور اسٹیل مل اپنے یاروں اور دوستوں کی ملکیت بن چکے ہوتے۔ ہر چور اور ڈاکو جو پکڑا جاتا معاف کر دیا جاتا یا ملک سے باہر بھاگ چکا ہوتا۔ ہر سیاسی اور میڈیا کے مخالف کو فکس کر دیا جاتا یا تو لوگ چوری میں شامل ہوجاتے یا ان کی ایسی درگت بنائی جاتی کہ کوئی سر نہ اٹھا سکتا۔ جمہوریت کے نام پر ایک ایسی قانونی اور پارلیمانی آمریت سوار کر دی جاتی کہ جینا محال ہو جاتا۔ عدلیہ اور فوج میں اپنے تابعدار لوگ بٹھا دیئے جاتے اور کئی میمو گیٹ ایسے دبا دیئے جاتے کہ وکی لیکس کیا کسی کو سالوں تک کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ بڑی پارٹیاں اپنی اپنی باری لگا کر مزے اڑاتیں اور باقی سب اللہ اللہ کرتے۔ مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں اور تیری جستجو بھی نہیں۔ اب صرف جان بچا کر بھاگنے کے انتظامات پر زیادہ زور ہے۔
سیاسی حالات اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ایک ہفتہ پورا سال نظر آتا ہے۔ پچھلے ہفتے میں نے لکھا تھا کہ قدوسی صاحب کی بیواؤں کا ذکر کروں گا مگر ان بیواؤں کی تعداد اتنی ہو گئی ہے کہ گننا مشکل ہے۔ یہ وہ لیڈر اور پارٹیاں ہیں جو اندر سے ایک ہی شکل و صورت کی ہیں مگر روپ بدل بدل کر لوگوں کے سامنے آتی ہیں اور ایک سسرال سے دوسرے سسرال چھلانگ لگانا روز کا معمول ہے۔ میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ کالم کا عنوان ”ظالمو! قاضی آ رہا ہے“ کی بحر میں ”ظالمو! قادری آ رہا ہے“ رکھوں گا مگر قاضی حسین احمد صاحب کے اچانک انتقال نے بہت غمگین کر دیا۔ قاضی صاحب سے میری یاد اللہ کوئی40 سال پرانی تھی جب وہ پشاور میں جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ تھے اور میں رپورٹنگ کرتا تھا۔ وہ اکثر پریس ریلیز لے کر خود دفتر آ جاتے تھے اور بڑی گپ لگتی تھی۔ جب وہ امیر بنے تو میں ان سے ملنے منصورہ بھی گیا اور انہوں نے سادہ مگر لذیذ ظہرانہ دیا۔ انتہائی زیرک مگر شریف اور قاعدہ قانون کے پابند لیڈر تھے۔ ہو سکتا تھا کہ وہ شاید ساری سیاسی پارٹیوں کے مشترکہ عبوری وزیراعظم بھی بن جاتے مگر جلد ہی چلے گئے۔ اللہ ان کو یقیناً جنت الفردوس میں جگہ دے گا اور ان کے لواحقین کو صبر اور ہمت عطا کرے گا،آمین۔
تازہ ترین